وہ دونوں نہایت اچھے دوست تھے۔ ان کا تعلق کچھ ایسا پرانا اگر نہیں تو نیا بھی نہیں تھا۔ یہی کوئی لگ بھگ ڈیڑھ برس سے وہ اکٹھے تھے۔ یہ ڈیڑھ برس ہم میں سے بہت سوں کی زندگی کے بہترین ایام تھے کیونکہ ہم سب نے بلاشبہ اس ڈیڑھ برس کے دوران پڑھائی سے لے کر کھیلنے کودنے تک سب کچھ اکٹھے ہی کیا تھا اور ہم سب بہت اچھے دوست تھے۔ نجانے کیا ہوا کہ ہم میں سے دو دوستوں کی ان بن ہو گئی۔ ایک دوست نے دوسری کے خاندان کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے مگر اس کی زبان پر کوئی حرف احتجاج نہ آیا ۔ ہاں مگر! اس کی آنکھوں کی نمی میں نے ضرور محسوس کر لی تھی۔ اس کے بعد جس کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اس کے رویے میں تو کوئی فرق نہ آیا، اس کے خلوص میں تو کوئی کمی واقع نہ ہوئی لیکن یہاں تو گنگا الٹی بہتی ہے سو، زیادتی کرنے والا اس بات پر ڈٹ گیا کہ اس نے بالکل درست کیا ہے۔ ہم سب نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔ میں اس بات پر حیران تھا کہ جس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے وہ تو بالکل خاموش ہے اور اس نے کوئی گلہ تک نہیں کیا۔ خیر ہم سب ہی یہ معاملہ سلجھانے کی کوشش کرتے رہے مگر سب ہی ناکام رہے۔ کچھ ہی روز بعد وہ دوست کہ جس کی زیادتی تھی اور جو اس پر مصر تھا کہ میں نے اگر اس کے خاندان کے بخیے ا دھیڑے ہیں تو درست کیا ہے ، وہ خود ہی اس سے معافی کا خواستگار تھا…… جو کہ ہم سب کے لیے بہت حیران کن تھا کیونکہ یہ تو ہم سب ہی جانتے تھے کہ وہ بلا کسی عذر کے اپنی غلطی پر ڈٹ جانے والا ہے اور وہ نہیں مانے گا لیکن یہ دیکھ کر ہم سب کو بہت ہی خوشگوار حیرت ہوئی…… میں نے دوسرے سے پوچھا تووہ مسکرا دیا اور صرف اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا …… آخر عالی ظرف ہونا بھی کوئی شے ہے …… اور انسانوں کو فتح کرنے کا سب سے راست طریقہ یہی ہے۔
٭٭٭
آج کم و بیش اس بات کو چھ برس گزر چکے ہیں۔ میں اس وقت دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہمارے بورڈ کے ا متحان ہونے والے تھے۔ کلاس میں سب ہی کو یہ فکر تھی کہ کہیں حاضری کم ہونے کی بدولت ان کا داخلہ نہ روک لیا جائے۔ اس وقت سب سے پہلے جس لڑکے کا داخلہ بھیجا گیا ، وہ ہم سب کے لیے حیران کن تھا۔ یہ وہی لڑکا تھا کہ جس نے استاد محترم سے پانچ ہزار روپے بطور قرض لیے تھے کہ گھر میں بہت اشد ضرورت ہے اور آپ کو جلد ہی واپس لوٹا دیے جائیں گے۔ گھنٹے دنوں میں اور دن مہینوں میں بدلتے گئے مگر اس نے رقم واپس نہ لوٹائی بلکہ اس نے سکول اور اکیڈمی آنا ہی چھوڑ دیا اور نہ ہی اس دن کے بعد اس کی ماں کبھی دکھائی دی۔ میں نے استاد محترم سے وجہ دریافت کہ کیوں آپ نے ایک ایسے لڑکے کا داخلہ بھیج دیا ہے کہ جو بہت زیادہ غیر حاضر رہا ہے۔ استاد محترم کا مخصوص انداز میں دیا گیا جواب آج بھی میری سماعتوں میں اسی طرح محفوظ ہے کیونکہ اس جواب نے مجھے شدید حیرت زدہ کر دیا تھا کہ بظاہر ایک انتہائی سخت دکھائی دینے والا شخص اندر سے کتنا نرم ، انسان دوست اور کتنی بڑی شخصیت کا مالک ہے ۔ انہوں نے فرمایا: ‘‘بخاری! اگر میں داخلہ نہ بھیجتا تووہ سمجھتے شاید میں نے رقم کی وجہ سے داخلہ نہ بھیجا۔’’ حالانکہ اس لڑکے کی حاضریاں کسی صورت پوری نہ ہوتی تھیں ۔ انہوں نے مجھے مزید کہا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ اسے یا اس کی ماں کو صرف اس بات سے شرمندہ ہونا پڑے اور میں یہ جواب سن کر حیران و پریشان انہیں بس تکتا ہی رہ گیا……
٭٭٭
