بیس برس بیت گئے مگر میرے ذہن میں وہ منظر آج بھی اسی طرح تازہ ہے جس طرح کل کی بات ہو۔ وہ موسم بہار کی ایک سہانی صبح تھی ۔میں نماز فجر کے معاً بعد سیر کے لیے نکلا۔ ملتان روڈ(لاہور) پر سڑک پار کرنے کے لیے کھڑا تھا کہ اسی وقت ایک کتیا بھی اپنے چار بچوں کے ساتھ وہاں آ کھڑ ی ہوئی۔میں نے چاہا کہ اس کتیا کو بھی اپنے ساتھ لے چلوں لیکن وہ مجھ سے پہلے ہی سڑک پر اتر چکی تھی۔ چاروں بچے اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے ۔ ٹریفک کا رش تھا۔ادھر وہ سڑک کے درمیا ن میں پہنچی اور ادھر ایک تیز رفتا رکا ر اس کے سر پر آ پہنچی ۔ کتیا نے پیچھے مڑ کر بچوں سے کچھ کہا اور وہ سب تیزی سے آگے بڑھے مگر کار زیادہ تیز تھی۔ڈرائیور کی کوشش کے باوجود ایک بچہ اس کی زد میں آگیا اور کار اس کو کچلتی ہوئی گزر گئی ۔ ایک ہلکی سی چیخ بلندتو ہوئی مگر وہ ٹریفک کے شور میں گم ہو کر رہ گئی ۔ ماں ایک لمحے کو وہاں ٹھہری مگر اتنے میں دو بچے آگے گزر گئے اورافسوس کہ وہ دونوں دوسری طرف سے آنے والی ایک بس کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ بس اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہی اور اس کے مسافروں کو یہ علم تک نہ ہو سکا کہ ان کی مشین تلے ایک ماں دو بچوں سے محروم ہو کر رہ گئی ہے۔ مشینوں کا یہی نقصان ہے ۔ مشینی دور میں انسانی جذبات بھی اسی طرح کچلے جا رہے ہیں مگر مشینوں کو معلو م بھی نہیں ہو پاتاکہ کیا سانحہ ہوگیا ہے او رنہ ہی اُن انسانوں کو جو مشین بن کر رہ جاتے ہیں۔
یہ کتیا عجیب کش مکش کا شکار تھی ۔ اس نے ایک نظر پیچھے مڑ کر سڑ ک پر بکھر ی ننھی سی لاش کودیکھا اور پھر ان دو لاشوں کی طرف متوجہ ہوئی ۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے وہ ان سے کچھ کہنا چاہ رہی ہومگر فوراً ہی اسے اپنے چوتھے بچے کا خیال آیا جو اس منظر سے ڈر کر بھاگ کھڑا ہو ا تھا وہ اس کے پیچھے بھاگی مگر سڑ ک کنارے کچے راستے پر دونوں ما ں بیٹا ایک موٹر سائیکل کی زد میں آ گئے ۔ کتیا تو زخمی ہو کر اٹھ بیٹھی مگر بچہ موٹر سائیکل سے ٹکرا کر دور جا گرا تھا ۔ ماں لپک کر اس کے پاس پہنچی ۔ اس کی چند سانسیں باقی تھیں ۔ ماں نے اس کے کان میں کچھ کہا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر پھر ایسا گراکہ دوبارہ نہ اٹھ سکا۔ کتیا اس انتظار میں اس کے پاس کھڑی رہی کہ وہ ابھی اٹھ جائے گا مگر جسے موت گرا دے اسے کون اٹھا سکتا ہے! ۔وہ سر جھکائے کھڑی تھی ۔ جب اسے یقین آ گیا کہ اب یہ ،نہ اٹھے گا تو اس نے ایک بار پھر حسرت بھری نگاہ سڑک پر بکھری ہڈیوں پر ڈالی اور سڑک کے دوسری طرف سر جھکائے، زخمی قدموں اور بوجھل دل کے ساتھ گڑھے میں اترتی چلی گئی۔۔۔ میں وہیں ساکت و جامد ہو کر رہ گیا تھا ۔ جب تک وہ کتیا مجھے نظر آتی رہی، میں اسے دیکھتا رہا اور جب و ہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئی تو بجائے سیر کے میں واپس گھر چل پڑاتھا۔ کتنے ہی دن ، وہ بکھری لاشیں ،اس کتیا کا اداس چہرہ ، اس کے بوجھل قدم اور اس کی حسرت ناک نگاہیں میری آنکھوں کے سامنے گھومتی رہیں مگر آخر کب تک۔۔۔ وقت خود ہی دیوار بنا دیتا ہے اور کتنے ہی منظر دیوار کے اُس پا ر چلے جاتے ہیں۔ اور اب جب کبھی یہ دیوار ہٹتی ہے تو خود سے پوچھتا ہوں کہ کیا اس سے بھی زیادہ حسرت زدہ منظر میں نے کبھی دیکھا ہے تو فوراً ذہن میں اس ماں کا چہر ہ آجاتا ہے جس کے ہاتھوں سے موت ہر دو سال بعد اس کا جواں سال بیٹا چھین کے لے جاتی تھی اور و ہ ہاتھ ملتی رہ جاتی تھی ۔ ویسے توغموں نے تو اس کے گھر کوکب سے رستہ بنا رکھا تھامگر یہ تین مضبوط اینٹیں ماں کی دیوار کو تھامے کھڑی تھیں۔وہ کیا گریں کہ وہ خود بھی ڈھیر ہو کر رہ گئی۔ پھر سوچتا ہوں کہ کیا اس سے بھی زیادہ حسرت آیات منظر کوئی دیکھا ہے ۔ تو یکدم آنکھوں کے سامنے وہ باپ آ جاتا ہے جو اپنے جواں بیٹے کو اپنے ساتھ کام پر لے کر گیاتھا۔ اس نے بیٹے کو سائن بورڈ لگانے کے لیے دکان کی چھت پر چڑھایا اورخود نیچے کھڑا رہا ۔ ہنستے کھیلتے بیٹے کو اس نے نیچے سے بورڈ پکڑایا ۔ بیٹے نے اوپر کھینچا ۔ اوپر بجلی کی بڑی تاریں تھیں۔ بورڈ اس سے ٹکرایا ،کرنٹ دوڑا اور بیٹا پھڑ ک کر باپ کے ہاتھو ں میں آ رہا۔ چند لمحے پہلے یہ جواں سال بیٹے کے ساتھ ہنسی خوشی جا رہاتھا اور چند ہی لمحوں بعد اس کے بے جان لاشے کو اٹھائے یہ گھر لوٹ رہا تھا۔اس باپ کا چہر ہ بھی مجھے اکثر یاد آتا رہتاہے اوران والدین کا بھی جو اپنے دو سالہ بیٹے کو لاہور کا چڑیا گھر دکھانے لے گئے تھے۔ماں نے بیٹے کو گود اٹھایا ہواتھا۔ ریچھ کے پنجرے کے پاس پہنچے تو شرارت سے بچے کو جنگلے کے ساتھ کر دیا ۔ ریچھ نے یکدم سے پنجہ مارا اور بچے کو دبوچ لیا ۔ ماں باپ بچے کو اپنی طرف کھینچنے لگے اور ریچھ دوسری طرف ۔ والدین ہار گئے ، اور آج کے ہر ریچھ کی طرح یہ ریچھ بھی جیت گیا۔ بچہ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا ۔ آدھا ریچھ کے پنجے میں اور آدھا ماں باپ کے ہاتھوں میں۔ یہ ثابت و سالم بیٹا لے کر گئے تھے اور اس کے دو ٹکڑے لے کر گھر لوٹے۔
