اسے کیا کہا جائے کہ جب بھی عرب حکمرانوں کو کسی امتحان کا سامنا ہوتا ہے یا تو ان کے اعصاب جواب دینے لگتے ہیں یا پھر ان پر ایران کا بھوت سوار ہو جاتا ہے۔اب جب کہ غزہ کے باسی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں توصورتحال کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عرب حکمرانوں کی پراسرار خاموشی خطہ میں چہ میگوئیوں کا سبب بن رہی ہے۔عرب حکمرانوں پر ہر طرف سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب نواز عرب حکمرانوں کے سامنے خطے میں ایران کا ہوْا اسرائیل سے بڑا مسئلہ ہے۔
جب 2006 میں لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ چھڑی تو ابتدا میں عرب حکومتوں نے ساری ذمہ داری حزب اللہ پر ڈال دی۔ یہ الگ بات ہے کہ عوامی ردعمل نے انہیں بعد ازاں اپنا رویہ تبدیل کرنے پر بڑی حد تک مجبور کردیا۔ اس سے قبل جب 2003 میں امریکہ اور برطانیہ نے صدام کی فوجوں پر چڑھائی کی تو بھی عرب حکمرانوں کا رویہ کچھ مختلف نہ تھا۔ عراق پر حملے کو بہت سے عرب لیڈروں کی درپردہ حمایت حاصل تھی۔ اور اب ایسے وقت جب اسرائیل حماس کی تھوڑی بہت طاقت کو بھی کچلنے پر مصر نظر آتا ہے عرب حکمران کو اسرائیل کے ہدف میں ہی اپنی عافیت نظر آتی ہے۔
مبصرین کے مطابق عرب حکمرانوں کی نظر میں حماس ایران کے زیر اثر ہے اور اگر حماس اپنے پیر جمانے میں کسی حد تک کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ ایران کے اثرات میں اضافہ ہوگا۔ چنانچہ کہا یہ جارہا ہے کہ عرب حکمران‘حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کی ہر حال میں پسپائی چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار بھی ہے۔عرب حکمرانوں کی خاموشی کے اثرات عرب اور اسلامی تنظیموں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب اسرائیل کے حملے شروع ہوئے اور بعض عرب لیڈروں نے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کی مانگ کی تو یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ بعض لیڈروں کا موقف تھا کہ جب تک خود فلسطینی اپنے اندر اتحاد پیدا نہیں کرتے اس وقت تک سربراہی اجلاس کا کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ عرب لیگ اب ایک خاموش تماشائی نظر آتی ہے۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ جب تنظیم کا ایک ہنگامی اجلاس جدہ میں ہوا تو وہاں بھی بات مذمتی قرارداد سے آگے نہ بڑھ سکی اور اسے بھی متوازن اور تمام شرکاء کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے اس بات کو ضروری سمجھا گیا کہ اس سے یہ بات واضح ہو جائے کہ جنگ شروع کرنے کی ذمہ داری سے حماس بالکل مبرا نظر نہ آئے۔ایران کی پیش کردہ سربراہی اجلاس کی تجویز سرد خانے میں رکھ دی گئی ہے کیونکہ شرکا اس پر متفق نظر نہیں آتے۔ مصر کے کردار پر تواب کھلے عام بات ہو رہی ہے۔ یہ سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ مصر کس کے ساتھ ہے‘اسرائیل و امریکہ کے ساتھ یا فلسطینیوں کے ساتھ؟ ادھر بعض حلقے حزب اللہ پر بھی سوالیہ نشانات کھڑے کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کیوں دوسرا فرنٹ نہیں کھول رہی ہے؟ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے۔ بعض مبصرین یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس وقت حزب اللہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسوقت وہ لبنان کو جنگ میں دھکیلنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
عرب عوام کی کیفیت قطعی مختلف ہے۔عوام میں غصہ ہے، غیض و غضب ہے۔ عرب دنیا میں ہر جگہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سعودی عرب جہاں مظاہروں کی قطعی اجازت نہیں وہاں سے بھی مظاہروں کی خبر آئی ہے اگرچہ حکومت نے اس کی بعد ازاں تردید بھی کی۔ مساجد میں دعائیں مانگی جا رہی ہیں۔‘غزہ کے زخمیوں کے لیے ہسپتالوں میں خون کے عطیے جمع ہو رہے ہیں۔ جگہ جگہ دفتروں میں سکولوں میں بازاروں میں جامعات میں لوگ رضاکارانہ بنیاد پر عطیات جمع کر رہے ہیں اور لوگ دل کھول کر عطیے دے رہے ہیں۔ عربوں کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں اور وہ حکومت کی مجبوریاں سمجھنے سے قطعی طور پر قاصرہیں۔اخبارات اور ٹی وی چینلز عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے صفحہ اؤل پر دل دھلادینے والی تصویریں چھاپ رہے ہیں۔دس دن گزر جانے کے باوجود اب بھی یہ صفحہ اول کی سب سے بڑی خبر ہے۔ اور تمامتر کوششوں کے باوجود عرب عوام حماس اور حزب اللہ کو اپنا دشمن اور اسرائیل و امریکہ کو اس جنگ میں اپنا حلیف ماننے کو تیار نہیں۔
عوامی نظروں میں حماس عربوں کی جنگ لڑ رہی ہے اور وہ اس کی حمایت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ حزب اللہ کی 2006 میں جنگ کو وہ عربوں کی فتح کہنے پر مصر ہیں۔ ایران عوام کا نہیں خواص کا مسئلہ نظر آتا ہے۔ حکمرانوں اور رعایا کے درمیان ایک وسیع خلیج نظر آتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ خلیج بڑھ رہی ہے کم ہوتی نظر نہیں آتی۔
(بشکریہ ، بی بی سی ڈاٹ کام)