۳۶ سالہ جرمن آئی سرجن جی میشل کو افریقی مسلمانوں کو گمراہ کر کے عیسائیت کے دائرے میں داخل کرنے کا مشن سونپ کر صومالیہ جانے کا حکم دیا گیا۔ سرجن جی میشل کو ڈاکٹروں کی ٹیم کا سربراہ بنایا گیا، جنھیں بظاہر صومالیہ میں پھوٹ پڑنے والی آنکھوں کی بیماری کا علاج کرنا اور صومالی مسلمانوں کو اس بیماری سے بچاؤ کی تدابیر سے آگاہ کرنا تھا۔ جی میشل ۱۹۸۷ ء کے درمیانی مہینوں میں اپنی ٹیم کے ہمراہ صومالیہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ آئیے ڈاکٹر جی میشل کی صومالیہ میں پر اسرار سرگرمیوں اور خفیہ مشن سے متعلق واقعات خود انھی کی زبانی سنتے ہیں جو انھوں نے حال ہی میں ایک نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے آشکار کیے ہیں۔
ڈاکٹر جی میشل کہتے ہیں کہ میرے لیے صومالیہ کا سفر اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات انتہائی دلچسپ رہی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے وجود میں پھیلی اس خوشی کی اصل وجوہات کیا تھیں، معلوم نہیں کہ اس خوشی کا راز کس بات میں پنہاں تھا۔ میری صومالیہ آمد پر وہاں کے معصوم لوگوں کی جانب سے دلفریب استقبال کی وجہ یہ تھی کہ شدید بھوک اورافلاس کے باوجود ان غیرت مند لوگوں میں عزت نفس بدستور موجود تھی۔ میری خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ ان لوگوں کے چہروں سے معصومیت کے علاوہ امانت اور صداقت بھی صاف عیاں تھی۔
اپنی ٹیم کو لے کر صومالیہ پہنچنے کے فوری بعد ہم نے اپنے طبی مراکز کا آغاز کر دیا اور انتہائی محنت و لگن کے ساتھ وہاں پھیلی آنکھوں کی بیماری کے خلاف کام شروع کر دیا۔ درج بالا عوامل کی بنا پر یہ طبی مرکز میرے لیے زیادہ دلچسپ تھا، اسی لیے میں زیادہ تر طبی مرکز ہی میں رہتا تھا۔ ہم اپنے کام میں اتنے مشغول رہے کہ میں عیسائیت کے پرچار اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے مشن ہی کو بھول گیا۔ بہت کم عرصے میں ہی یہاں کے متعدد مسلمان میرے اچھے دوست بن گئے، وہ مجھ سے طرح طرح کے سوالات کرتے اور میں بھی ان سے اپنی مشکلات کے حل کے حوالے سے کچھ نہ کچھ پوچھتا رہتاتھا۔لوگوں کے علاج معالجے میں کسی قسم کی کسر نہ چھوڑنے کی بنا پر میں نے عام لوگوں میں انتہائی مقبولیت حاصل کر لی، اپنے پیشے میں مہارت کے سبب میں نے سینکڑوں لوگوں کو نابینا ہونے سے بچانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ جہاں بھی جاتا اور جن لوگوں سے بھی ملتا، مجھے بہت پیار اور عزت دی جاتی، اگرچہ میں ان کی زبان سے ناآشنا تھا، تاہم ان لوگوں کے چہرے کے تاثرات میرے دامن کو عقیدت کے پھولوں سے بھر دیتے تھے۔
پانچ مہینے اسی طرح گزر گئے لیکن ایک دن خلاف توقع ہمارے مرکزی دفتر واقع جرمنی سے مجھے ایک ٹیلی گراف موصول ہوا، جس میں مجھے فوری طور پر جرمنی پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا۔دل میں سوچا کہ شاید میرے کام اور محنت کے سبب میرا ادارہ میری تعریف اور ترقی کے لیے مجھے بلا رہا ہو گا اوراس سلسلے میں میری ٹیم کو انعام و اکرام سے نوازنے کے لیے مجھے بلایا جا رہا ہے، تاہم ٹیلی گراف کے متن کو بغور دیکھ کر میرے تمام خیالات غلط ثابت ہوئے۔ مجھے کہا گیا تھا کہ آپ کو ایک مہینے کے لیے برطانیہ بھیجا جا رہا ہے، جہاں پر مشن کی تکمیل کے حوالے سے مجھے خصوصی ٹریننگ دی جانی تھی، جسے صومالیہ کے مشن کے لیے نہایت ضروری بتایا گیا تھا۔