یہ بھی انہی دنوں کا قصہ ہے جب میں میٹرک میں تھا۔ ہمارے ایک استاد محترم جو کہ ہمارے محلے دار تھے مجھ سے بہت لگاؤ رکھتے تھے جسے میں اس وقت بالکل بھی سمجھ نہ پایا۔ اس سے پہلے میں کوئی بہت زیادہ فرمانبردار واقع نہ ہوا تھا بلکہ مجھے یہ بات کہتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ میں اس وقت ایک ‘‘شوخا اور بدتمیز’’ لڑکا تھا۔ وہ ہمیشہ مجھے دوسروں سے آگے دیکھنا چاہتے تھے ۔ اسی واسطے وہ مجھ سے سختی برتتے کہ میں پڑھائی میں دل لگاؤں اور مجھے یاد ہے اور میں شرمندہ ہوں کہ میں بھری کلاس میں جہاں کم از کم سو بچہ تھا ، میں ان کے ساتھ خوب بدتمیزی کیا کرتا تھا۔ مگر آفرین ہے ان کے پائے استقلال پر کہ انہوں نے کبھی مجھے کچھ کہا ہو ، ہمیشہ بڑے تحمل سے میری بدتمیز کو برداشت کرتے۔ پہلے پہل تو میں اس کو اپنی فتح گردانتا رہا مگر جب میں دسویں کلاس میں آیا تو مجھے احساس ہو گیا کہ میں بہت بدتمیزی کرتا ہوں لہذا میں نے ان کی گستاخی کرنی چھوڑ دی بلکہ اپنے تمام اساتذہ کا احترام کرنے لگا۔ مجھے آج محسوس ہوتا ہے کہ اگر اس وقت وہ اعلی ظرفی کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے تو میں شاید کبھی بھی اس حقیقت کو پہچان نہ پاتا……
٭٭٭
رسول عربی ﷺ کا وہ واقعہ تو سب ہی کو یاد ہے ، ہاں صرف یاد ہے ، کردار پہ اس کا کوئی شائبہ تک نہیں کہ اللہ کے حبیبﷺ مدینے کی گلیوں میں سے گزار کرتے تو ایک بڑھیا آپﷺ پر گندگی پھینکتی مگر آپ نے کبھی اس بات کا برا نہ منایا اور اور اس کے بعد وہ اس کائنات کے سب سے اعلی ترین ظرف رکھنے والے انسان کی اعلی ظرفی سے اتنا متاثر ہوئی کہ اس نے اسلام قبول کر لیا……
آج یہ سب واقعات ہم کو یاد کرائے جاتے ہیں نہ کہ ہمارے کردار میں شامل کیے جاتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ کی گنجائش تک نہیں کہ رسول اعلیﷺ سے بلند اخلاق والا انسان اس دنیا میں نہ تو مبعوث ہوا اور نہ ہی ہو گا۔ حضور اعلیﷺ کے اسوہ میں سے ایک نہایت ہی اہم سبق ‘‘عالی ظرف’’ کا ہے۔ آج اگر ہم سب اس بات پر آجائیں تو سب مسائل کا حل ممکن ہے۔ وہ تو رسول تھے لیکن آج کے زمانے میں بھی چند عالی ظرف لوگ موجود ہیں جن میں سے چند کا تعارف آپ حاصل کر چکے ہیں۔
انسان کیا ہے؟ انسان جذبات و احساسات و خواہشات و نسیان کا مرقع ہے ۔ اسی انسان سے جب کوئی نسیان ہو جائے تو ہم اس کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ اگر اس وقت ہم دوسری کی غلطی پہ پردہ ڈالتے ہوئے تھوڑا سا دل بڑا کریں تو کبھی کوئی مسلہ سر نہ اٹھائے۔ کبھی ہمارے گھروں میں مسائل جنم نہ لیں ۔ کبھی معاشرے میں بگاڑ جڑ نہ پکڑے ۔ اتنے گھمبیر مسائل کا علاج انتہائی ادنی ہے …… اور وہ ہے ‘‘دل بڑا کرنا’’۔
میری دانست میں انسانوں کے ساتھ معاملات جزا اور سزا کی بنیاد پر نہیں کیے جا سکتے۔ جزا اور سزا شاید کسی بھی انسان کے اندر بنیادی تبدیلی لانے کا ناکام تصور ہے ۔ بنیادی تبدیلی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ آپ اپنے مخاطب کو بڑے تدبر اور احتیاط سے اس کی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر اس کو یہ باور کروا دیں کہ محترم آپ غلط ہیں ، آپ کو اپنا رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور میری ناقص رائے میں یہ صرف اور صرف اسی وقت ممکن ہے کہ آپ اپنے مدمقابل میں ‘‘احساس ’’ پیدا کریں اور احساس صرف اور صرف ایک عالی ظرف انسان ہی پیدا کر سکتا ہے۔
اوپر بیان کی گئی مثالوں میں یہ بالکل واضح ہے کہ اگر وہ اپنے دوست کے ساتھ الجھتا تو وہ کبھی بھی ‘‘سوچنے’’ پر مجبور نہ ہوتا ، کبھی بھی اس کو اپنی غلطی کا ‘‘احساس’’ نہ ہوتا۔ بالکل اسی طرح مجھے بھی کبھی اپنی غلطی کا ‘‘احساس’’ نہ ہوتا ۔ سو ہم سب کو ایک بہتر خاندان اور ایک بہتر معاشرہ تخلیق دینے کے لیے اپنے اپنے ‘‘ظرف’’ میں وسعت پیدا کرنی چاہیے ورنہ بہتری کا اور کوئی ‘‘متبادل’’ موجود نہیں ہے……!!!