کچھ بھی لکھنا عجیب لگتا ہے۔ معصوم روشن آنکھوں والے بچوں کی لاشیں، برسوں سے کوئی پیار بھرا خواب نہ دیکھ پانے والی آنکھوں والی عورتوں کی لاشیں اور نفرت اور غضب سے سلگتی ہوئی آنکھوں والے مردوں کی لاشیں۔ غزہ میں پھیلی نہتے فلسطینیوں کی لاشیں۔ اب ان پہ کوئی لکھے تو کیا لکھے؟ کچھ بھی لکھنا عجیب لگتا ہے۔
تین خاموش، پرسکون اور بے نیاز بچوں کی لاشیں فلسطینیوں نے اٹھا رکھی ہیں۔ میں اخبار کا صفحہ اول دیکھنے سے کترارہا ہوں۔ دل چاہا دوسری خبریں پڑھوں کہ مجھے ان تصویروں میں اپنا بیٹا روحل دکھائی دیتا ہے۔ دکھ ہوا سوچا اس ظلم پر لکھوں گا۔ لیکن کوئی لکھے تو کیا لکھے؟ کچھ بھی لکھنا عجیب لگتا ہے۔
راکٹ بردار فلسطینی جنگجوؤں کو خاموش کرانے کے لئے دنیا کی مظبوط اور منظم ترین فوجوں میں سے ایک، دن رات آبادی پر بمباری کرتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ سب اپنے دفاع میں کر رہی ہے۔ دنیا کے ممالک اس کی حمایت کرتے ہیں یا خاموش تماشائی ہیں۔ مسلمان کہلانے والے ممالک چھپ چھپ کے اسرائیل کی پیٹھ تھپتپاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاباش! حماس سے ہماری جان چھڑاؤ۔ اب کوئی لکھے تو کیا لکھے؟
اقوام متحدہ بے بس ہے۔ بس اس کا بس اس وقت چلتا ہے جب آقاؤں کا امر ہو۔ اقوام متحدہ نے بڑا بنتے ہوئے اپنے اسکولوں میں ڈرے، سہمے اور تباہ حال فلسطینیوں کو پناہ دی۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کو اس کی سزا دی اور اس کے اسکولوں کو ان کے مکینوں سمیت توپ کے گولے اڑا دیا۔۔۔ ہر طرف آہ و بکا۔۔ ہر طرف لاشیں اور تباہی۔۔۔ انسانی اعضا اقوم متحدہ کے امن کے جھنڈے میں لپٹے ہوئے۔۔۔ براک اوباما کہتے ہیں اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔۔۔اب کوئی لکھے تو کیا لکھے؟ کچھ بھی لکھنا عجیب لگتا ہے۔۔۔ کچھ بھی۔