فکر و نظر
اسلامی انقلاب کا سراب
مجاہد حسین خٹک
ہم بری طرح سے محاصرے میں آ چکے ہیں اور بچنے کے امکانات بہت کم ہیں‘ کمانڈر کے یہ الفاظ ایک بم کی طرح میری سماعت پر گرے اور اچانک یہ خوفناک ادراک ہوا کہ ہم تین آدمی اپنے جوش و جذبے میں اپنے ساتھیوں سے بہت آگے نکل آئے تھے۔ یہ طالبان کے ظہور سے پہلے کا دور تھا جب میں حکمت یار کی حزب اسلامی کا حصہ بن کر کابل پہنچا۔ چند روز بعد ایک بڑا معرکہ پیش آیا جس کے دوران ہم ایک خشک نالے میں رینگتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک تین اطراف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہم نے کنارے پر موجود چند اجڑے درختوں کے پیچھے پناہ لی تاہم دشمن مسلسل فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا اور صرف لمحوں کی بات تھی کہ وہ ہمارے سر پر آن کھڑا ہوتا۔ ہمارے پاس واپسی کا ایک ہی راستہ تھا مگر وہ کھلے میدان کی صورت تھا جس میں شدید فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ کمانڈر نے کہا اکٹھے نکلنے کی صورت میں تینوں کے ہی مارے جانے کا امکان ہے اس لئے ہر شخص اکیلے نکلنے کی کوشش کرے۔ یہ کہہ کر وہ فائرنگ کرتا ہوا ایک جانب بھاگا لیکن چند گز کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ ایک گولی نے اسے چاٹ لیا۔ اسے زمین پر گرتے دیکھ کر یقین ہو گیا کہ جس اسلامی انقلاب کی تلاش میں درسگاہ سے کابل کے شہر آ سیب میں آیا تھا ، اسے دیکھنا میرے نصیب میں نہیں ہے۔ ہتھیار پھینک کر گرفتاری دینے کا بھی کوئی امکان نہیں تھا کہ قیدیوں کو مرنے سے پہلے اذیت کے ایک طویل سفر سے گزرنا پڑتا تھا۔
میرے والد صاحب ڈیرہ غازی خان میں کپڑے کے بڑے تاجر تھے اور1951 سے ہی جماعت اسلامی سے منسلک ہو گئے تھے۔ ان کی وجہ سے ہماری خٹک برادری نے اگلے ساٹھ سال اسلامی انقلاب کی راہ تکتے گزار دیے۔ سیاست ہمارے خون میں شامل تھی جس کی وجہ سے ہمارے خاندان کا ہر فرد جوان ہوتے ہی اسلامی جمیعت طلبا سے منسلک ہو جاتا تھا۔ میں بھی اپنے کالج دور میں اسی تنظیم سے وابستہ ہو گیا۔ بچپن سے کتب پڑھنے کا شوق تھا اس لئے اسلامی لٹریچر سے ہٹ کر بھی بہت کچھ پڑھ ڈالا۔ تاہم برٹرینڈ رسل کی تشکیک ، سبط حسن کے ماضی کے مزار اور کمیونزم کا معاشی فلسفہ، سب اس آہنی دیوار کے سامنے سر پٹخ پٹخ کر ناکام ہو گئے جو مولانا مودودیؒ کی تحریروں نے استوار کر دی تھی۔
انسانی ذہن پرتوں کی صورت کام کرتا ہے اور اس کی ہر پرت ایک ایسی وادی کی طرح ہے جہاں نت نئی سوچوں کی ڈاریں کلیلیں کرتی پھرتی ہیں اور فکر کے جگنو جگمگاتے رہتے ہیں۔ ہمارا شعوروادیوں کے اس تسلسل میں سب سیاوپری پرت ہے۔ اصولی طور پر شعور کی سرحدیں فکری آمد و رفت کے لئے کھلی ہونی چاہئیں تاکہ اس میں مسلسل توسیع ہوتی رہے۔ تاہم جب ہم کسی نظریے سے وابستہ ہو جاتے ہیں تو سرحدوں پر ایسے محافظ کھڑے ہو جاتے ہیں جو دیگر وادیوں میں خراماں سوچوں کو اپنے قلعے میں قدم نہیں دھرنے دیتے۔ اس کے نتیجے میں شعور کی مملکت اپنی سرحدوں کا دائرہ وسیع نہیں کر پاتی۔ حتی کہ عملی تجربات اور وسیع مطالعہ بھی نظریے کے آہنی حصار کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔
نظریاتی لوگوں کی ایک بڑی تعداد تمام عمر اس فکری حصار سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتی البتہ انسانی زندگی میں دو مواقع ایسے آتے ہیں جب ساری رکاوٹیں زمیں بوس ہو جاتی ہیں اور فصیل ذہن کے سارے دروازے وا کر دیئے جاتے ہیں۔ ایک تو سفر عشق کا وہ اذیت ناک مرحلہ ہے جب انسان بے بس ہو کر تسلیم کر لے کہ محبوب سے وصل کا ہر امکان مفقود ہو چکا ہے اور دوسرا وہ وقت جب فرشتہ اجل سر پر آن پہنچتا ہے۔ میرے ساتھ بھی اس وقت ایسا ہی ہوا۔ زندگی اور موت کی دہلیز پر اٹکے ان چند لمحوں نے خود شناسی کی نئی کہکشاؤں کے راستے کھول دیئے۔ سال ہا سال سے مسلسل مطالعہ اور سوچ بچار کے باوجود نظریاتی سوچ ایک میخ کی طرح قلب میں گڑی ہوئی تھی جس نے تازہ خون کی آمد کے تمام راستے بند کر دیئے تھے۔ میری خوش قسمتی کہ وہ چند لمحات خودشناسی کے ایک عمیق سلسلے میں بدل گئے اور ارد گرد موجود حقیقتوں کی ایک نئی شکل ابھرنے لگی۔
جب ہم دو ساتھی بچ گئے تو کمانڈر کے کہنے کے مطابق ہم نے اپنی اپنی راہ لی۔ میں نے واپسی کے کھلے راستے پر اپنی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور جسقدر تیز رفتاری سے بھاگ سکتا تھا ، واپس بھاگا، آس پاس گزرتی گولیوں کی سرسراہٹ آج بھی دل پر نقش ہے۔ تقدیر میں زندگی لکھی تھی اور دیگر ساتھیوں نے مجھے آتے دیکھا تو دشمن پر شدید فائرنگ کر کے انہیں دبک جانے پر مجبور کر دیا اور میں بحفاظت مورچے پر پہنچ گیا۔ دوسرا ساتھی بھی ایک اور راستے سے نکل آیا تھا اور ایک عرصے سے پکا ملحد بن چکا ہے۔
اس واقعے کے بعد دل میں سوالات کے انبار نے جنم لیا۔ میرے کابل میں قدم رکھنے کے کچھ عرصہ پہلے حکمت یار کی افواج نے اس شہر پر راکٹوں کی بارش کر دی تھی۔ بیشمار لوگ اپنے گھروں میں ہی لقمہ اجل بن گئے تھے اور جو بچ گئے وہ افراتفری میں شہر سے نکل بھاگے تھے۔ موت کو اتنے قریب سے دیکھ کر مجھے پہلی بار ان لوگوں کی تکلیف کا اندازہ ہوا جنہوں نے آتش و بارود کی اس بارش میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو مرتے دیکھا ہو گا۔ چھوٹے بچوں کے نازک جسموں کے چیتھڑے اڑتے دیکھے ہوں گے اور اپنی جانیں بچانے کے لئے سب کچھ چھوڑ کرخالی ہاتھ بھاگے ہوں گے۔ باغیانہ قسم کی سوچیں ذہن کی وادی میں سرسرانے لگیں۔ کیا عام شہریوں کی لاشوں پر اسلامی انقلاب کی عمارت استوار کی جاسکتی ہے؟ احمد شاہ مسعود ایک طویل عرصہ تک مسلمان نوجوانوں کا ہیرو بنا رہا،اب ایسا کیا ہوا کہ اس کی فوجوں کے خلاف ہم لوگ صف آرا ہو گئے؟ سوالات کا ایک طویل سلسلہ تھا جس نے من کی نگری میں ایک حشر بپا کر دیا۔
جنگ زدہ علاقے انسان کی بدترین خصلتوں کو ابھار دیتے ہیں اور پچھلے چند ہزار سال میں تہذیب اور اخلاقیات نے انسانی جبلتوں پر جو ملمع کاری کی ہے وہ سب اتر جاتی ہے۔ بہت سے تکلیف دہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور انسانی درندگی کی بیشمار کہانیاں سنیں جن کی وجہ سے آہستہ آہستہ نظریات کی آہنی جکڑ کمزور پڑنے لگی۔ شکوک کی آندھیاں تیز تر ہونے لگیں یہاں تک کہ عقائد اور ایمانیات سب اس کی زد میں آ کر اڑ گئے۔ اس کے بعد جتنا عرصہ کابل رہا انہی اوہام سے بر سر پیکار رہا۔ جب اپنے شہرواپس آ یا تو ایک مختلف انسان تھا۔