میں اس حکم سے انکار نہ کر سکا۔ اگرچہ میرا دل پوری طرح صومالیہ میں لگ چکا تھا۔ اس لیے پہلے جرمنی اورپھر برطانیہ چلا گیا۔ برطانیہ کے ایک مہینے کے خصوصی دورے کے بعد میں واپس جرمنی چلا آیا۔ مجھے صومالیہ واپسی کی بے چینی کھائے جا رہی تھی لیکن ایک لمبے عرصے کے انتظار کے بعد مجھے صومالیہ کے بجائے تنزانیہ جانے کا حکم دے دیا گیا۔ میں اس حکم پر انکار نہ کر سکا لیکن یہ خیال مجھے ستائے جا رہا تھا کہ کیا میں صومالیہ میں کامیابی سے محروم ہو گیا تھا اورکیا وہاں موجود میری ٹیم کومیری رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ بار بار خود سے سوال کرتا کہ آخر مجھے صومالیہ کے بجائے تنزانیہ کیوں بھیجا جا رہا ہے لیکن اس بار پھر اپنے اعلیٰ حکام سے بحث کرنے کے بجائے میں چپ چاپ تنزانیہ روانہ ہو گیا۔ قریباً چار ہفتے بعد جب میرے ادارے کے اعلیٰ حکام نے مجھ پر اندھا اعتماد شروع کر دیا تو مجھے حکم ملا کہ فوری طور پر واپس صومالیہ منتقل ہو جاؤں۔ یہ حکم ملتے ہی میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے ۔ پانچ سے زائد ماہ کی جدائی کے بعد میں واپس صومالیہ پہنچ گیا۔ مجھے اپنے درمیان دیکھ کر صومالیوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اگر مبالغہ آرائی نہ کروں تو یہ کہنا درست ہو گا کہ گویا میری آمد ان کے لیے کسی مسیحا کی آمد سے کم نہ تھی۔میں واپسی پر اپنے طبی مرکز لوٹ کر اپنی ٹیم کے ساتھ کام میں مشغول ہو گیا۔ محمد باہورنامی صومالی مسلمان مجھ سے زیادہ قریب تھا۔ ایک بار اس نے مجھے اپنے گھر میں دعوت دی، جہاں پر اس کے گھر والوں نے مجھے بہت عزت و تکریم دی۔ اس کے گھر میں ایک بوڑھے شخص سے ملا جو کہ انگریزی انتہائی روانی سے بول سکتا تھا۔ بزرگ محمد باہور کے والد تھے، انھیں پورے علاقے کے لوگ انتہائی عزت و تکریم دیتے تھے بلکہ اس علاقے میں محمد باہور کے والد کو ایک رہنما کی حیثیت حاصل تھی۔ باہور کے والد سے ملاقات پر میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ میرے مشن کے آغاز اور تکمیل کے لیے ان سے کار آمد شخص کوئی اور نہ ہو گا، اگر میں نے انھیں قابو کر لیا تو پھر اس علاقے کے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو قابو کرنا زیادہ مشکل نہ ہو گا۔ چنانچہ میں نے کسی انتظار کے بغیر فوراً ہی بات کرنے کی ٹھان لی۔ دل میں سوچا کہ اپنے مقصد کی بات کی شروعات مذہب سے کروں اور پھر آہستہ آہستہ انجیل اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جانب بڑھوں۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ مسلمان حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بھی ایسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے کہ آخری نبی حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر رکھتے ہیں۔
