میرا نام سونیا جین تھا۔ چاندنی چوک دہلی-۶ میں جین مت کے ایک مذہبی گھرانے میں ۲جون ۱۹۷۵ء کو میں پیدا ہوئی۔ میری بہن انورادھا جین جو فی الحال گجرات میں اپنے بال بچوں کے ساتھ مقیم ہیں، ان پر بھی اسلام کی سچائی واضح ہوچکی ہے۔ اس کا وہ بار بار اظہار بھی کرچکی ہیں، لیکن اپنے شوہر کی وجہ سے پس وپیش میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں جلد ہی ہدایت کی توفیق دے۔ آمین! ہم سب ان کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ میرا ایک بھائی بھی ہے، جس کا نام پہلے پارول کمار گپتا تھا، اب مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد محمدعمران ہے۔ میں نے چاندنی چوک کے جین اسکول میں بارہویں پاس کی۔ اس کے بعد تعلیم ترک کر دی، البتہ گھر پر رہ کر کچھ کچھ پڑھ لیا کرتی تھی۔ میں اپنی ماں اور دوسرے رشتے داروں کے ساتھ جین مندر بھی جایا کرتی تھی، جہاں ہم سب پوجا پاٹھ وغیرہ میں شرکت کرتے، پوجا کرتے، پری کرما کرتے (پھیری لگاتے)۔
ہمارا ماحول اس وقت پورا جینی تھا۔ کسی دوسرے ماحول کی ذرا بھی جان کاری نہیں تھی، لیکن پھر بھی جین مندروں میں جب ہمارے رشتے دار بالکل ننگے سادھوؤں کے چرنوں کو چھوتے تو میں ہمیشہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتی۔ میری نگاہیں شرم کے مارے زمین میں گڑجایا کرتی تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے، لیکن چونکہ ہمارے رشتے دارایسا کرتے تھے اور ہم دیکھتے آرہے تھے، اس لیے میں چپ سادھ لیتی۔ اسی طرح ہمارے دن گزرتے رہے، حتیٰ کہ میں ۱۹سال کی ہوگئی۔ میری ماں ان دنوں کمپیوٹر ڈیزائننگ اینڈ پروسیسنگ کمپنی میں کام کرتی تھیں۔ اس کمپنی کے پروپرائٹر محترم عشرت صاحب تھے، جو اب، میرے رفیق حیات ہیں۔ عشرت صاحب کا رویہ اپنے اسٹاف کے تئیں بہت نرم تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ سارے اسٹاف کے ساتھ مساویانہ تھا۔ وہ سارے اسٹاف کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر لنچ کیا کرتے تھے، جہاں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی شامل رہتے تھے۔ ان میں شاکاہاری (سبزی خور) بھی تھے اور مانساہاری (گوشت خور) بھی۔ ہم لوگ شدھ شاکاہاری (خالص سبزی خور) تھے، لیکن میری ماں نے سب کے ساتھ کھانے پر کمپرومائز کرلیا تھا۔ تین مہینے بعد وہاں اسامی نکلی تو میری ماں نے مناسب سمجھا کہ میں بھی ان کے ساتھ کام کروں۔ یہ جنوری ۱۹۹۵ء کی بات ہے۔ جب میں پہلے روز وہاں کام کرنے آئی تو میری ماں اس بات پر کافی پریشان تھیں کہ میں کس طرح سب کے ساتھ مل کر لنچ کروں گی، جب کہ وہاں دوسرے اسٹاف کے لوگ مانساہاری (گوشت خور) بھی ہیں، اس لیے انھوں نے سب سے پہلے جاکر عشرت صاحب سے بات کی کہ میں تو آپ لوگوں کے ساتھ مل کر کھالیتی ہوں، لیکن میری بیٹی سونیاجین بڑی مذہبی ہے اور شدہ شاکاہاری (خالص سبزی خور) ہے، وہ ہمارے ساتھ کھانا کھانے کے لیے رضامند نہیں ہے،اس لیے وہ الگ تھلگ کھا لیا کرے گی۔ عشرت صاحب نے ان کی بات سن کر مجھے آفس میں طلب کیا اور پوچھا کہ آپ کو گوشت یوں ہی ناپسند ہے یا یہ پاپ ہے؟