جب بھی دسمبر کا آخری ہفتہ آتا ہے امریکہ اور یورپ کا کاروبار بند ہوجاتا ہے۔ لوگ صرف آرام کرنے ، پینے پلانے اور ملنے ملانے کے موڈ میں ہوتے ہیں۔خبری سرچشمے خشک ہوجاتے ہیں۔اور ٹی وی چینلز پر جمائیاں لیتا ہوا مختصر سا عملہ پرانے پروگرام دہرا دہرا کر وقت گزاری کرتا ہے۔چنانچہ اسرائیل کو داد دینی چاہییے کہ اس نے سال بھر سے غذائی اور طبی ناکہ بندی کے شکار غزہ کے فلسطینوں پر چند ہی منٹ میں ایک سو ٹن سے زائد بارود برسانے کے لیے ایسا وقت چنا جب عالمی ردِعمل نہ ہونے کے برابر ہو۔ امریکہ میں نہ بش حکومت زین پر پوری طرح سوار ہو اور نہ اوبامہ انتظامیہ پا با رکاب ہو، اور فلسطینی صدر محمود عباس اور غزہ کے حماسی وزیرِ اعظم اسماعیل ہانیہ میں بس اتنا رابطہ ہو جتنا اسرائیلی وزیرِاغطم یہود اولمرٹ اور شام کے صدر بشار الاسد کے درمیان ہے۔
وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ایک اسرائیلی کے بدلے تین فلسطینی ہلاک کیے جاتے تھے۔ پھر ایک اسرائیلی کے عوض دس فلسطینی مرنے لگے۔ لیکن ستائیس دسمبر کے دن ریاستی دہشت گردی کے سٹاک ایکسچینج میں ایک اسرائیلی کی موت کا شیئر دوسو تیس فلسطینی لاشوں کے برابر جا پہنچا، جوکہ پچھلے ساٹھ برس کا ریکارڈ اضافہ ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہ کم بخت فلسطینی بھی کاکروچوں کی طرح انتہائی سخت جان ثابت ہوئے ہیں۔ جتنا بھی زہریلا سپرے کیا جائے یہ قوتِ مدافعت پیدا کرلیتے ہیں اور اسرائیلی دل و دماغ اور ان کے گھروں کی باڑھوں پر رینگتے رہتے ہیں۔ انہوں نے مہذب اسرائیلیوں کو اس مکھی کی طرح زچ کر رکھا ہے جو کبھی ناک پر بیٹھتی ہے ، تو کبھی گال پر رینگنے لگتی ہے، تو کبھی کان کا سروے شروع کردیتی ہے، تو کبھی کمر پر رواں ہوجاتی ہے۔ اسرائیل کے پاس ایٹم بم ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ مکھی پر ایٹم بم بھی استعمال نہیں ہوسکتا۔ رہی بات فلسطینیوں کے ہمدم و دمساز عرب اور غیرعرب بھائیوں کی تو ان کے نزدیک فلسطینی کسی بھچوراہے پر موجود ان بھکاری بچوں کی طرح ہیں جنہیں دیکھ کر ہر شریف آدمی اپنی گاڑی کے شیشے چڑھا لیتا ہے۔ بھکاری شیشہ پیٹتا رہتا ہے لیکن نہ تو وہ ڈرائیور کو نظر آتا ہے اور نہ ہی سنائی دیتا ہے۔اور پھر یہ بھکاری ایک بار پھر ٹریفک لائٹ سرخ ہونے کے انتظار میں کنارے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ ریموٹ کنٹرول والے ٹی وی کے ہوتے ہوئے جو مناظر اپنی وقعت مکمل طور پر کھو چکے ہیں ان میں جلوس کی شکل میں فلسطینی بچوں، عورتوں اور مردوں کے تابوت اجتماعی قبروں میں اتارنے کے مناظر بھی شامل ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کو بہت عرصے پہلے انسان کے منصب سے اتار کر نیم انسان کے خانے میں رکھ چکی ہے۔ تو کیا اب یہ نیم انسان اس قابل بھی نہیں رہے کہ ان کا تحفظ انسدادِ بے رحمی حیوانات کے قانون کے تحت ہی ہوسکے؟