اس سے قبل کہ میں اپنی بات کا آغاز کرتا، باہور کے والد نے قرآن پاک کا ایک نسخہ اپنے ہاتھ میں اٹھا کر مجھ سے سوال کیا کہ کیا مجھے اس کتاب کے بارے میں معلوم ہے؟ میں نے جعلی تبسم ہونٹوں پر پھیلا دیا اور اس خوف سے کہ کسی غلط بات پر ان کے مذہبی احساسات نہ بھڑک اٹھیں میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ باہور کے والد نے خاموشی توڑتے ہوئے بتایا کہ انجیل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو بھی سوالات ذہن میں ہوں، ان سے پوچھوں، وہ مجھے اطمینان بخش جواب دے سکتے ہیں۔ میں نے تعجب کرتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ آپ کو یہ سب کیسے معلوم ہے تو اس پر انھوں نے بتایا کہ یہ تمام قرآن پاک میں موجود ہے۔ کچھ دیر بعد محفل برخواست ہوئی اور میں طبی مرکز واپس آ گیا۔ اس ملاقات کے بعد میں کئی دنوں تک اس سوچ بچار میں تھا کہ آخر اس شخص کے دماغ پر کیسے قابو پاؤں۔ مجھے معلوم تھا کہ اس بوڑھے رہنما کو ذہنی طور پر قابو کر لیا تو میرا کام (مسلمانوں کو مرتد بنانے کا) انتہائی آسان ہو جائے گا۔ اس ملاقات کے بعد باہور کے والد سے فیصلہ کن بحث مباحثے اور بات چیت کے لیے کئی دنوں تک خوب تیاری کی۔ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی غرض سے مطالعے کے لیے کئی انگریزی کتب خریدیں اور خود کو مباحثے کے لیے تیار کرتا رہا۔ بالآخر محمد باہور کے والد سے بات چیت کا دن آ ہی گیا، اس دن میں بہت پریشان تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ گویا پرائمری کا ایک بچہ سخت امتحان سے گزر رہا ہو۔ پھر دل کو خود ہی تسلی دی کہ آخر میں کیوں کر اتنا پریشان ہوں، یہ تو انتہائی آسان کام ہے، خود کو تسلی دیتے ہوئے میں اپنے طبی مرکز چلا گیا اور وہاں سے فراغت کے بعد محمد باہور کو لے کر اس کے گھر چلا آیا۔
باہور کے والد سے ان کے گھر پر ہی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ سوال جواب کی ابتدا انھوں نے ہی کی۔ مجھ سے پوچھا کہ میرا نام کیا ہے، جس پر میں ‘‘ڈاکٹر ’’ کہہ کر خاموش ہو گیا۔
اس پر باہور کے والد نے بتایا کہ قرآن کریم نے انسان کی پیدائش اوراس کی بناوٹ کے تمام مراحل کو تفصیل سے بیان کیا ہے، اس پر میں نے یک دم پوچھا ، وہ کیسے؟
انھیں گویا اس جملے کا انتظار تھا۔ انھوں نے اپنے دھیمے اورمیٹھے لہجے میں انتہائی شستہ انگریزی کے ذریعے مجھے اس حوالے سے پوری معلومات فراہم کر دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے لہجے اور زبان کی مٹھاس میرے دل میں اتر رہی تھی۔ قرآن کو دیکھنے پر میری حیرت میں اضافہ ہوا ۔ اس کتاب میں انسانی جین اوربچے کی نشو ونما و پیدائش کے وہ تمام مرحلے تفصیلاً مذکور تھے، جنھیں ہم نے یونیورسٹی اور کالجوں میں پڑھا تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں اس کتاب میں ۱۴ سو سال قبل بیان کی گئی تھیں۔ اسی لیے میں یہ پڑھ کر انتہائی مرعوب ہوا بلکہ بوڑھے کا ہر لفظ مجھے روحانی طور پر تسکین دے رہا تھا۔