واپس آ کر سب سے پہلے اپنے دل و دماغ پر چھائے تمام سابقہ نظریات کو نکال باہر کیا اور زندگی کے ہر پہلو پر نئے سرے سے سوچنا شروع کیا۔ جو بھی کتاب ہاتھ لگی اسے ذہن کے دریچے کھول کر پڑھ ڈالا۔ اگلے کئی سال تشکیک کی تاریک گپھاؤں میں سچائی کی روشنی تلاش کرتے گذار دیئے۔ اس طویل سفر میں ایک دورایسا بھی آیا جب ایک خالصتاً کمیونسٹ پارٹی ، لیبر پارٹی پاکستان سے منسلک ہو گیا اور کچھ عرصہ بعد جنوبی پنجاب کا جنرل سیکریٹری بنا دیا گیا۔ زیادہ عرصہ اس جماعت میں بھی شامل نہ رہ سکا اور ایک بار پھر سے اپنے باطنی سفر میں مگن ہو گیا۔ ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد کہیں جا کر منزل کی نشانیاں دکھائی دینے لگیں۔ اگرچہ سفر اب بھی جاری ہے تاہم کچھ بنیادی امور پر دل کا اطمینان میسر ہو گیا۔
پہلی بات یہ کہ کسی بھی نظریے سے وابستگی انسانی ذہن کی تحدید کے مترادف ہے۔ ہر نظریہ حقیقت تک رسائی کا دعوے دار ہوتا ہے اور یہی دعوی ان گروہوں میں بھی سرائیت کر جاتا ہے جو اس نظریے کو اپنا لیتے ہیں اور یہیں سے خرابی کا آغاز ہوتا ہے۔ اگرچہ سچائی ایک کائناتی مظہر ہے مگر اس کی تفہیم ایک انفرادی فعل ہے جس پر کسی صورت بھی اجتماع کی اجارہ داری تسلیم نہیں کرنی چاہئے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ساری سچائیاں لبرل طبقے کے پاس ہوں یا تمام حقائق تک صرف قدامت پسند طبقے کو رسائی حاصل ہو جائے۔ گروہی نفسیات، فرقہ پرستی اور نظریاتی تقسیم، یہ سب اس لئے جڑ پکڑ چکے ہیں کہ ہم نے رائے کا حق فرد سے چھین کر گروہ کے حوالے کر دیا ہے۔ جس طرح انسان گروہ کی شکل میں باہر نکلتا ہے تو اپنے جیسے انسانوں کو مار ڈالنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا ، اسی طرح سوچ کی نگری میں بھی گروہی نفسیات حق بات کو قتل کرنے میں ایک لحظہ نہیں ہچکچاتی۔ جب تک نظریے کا آہنی شکنجہ ذہن کو جکڑے رہے گا، دولا شاہ کے چوہے ہی ہمارا نصیب ہوں گے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم مانگے تانگے کی اصطلاحات کے ذریعے کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ سبز انقلاب، طاغوت ، سامراج، پرولتاریہ، سیکولرازم اور دیگر بیشمار اصطلاحات یہاں رائج ہیں مگر یہ تمام یا تو عربی تہذیب سے مستعار لی گئی ہیں یا پھر فرنگی فکر سے عاریتاً مانگی گئی ہیں۔ ہمارے سماجی ڈھانچے میں ان کی اہمیت چند اجنبی الفاظ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ نسل انسانی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سماجی تبدیلی انسانی روح کا عظیم ترین تخلیقی عمل ہے۔ جو لوگ آج تک اپنی مٹی سے جڑی اصطلاحات تخلیق نہیں کر سکے وہ بھلا سماجی تبدیلی جیسا عظیم کام کیسے کر سکتے ہیں۔ جب ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ ہلاکوخان کے بغداد پر حملے کے وقت دانشور سوئی کی نوک اور فرشتوں کی تعداد پر بحث کر رہے تھے تو یہ دراصل تخلیقیت کے فقدان کی جانب اشارہ ہوتا ہے۔ آج سیکولر ازم اور لبرل ازم کے حق میں یا اس کے رد میں جو بھی مضامین لکھے جاتے ہیں، ان کی حیثیت بھی بغداد میں ہونے والے مباحث سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ ان تمام گروہوں میں سے کسی کے پاس یہ صلاحیت موجودنہیں کہ وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکے۔ تاریخ کا مطالعہ گواہی دیتا ہے کہ ہمیشہ تخلیقی انداز میں سوچنے والے افراد نے ہی یہ عظیم کام کیا ہے۔ اسلامی فقہ کے آئمہ کرام بھی اسی قسم کے افراد تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم ان کی مثال اور طریق کار کی پیروی کرتے ہوئے انفرادی طور پر سچائی کی کھوج کرتے مگر فکری افلاس نے ہمیں ان کے نظریات کی اندھی پیروی کے راستے پر ڈال دیا اور یوں فرقہ پرستی کا عفریت پیدا ہو گیا۔
فکری سطح پر اس وقت پاکستانی معاشرہ دو انتہاؤں میں تقسیم ہے۔ بہت سے سلجھے ہوئے دانشور اس تقسیم سے گھبرا کر سوچ میں اعتدال پیدا کرنے کی دہائی دیتے رہتے ہیں۔ تاہم یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انتہاپسندی اور اعتدال کا تعلق رویوں سے ہوتا ہے فکر سے نہیں۔ کسی بھی سوچ کو پرکھتے وقت صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا اس میں گہرائی موجود ہے کہ نہیں۔ جسے ہم انتہاپسندانہ سوچ کہتے ہیں اصل میں وہ سطحی سوچ ہوتی ہے اور یہ ہر طبقے میں پائی جاتی ہے۔ اس میزان پر جب میں اوریا مقبول جان اور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کو پرکھتا ہوں تو دونوں کی فکر میں سطحی پن نظر آتا ہے۔ جبکہ وجاہت مسعود اور عامر خاکوانی اگرچہ دو مختلف نکتہ ہائے نظر کے حامل ہیں مگر میں دونوں کو ہی پسند کرتا ہوں کیونکہ ان کی سوچ میں گہرائی پائی جاتی ہے۔
کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے تاہم اس تحریر کو سمیٹتے ہوئے یہ کہوں گا کہ یہ اسلامی انقلاب کی تلاش میں سرگرداں ایک عام سے پاکستانی کی مختصر روئداد ہے۔ میرے نسل کے بیشمار لوگ اس راہ پر چلے۔ کچھ مایوس ہو گئے اور کچھ آج بھی یہ خواب دل میں سجائے جی رہے ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں اس سراب سے ایک عرصہ ہوا نکل آیا ہوں۔ آخر میں یہ کہنا بھی لازم ہے کہ یہ ایک فرد کی جانب سے پیش کردہ سچائی ہے جس سے کسی کا بھی متفق ہونا ضروری نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سچائی پر فرد کی حکمرانی نہ صر ف تسلیم کریں بلکہ اس کی ترویج کریں۔ ایسے بیشمار لوگ ہمارے معاشرے میں پیدا ہونے چاہئیں جنہیں کوئی بات لبرل طبقے کی پسند آئے تو کچھ معاملات پر قدامت پسند لوگوں کی رائے سے انہیں اتفاق ہو۔ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے حصے میں آنے والی سچائیوں کو بیان کرے۔ جب اس حق کو تسلیم کر لیا جائے گا تو تنے ہوئے اعصاب بھی نرم ہوں گے ، ماتھے پر چھائی شکنیں بھی کم ہوں گی اور فکری فاصلے بھی سمٹ جائیں گے۔