‘‘یہ تو بہت بڑا پاپ ہے’’۔ میں نے اپنے علم کے مطابق جواب دیا، جو اپنے پرکھوں سے سنتی آئی تھی۔‘‘اگر یہ پاپ دنیا سے ختم ہوجائے اور سارے ہی لوگ سبزی کھانے لگیں تو کیسا رہے گا؟’’‘‘یہ توبہت اچھا رہے گا’’۔‘‘اچھا یہ بتایئے کہ اس وقت آلو کیا بھاؤ ہے؟’’میں نے کہا: ‘‘یہی کوئی چار پانچ روپے کلو’’۔انہوں نے کہا: ‘‘اگر سب لوگ گوشت خوری ترک کردیں اور ساگ سبزی کھانے لگیں تو آلو سو روپے کلو ہوجائے گا، کیونکہ ۹۵ فی صد لوگ مانساہاری (گوشت خور) ہیں۔ پھر بتایئے کہ سب کے جیون (زندگی) کی گاڑی کیسے چلے گی اور لوگ کس طرح سے اپنا پالن پوسن (گزربسر) کریں گے ؟’’ ان کی بات سن کر میری عقل کی پرتیں کھل گئیں اور میری سمجھ میں آگیا کہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں، صحیح کہہ رہے ہیں۔ یہیں سے میں نے عقل سے کام لینا شروع کیا۔ میں نے اسی دم سب کے ساتھ مل کر کھانے کی حامی بھرلی اور اتنا ہی نہیں، بلکہ جب کھانے پر بیٹھی تو عشرت صاحب کے ٹفن میں سے مرغ کی ٹانگ بھی حلق سے اُتار گئی۔ عشرت صاحب اس کے بعد وقتاً فوقتاً مجھے اسلام کے بارے میں بتاتے رہے ۔ میں ان کی باتوں کو بڑے غور سے سنتی اور اپنی عقل کا استعمال کرتی تو عقل بھی انھی کی باتوں کی تصدیق کردیتی۔ دھیرے دھیرے میری اسلام میں دلچسپی ظاہر ہونے لگی۔ ایک دن عشرت صاحب نے دنیا کے نقشے کو سامنے رکھ کر بتایا کہ مکہ دنیا کا مرکز ہے، جہاں سے اسلام کی روشنی برابر دنیا کے کونے کونے میں پہنچتی ہے، جس طرح کسی کمرے کے سینٹر میں بلب روشن ہو تو اس کی روشنی کمرے کے ہر جانب برابر جاتی ہے۔ اس کے برعکس جین دھرم صرف ہندستان میں محصور ہے اور اس کا پھیلاؤ ممکن نہیں۔ یہ بات میرے دل کو چھو گئی۔ پھر میرا ضمیر دن بدن کچوکے لگانے لگا کہ غلطی پر ہوں اور اسلام ہی اصل سچائی ہے۔ جب بھی عشرت صاحب مجھے کوئی بات بتاتے تو وہ اس کے سلسلے میں عقل اور منطقی استدلال کرتے اور یہی وہ بات تھی، جس کے آگے مجھے ڈھیر ہونا پڑا۔ دوسری بات یہ تھی کہ خود عشرت صاحب کا رویہ اپنے اسٹاف کے تئیں بڑا نرم تھا۔ وہ سب کے ساتھ مساویانہ سلوک روا رکھتے اور ہر ایک کے ساتھ بڑی شفقت و محبت کا معاملہ کرتے۔ ان کا اخلاق بڑا کریمانہ تھا۔ انھوں نے جین دھرم میں مہاویر سوامی کی پرتیما (مورتی) کی تشریح کی، میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ یہ کیا کہ ان کا پہناوا ننگ (عریانیت) تھا اور دوسرے لوگوں کو تو کپڑے پہننے کو کہہ رہے ہیں۔ یہ قول و عمل کا تضاد میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ ان سب وجوہات کی بنا پر میرا دل اسلام کی طرف مائل ہونے لگا۔