محمد باہور کے والد سے ملاقات کے بعد میں ذہنی طور پر کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ میرے دل اور دماغ میں طوفان برپا ہو گیا تھا، میں خوف اور دباؤ کے باعث رات بھر نہ سو سکا۔ بہت سوچ بچار کے بعد پہلے کی طرح خود کو تسلی دے کر سونے کی کوشش کی۔ بالآخر مجبور ہو کر میں نے بعض طبی مسائل کے حل کے لیے اپنی ٹیم ورکرز کے کام بڑھا دئیے جب کہ خود میں نے تحقیقات اور مطالعے کے لیے وقت نکالا تاکہ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے کوئی راستہ نکال سکوں۔ بار بار سوچتا کہ یقینا مجھے صومالیہ اور یہاں کے لوگوں سے محبت ہے لیکن اپنے دین (عیسائیت) سے مجھے جنون کی حد تک محبت ہے تو کیوں نہ ان معصوم اور سچے لوگوں کو اپنے دین کی جانب بلاؤں۔
چند دنوں کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ محمد باہور کے والد سے ایک بار پھر ملوں تاہم میرے مطالبے سے قبل ہی محمد باہور نے مجھ سے تقاضا کیا کہ اگر میرے لیے ممکن ہو تو میں روزانہ اس کے گھر جا کر اس کے والد سے مل لوں۔ محمد باہور نے بتایا کہ اس کے والد نے مجھ سے متاثرہو کر روزانہ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
پہلے تو میں ان کی اس درخواست پر بہت خوش ہوا کیوں کہ یہی سب کچھ تو میں چاہتا تھا تاہم بعد ازاں دل میں سوچا کہ جب میں نے ان پر اب تک کوئی اثر ہی نہیں ڈالا ہے تو پھر ان سے مزید ملاقاتوں کے ذکر سے کیوں خوش رہا ہوں۔ محمد باہور سے حامی بھرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اس بار گفتگو کا آغاز میں خود کروں گا اور گفتگو کے دوران پہلا وار بھی میرا ہی ہو گا۔ اپنی تما م ملاقاتوں کا تذکرہ کر کے پڑھنے والوں کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پانچویں اور چھٹی ملاقات کے دوران میں بھی بوڑھے مسلمان کا پلڑا بھاری تھا۔ میں برملا اعتراف کرتا ہوں کہ ان سے تمام نشستوں کے دوران میں خود کو محاصرے میں سمجھتا تھا۔ باہور کے والد سے ملاقات سے قبل پوری تیاری کرتا لیکن سامنا ہونے پر ان کی صداقت ، ایمانداری و سچائی پر مبنی تحلیل، تجزیئے اور توضیحات مجھے روحانی طور پر شدید جھٹکا دیتے تھے، میری حالت یہ ہوتی کہ جیسے ایک بچہ استاد کے سامنے بیٹھ کر اس سے کچھ سیکھ رہا ہو۔
دوسری جانب جرمن ادارہ برائے عیسائی تبلیغ کے کارکنان پوری طرح سے مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ انھوں نے پہلے ہی دن میرے محمد باہور کے گھر جانے کو بھی نوٹ کیا تھا۔ آخر کار بات یہاں تک پہنچی کہ میرے ٹیم ورکرز میرے سامنے مزاحمت کرنے لگے۔ انھوں نے مجھے وارننگ دی کہ آئندہ میں باہور کے گھر نہ جاؤں، دن بدن مجھ پر سختی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ جرمنی سے مجھے حکم ملا کہ میں محمد باہور کے گھر نہ جاؤں اور پھر مجھے صومالیہ کے اس چھوٹے سے مقام سے دار الحکومت موغا دیشو ٹرانسفر کر دیا گیا۔ جرمن ادارے کے کارکنوں نے محمد باہور کے گھر والوں پر اس مقام سے کہیں اور منتقل ہونے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ جرمن ادارے نے محمد باہور سے میرے تعلقات ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی لیکن وہ میرے دل سے صومالیہ اور یہاں کے لوگوں کی محبت ختم نہ کر سکے۔
