الطاف شیخ کئی بحری جہازوں کے سینیئر انجنیئر رہے ہیں۔پرانے سمندری جہازوں کوگڈانی شپ بریکنگ یارڈ یا بقول ایک کپتان ‘جہازوں کے قبرستان’ کی طرف لایا جاتا ہے جہاں سے کوئی جہاز واپس نہیں آیا۔گڈانی میں کئی جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے انتظار میں ہیں مگر ایم وی مالاکنڈ کو اس قطار میں دیکھ کر اس جہاز کے پہلے کپتان الطاف شیخ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ الطاف شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایک دن اپنی بیٹی مریم کے ہمراہ کیماڑی سے گز رہے تھے کہ مریم نے اپنے تیرہ سالہ بیٹے احسن کو ایک جہاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ‘یہ ایم وی مالاکنڈ جہاز ہے جس پر میں نے تمہارے نانا کے ساتھ تب ایک سال گزارا جب میں سات سال کی بچی تھی۔اب یہ جہاز سکریپ ہونے جا رہا ہے۔’ الطاف شیخ کے مطابق مریم کی گفتگو کے وقت وہ ڈرائیونگ پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے تھے مگر پھر بھی اپنی آنکھوں سے نکلتے ہوئے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے۔
الطاف شیخ ویسے تو کئی بحری جہازوں کے چیف انجینیئر رہ چکے ہیں مگر ان کے مطابق موٹر ویسل مالاکنڈ یعنی ایم وی مالاکنڈ سے انہیں ایک بچے کی طرح پیار رہا ہے کیونکہ تیس سال پہلے جب مالاکنڈ صرف کاغذی نقشوں پر موجود تھا تو جاپان کی ٹوکیو شپ یارڈ میں انہوں نے جہاز کی تعمیر کی نگرانی کی تھی۔
ایم وی مالاکنڈ انیس سو اسی میں جاپان کی آئی ایچ آئی یعنی ایشکا وہریما ہیوی انڈسٹریز میں تعمیر کیا گیا۔اٹھارہ ہزار دو سو چوبیس ٹن وزنی جہاز کی لمبائی ایک سو باون میٹر ہے۔الطاف شیخ اس وقت پینتیس سالہ نوجوان چیف انجنیئر تھے اور آج پینسٹھ سالہ بزرگی کی عمر میں بھی انہیں ایسے لگ رہا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ انہوں نے بھر ائی آواز میں مالاکنڈ کو خیرآباد کہا: ‘بائی بائی مالاکنڈ، ہم پھر کبھی نہ مل سکیں گے’۔
الطاف شیخ کئی بحری جہازوں کے سینیئر انجنیئر رہے ہیں۔انہوں نے پاکستان میرین اکیڈمی کی بارہ برس اور ملائیشیا کے نیول اکیڈمی کی آٹھ سال سربراہی کی ہے۔الطاف شیخ نے کیڈٹ کالج پٹارو سے فارغ ہونے کے بعد میرین اکیڈمی چٹاگانگ میں تعلیم حاصل کی۔انہوں نے بعد میں مالمو سوئیڈن کی عالمی میری ٹائیم یونیورسٹی سے پوسٹ گریجوئشن کی۔الطاف شیخ اردو اور انگریزی کے علاوہ بنگالی،جاپانی اور ملئی زبانیں روانی سے بول سکتے ہیں۔انہوں نے چھیاسٹھ کتابیں لکھی ہیں جو اکثر ان کے سفرناموں پر مشتمل ہیں۔انہیں دو ہزار آٹھ میں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی طرف سے شاہ عبدالطیف بھٹائی ایوارڈ دیا گیا تھا۔
الطاف شیخ نے انیس سو اسی میں ایم وی مالاکنڈ کی جاپان میں تعمیر کے دوران نہ صرف نگرانی کی مگر پاکستان کی طرف پہلے سفر کے دوران وہ جہاز کے چیف انجنیئر بھی رہے ہیں۔الطاف شیخ کا ماننا ہے کہ جس طرح کوئی مال مویشی دودھ دینا بند کرتا ہے تو مالکان اسے قصائی کے حوالے کرتے ہیں جو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے فروخت کرتا ہے۔ ‘پرانے جہازوں کی کہانی بھی ایسی ہے کہ جب یہ سمجھا جاتا ہے کہ جہاز کی مرمت، دیکھ بھال اور اسے لائقِ سمندر بنانے کے اخراجات حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں تو جہاز کے سکریپ کا اعلان کیا جاتا ہے۔’الطاف شیخ کے مطابق مالاکنڈ نے تیس سال پاکستان کی خدمت کی ہے ۔الطاف شیخ کے مطابق سکریپ کے اعلان کے بعد کباڑ والے جہاز کی مان، شان اور آن کی نہیں باقی ماندہ جان کی قیمت لگاتے ہیں۔اور جہاز کو پرانے اور ناپسندیدہ جہازوں کے قصاب گھر یعنی گڈانی پہنچایا جاتا ہے۔
گڈانی انیس سو اسی کی دہائی میں دنیا کا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ رہا ہے۔ الطاف شیخ کے مطابق وہ پاکستان نیول شپنگ کارپوریشن کے دیگر جہازوں کے بھی چیف انجنیئر رہ چکے ہیں مگر انہیں ایم وی مالاکنڈ سے ہمیشہ پیار رہا ہے۔انہوں نے ایم وی مالاکنڈ کو یورپ اور افریکی پورٹس تک پہنچانے کے لیے سویز کینال اور کیپ آف گڈ ہوپ کے ذریعے بھی سفر کیا ہے۔
ایم وی مالاکنڈ کو دس سال کی خدمت کے لیے بنایا گیا تھا مگر جہاز کے پہلے چیف انجینئر کے مطابق مالاکنڈ نے تیس سال پاکستان کی خدمت کی ہے۔
٭٭٭