اگرچہ اس بات کو جانتا ہوں کہ ریچھوں کے دور میں ہر طرف الم ہی الم ہی ہوتا ہے لیکن اس سب کے باوجود نہ جانے پھر بھی کیوں سوچتا رہتا ہوں کہ کیا اس سے بھی زیادہ المناک منظر کوئی اور ہو گا؟ اور پھر جب مجھے آقا ﷺ کی وہ حدیث یاد آجاتی ہے جس میں آپ نے قیامت کا ایک منظر بیان کیا ہے تو دنیا کے سارے الم کمتر نظر آنے لگتے ہیں اور ساری حسرتیں چھوٹی چھوٹی۔ ایسے میں میری سوچوں کا سفر پورا ہو جاتا ہے اور یقین آجاتا ہے کہ اس سے زیادہ حسرت زدہ اور غمناک منظر واقعی اور کوئی نہ ہوگا۔حضورؐ کے بیان کامفہوم یہ ہے کہ قیامت کے میدان میں ایک مسلمان نیکیوں کے پہاڑ لے کر آئے گا۔ نمازیں ،روزے، تہجد ، حج ،ذکراذکار، تسبیحات ۔۔۔مگر اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ، کسی کا حق دبایا ہو گا، کسی کو برا بھلا کہا ہو گا، کسی کوطنز کیا ہو گا ، کسی کا دل دکھایا ہوگا۔ سارے لوگ بدلہ لینے کے لیے اللہ کے حضور فریادی ہوں گے ۔ اللہ کہیں گے کہ پہلے ان سے حساب چکاؤ۔ حساب چکانے کے لیے سوائے نیکیوں کے کچھ نہ ہو گا اور یہ مجبور ہو گا کہ حق والوں کو نیکیاں دے کر بدلہ چکائے ۔ حق والے آتے جائیں گے اور اپنے اپنے حق کے بدلے نیکیا ں لیتے جائیں گے ۔ حتی کہ اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی ۔ اب بدلہ چکانے کے لیے معکوس عمل شروع ہو گا۔نیکیاں تواس کے پاس ختم ہو چکی ہوں گی چنانچہ حق کا بدلہ دینے کے لیے حق والوں کے گنا ہ لے کر اس پر ڈال دئیے جائیں گے اور یہ دوسروں کے گناہ لے کر جہنم کے گھاٹ اتر جائے گا۔
سوچتا ہوں کہ اس دنیا میں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ بچ ہی جاتا ہے اور نہیں توکم از کم اپنا آپ، اپنا آپ بھی کسی شکنجے میں پکڑا جائے تو کوئی نہ کوئی چھڑانے والا بھی مل ہی جاتا ہے مگر وہاں نہ تو اپنا آپ بچ پائے گا اور نہ ہی کوئی اس جہنمی شکنجے سے چھڑانے والا ہو گا۔ ۔۔۔۔(من قبل ان یاتی یوم لابیع فیہ ولا خلۃ ولا شفاعۃ ۔۔۔یوم لا ینفع مال و لا بنون ۔۔۔ فیومئذلا ینفع الذین ظلموامعذرتہم ولا ہم یستعتبون۔۔۔) اور پھر جہنم کے اس گڑھے میں عذاب الگ اور یہ افسوس الگ کہ نیکیوں کے پہاڑ لایا بھی مگر سب کے سب لٹ گئے اور ان کے ہوتے ہوئے بھی خالی کا خالی رہ گیا۔ پہلے ہی سے کچھ نہ ہو تو افسوس کاہے کا ۔۔۔! اور جب سب کچھ ہوتے ہوئے بھی آنکھوں کے سامنے لٹ جائے اور انسان خالی ہاتھ کھڑا رہ جائے تو پھر جو افسوس ہو تا ہے اس کو نہ تودنیا کا کوئی قلم لکھ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی زبان بیا ن کر سکتی ہے ۔ رسولؐ خدا نے جو بیا ن کر دیا ،اس سے بہتر بیان نہ پہلے کبھی ممکن ہوا ہے اور نہ بعد میں کبھی ہوگا ۔ اس لیے بھلا اور بچاؤ اسی میں ہے کہ ایسی ہر حسرت سے بچنے کے لیے آج نبی کی خبر پر یقین کر لیا جائے ۔ ورنہ کل نظر سے تو سب ہی دیکھ لیں گے پھر یقین کیا ، نہ کیا، سب برابر ہو گا۔