بہر کیف کچھ دن بعد میں اکثر رات کے پچھلے پہر چپکے سے ٹیکسی میں سوار ہو کر محمد باہور کے گھر چلا جاتا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ میری جگہ تعینات نئی ٹیم کے سربراہ کو اس بات کی خبر ہو گئی اور پھر اس نے علاقے کے ایک سیکورٹی افسر کو میرے پیچھے لگا دیا جو کہ کئی دنوں تک مجھے منع کرتا رہا۔ آخر کار میں اس سیکورٹی اہلکار کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گیا۔ بعد ازاں مجھے روکنے میں ناکامی پر سیکورٹی افسر نے محمد باہور کو گرفتار کر کے قید کر لیا۔ جس کا مجھے بہت افسوس ہوا اور پولیس کے اس رویے پر میں بہت رویا۔
اس کے بعد میں باہور کے والد سے مزید ملاقات نہیں کر سکتا تھا اور اسی بنا پر زیادہ مایوس ہو گیا تھا۔ میرا واحد ہدف یہی تھا کہ ان سے شروع کی جانے والی بحث کو منطقی انجام تک پہنچا دوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بوڑھے کی باتوں سے میرے ذہن میں برپا ہونے والے طوفان کے خاتمے کے لیے ان سے مزید ملاقاتیں ضروری تھیں۔ اسی عرصے کے دوران مجھے میرے مرکزی دفتر واقع جرمنی سے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے سے حکم دیا گیا کہ ضروری ڈیوٹی کے پیش نظر میں فوری طور پر کینیا پہنچ جاؤں۔ کینیا جانے سے قبل سیکورٹی افسر سے یہ کہہ کر محمد باہور کے علاقے میں چلا آیا کہ میری بعض دستاویزات وہاں رہ گئی ہیں۔ یہاں آتے ہی سیدھا محمد باہور کے گھر چلا گیا، اس بار ان کے گھر میں زیادہ خوشیاں دیکھنے کو ملیں۔ باہور کے والد نے بتایا کہ رمضان کا مہینہ شروع ہے، جس میں دین اسلام کا تیسرا اہم رکن روزہ رکھا جاتا ہے۔ صبح ہونے سے قبل میں نے ان کے ساتھ سحری کر لی اور پھر اذانوں کے بعد سبھی لوگوں کو مسجد کی جانب جاتے ہوئے دیکھا ، پورا دن محمد باہور کے والد کے ساتھ گزارا اور ان کے دینی شعائر کے احترام کی بنا پر میں بھی پورا دن روزے سے رہا۔
قصہ مختصر اعلیٰ حکام کے حکم کے مطابق میں موغا دیشو سے کینیا کے دار الحکومت نیروبی چلا گیا۔ نیروبی کے ائیر پورٹ پر وہاں کے مسلمان میرے استقبال کے لیے موجود تھے۔ میں ان سے پہلی بار مل رہا تھا۔ انھوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ ہوٹل جانے سے قبل انھی مسلمانوں میں سے ایک کے گھر کی دعوت قبول کر لوں جو کہ انھوں نے میری آمد سے قبل ہی ترتیب دی تھی۔
نیروبی میں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مرکزی آفس سے ایک دوسرے ٹیلی گراف کے ذریعے مجھے خبر دی گئی کہ سیکورٹی نقطۂ نگاہ سے میں آئندہ صومالیہ کا نام بھی زبان پر نہ لاؤں، اس خبر پر مجھے شدید حیرانی ہوئی کہ آخر صومالیہ میں میری زندگی کو کیوں کر خطرات لاحق ہیں۔ مجھے ٹیلی گراف میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر تمام احکامات کے باوجود میں نے صومالیہ جانے کی کوشش کی تو مجھے مرکزی آفس کے حکام کے شدید نوعیت کے رد عمل کا انتظار کرنا چاہیے۔ وہاں میرے والدین کو بھی غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ ان کے ذہنوں کو میرے بارے میں مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا تھا۔ بالآخر مجھے میرے والد کی جانب سے بھی ایک ٹیلی گراف موصول ہوا ، جس میں مجھے فوری طور پر جرمنی آنے کا حکم دیا گیا تھا۔ میرا ذہن منتشر تھا، میرے ذہن اور دل کو اطمینان بخش جواب دینے کے لیے کوئی بھی میرے پاس موجود نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے ہر پہلو پر خوب سوچ بچار شروع کر دیا، جرمنی پلٹ کر وہاں کی آرام دہ زندگی اور صومالیہ کے پیچیدہ حالات کے درمیان فرق تلاش کرنے لگا۔ اپنے دماغ میں ابھرنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنے اور ہیجانی کیفیت سے باہر نکلنے سمیت صومالی مسلمانوں کے شفاف اور صادق چہروں نے مجھے انتہائی فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔ مجھے محمد باہور کے والد سے ان تمام سوالات کے جوابات سننے تھے جو کہ طوفان بن کر میرے ذہن میں اٹھے تھے۔
چنانچہ انتہائی فیصلے سے قبل اللہ سے دعا کی کہ مجھے سیدھا راستہ دکھا دے، یہ کہہ کر میں نے قلم کاغذ لے کر اپنے جرمنی کے مرکزی آفس کو ٹیلی گراف میں لکھا۔ آپ لوگ مطمئن رہیں، میں نے پوری فکر اور تحقیق کے بعد اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں اسلام قبول کرنے جا رہا ہوں جو آپ سے ہو سکتا ہے وہ آپ کر لیں، ڈاکٹر جی میشل کینیا۔
ہر طرح کے وسوسوں سے نکلنے کی غرض سے اس متن کو فوری طور پر اپنے مرکزی آفس ٹیلی گراف کر دیا۔ ٹیلی گراف کرنے کے بعد مجھے انتہائی سکون حاصل ہوا۔ میں نے خوشی اور مسرت سے اپنے نیروبی کے دوستوں کو اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی قیمت پر صومالیہ ضرور جاؤں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ صومالیہ جانے کے لیے میرے پاس رقم موجود نہ تھی۔ چنانچہ تن کے جوڑے کے علاوہ دیگر تمام چیزیں فروخت کر دیں اور موغا دیشو پہنچنے کے بعد سیدھا محمد باہور کے گھر چلا گیا۔ محمد باہور کے والد کو دیکھ کر السلام علیکم کہا، جس پر انھوں نے مجھے اپنی باہوں میں سمیٹ لیا اور میرے آنے پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ اس دوران میں نے دھیمی آواز میں کلمہ شہادت پڑھا۔
اس کے بعد میرے پاس تفریح کے لیے کوئی وقت نہیں تھا۔ پورا پورا دن تلاوت قرآن اور احادیث پاک یاد کرنے میں صرف ہوتا، صومالیہ کے حکومتی اداروں نے میرے لیے صومالیہ میں قیام کی اجازت حاصل کر لی اور اس کے بعد میں بھی صومالیہ کا ایک شہری بن گیا۔ میرا نام عبد الجبار رکھا گیا اور اب مجھے کسی سے بھی ملنے سے کوئی منع نہیں کر سکتا تھا۔
آج اپنی سابقہ زندگی کو یاد کرتا ہوں کہ مجھے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے صومالیہ بھیجا گیا تھا لیکن اللہ کے فضل و کرم سے میں خود اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گیا۔ صومالیہ کی شہریت حاصل کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ بحیثیت ڈاکٹر صومالیہ میں آنکھوں کے موذی مرض میں مبتلا لوگوں کا علاج کروں۔ چنانچہ آج میں پوری توجہ کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہا ہوں، لیکن شکر کا مقام ہے کہ اس بار میں یہ خدمت اللہ کی رضا کے لیے انجام دے رہا ہوں۔
(بشکریہ ماہنامہ نقیب ختم نبوت، ملتان، ستمبر 2008ء)