۱۴ مارچ ۱۹۹۵ء میری زندگی کا وہ مبارک دن تھا، جب میں مشرف بہ اسلام ہوئی۔ عشرت صاحب کا یہ معمول تھا کہ وہ ہرجمعہ کو آفس بند کر کے، سورۂ کہف کی تلاوت کرتے تھے۔ میرے اندر تجسس اُبھرا کہ آخر وہ اتنے اہتمام سے کیا پڑھتے ہیں۔ جب میں نے ان کو سورۂ کہف کی تلاوت کرتے سنا تو میرے دل کی اندرونی کیفیت کچھ عجیب سی ہوگئی۔ ایک طرح کی جاگر کتا (بے داری) پیدا ہوگئی۔ پھر عشرت صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم آگ کا ایندھن بننے سے کب بچو گی۔ میں نے ازخود رفتگی میں کہا کہ بس بہت جلد۔ انہوں نے کہا کہ کیا خبر، یہ سانس جو تم لے رہی ہو، آخری ہو۔ پھر اچانک میں بڑے جوش میں بولی کہ ابھی اور اسی وقت! پھر عشرت صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا اور میں مسلمان ہوگئی۔ میں نے اسی دم یہ دعا کی: ‘‘اے اللہ! جس طرح تو نے مجھے آگ سے بچایا ہے، اسی طرح میری ماں اور میرے بھائی کو بھی بچا لے’’۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں میری یہ دعا بھی قبول ہوگئی۔ شروع میں تو میری ماں اور بھائی دونوں نے میری مخالفت کی۔ میرا بھائی تو عشرت صاحب کا جانی دشمن ہوگیا، لیکن جب میں نے ان کو خود اسلام کے بارے میں کچھ معلومات دیں اور بتایا کہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا ہے، اور ان کے سامنے نماز وغیرہ پڑھنے لگی تو وہ بہت متاثر ہوئے اور دونوں نے ہی اللہ کے فضل سے اسلام قبول کرلیا۔
مجھے اسلام کی بہت ساری باتیں اچھی لگیں۔ وعدے کی پابندی، مساوات، خوش اخلاقی اور خوش عملی وغیرہ۔ جب میں نمازپڑھتی ہوں تو مجھے دلی طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ پھر میری ماں نے میری شادی عشرت صاحب سے کردی، جن کی بیوی کا کینسر کے مرض میں شادی کے تین چار سال بعد انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے تین بچے تھے۔ ان بچوں سے مجھے جو پیار ملا، اور کہیں نہیں ملا۔ میرا ان سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ میں اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی ہوں، کم ہے۔ میری ابھی ایک بچی ہے، جس کا نام ناز ہے اور میں اسے اسلام کی اشاعت کے لیے تیار کر رہی ہوں، کیونکہ جب میں نے اسلام قبول کرلیا تو اب ایک بہت بڑی ذمہ داری کو قبول کیا ہے اور اپنے اُوپر اسلام کی تبلیغ کو فرض کرلیا ہے۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ لوگ حلقۂ اسلام میں زیادہ سے زیادہ آئیں۔ ہم اپنے اخلاق سے، اپنے کردار سے مکمل قرآن کا نمونہ بنیں تاکہ لوگوں میں اسلام کی سچائی جاگزیں ہو۔ میں اسلام سے متعلق مختلف کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی رہتی ہوں۔ قرآن مجید کو میں نے سمجھ کر پڑھا ہے اور مجھے لگا کہ حقوق العباد پر اسلام میں کافی زور ہے اور یہی حقوق العباد اسلام کا دائرہ وسیع کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ہمیں اپنی دعوت میں اس چیز کو نظروں سے اوجھل نہیں رکھنا چاہیے۔ اب تک اللہ کے فضل سے میری ماں اور بھائی کے علاوہ تین لوگوں نے میری کوششوں سے اسلام قبول کیا ہے۔ یہ میمونہ خاتون (سنیتاکپور) محمد یوسف (راجن کپور) اور محمد زید (ستیش کمار) ہیں۔ میری اپنی کوشش ہے اور تمام لوگوں سے استدعا ہے کہ ہم میں سے ہرشخص میدان میں دعوتی مشن کو جاری رکھے، اپنے بچوں کی اسلامی نہج پر تربیت کرے تاکہ وہ اسلام کے داعی بن کر اُبھریں۔
(بشکریہ ماہنامہ افکار، نئی دہلی، اگست ۲۰۰۷ء)