عن ابوہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ قال: سبعۃٌ یظلہم اللّٰہ فی ظلّہِ یوم لا ظل الا ظلہُ امامٌ عادلٌ - وشابٌّ نَشَأ بعبادۃ اللّٰہِ ، ورجلٌ کان قلبہ معلقاً بالمسجد اذا خرج منہُ حتَّی یعُودَ اِلیہِ ، ورجُلَانِ تَحَابَّا فی اللّٰہ فاجتمعا عَلَی ذٰلک وتفرقَا وَرَجُلٌ ذکر اللّٰہ خالِیًا فَفَاضَتُ عَینَاہُ ، ورجُلٌ دعتہُ (امراۃٌ ذاتَ حسبٍ وجَمَالٍ فَقَال: انی اخافُ اللّٰہ عزوجلَّ ورجُلٌ تصدَّق بصدقۃٍ فاخفاہا حتَّی لاتعلم شِمالُہُ مَا یُنفِقُ یَمِینہٗ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ماجاء فی الحب فی اللّٰہ ، حدیث نمبر ۲۳۹۱)
‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات لوگ ایسے ہیں، جن کو اللہ اس روز اپنے سایے میں جگہ دے گا، جس روز اس کے سایے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا:
۱- عدل پرور امام۔
۲- وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھا ہو۔
۳- وہ دو آدمی جو اللہ ہی کے لیے آپس میں محبت کرتے ہوں اور اسی محبت کی بنا پر ان کی نشست و برخواست ہوتی ہو۔
۵- وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کی آنکھیں چھلک جائیں۔
۶- وہ آدمی جس کو کوئی حسب والی اور خوبصورت عورت (گناہ کی) دعوت دے، تو وہ کہہ دے کہ میں اللہ عزوجل سے ڈرتا ہوں۔
۷- وہ آدمی جو پوشیدہ طور پر صدقہ کرے، یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہوپائے کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا صدقہ کیا ہے’’۔
مذکورہ بالا حدیث میں دراصل ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو قیامت کے روز کامیاب و کامران ہوں گے۔ اس لیے کہ اصل کامیابی آخرت کے دن کی کامیابی ہے۔ جس شخص کو اس دن اللہ کا سایہ نصیب ہوگا وہی اصل میں خوش نصیب ہے اور جو اس سے محروم رہے گا وہی اصل میں بدنصیب ہے۔ اس حدیث کا ظاہری مفہوم تو یہ ہے کہ اس دن کی شدید گرمی سے تمام لوگ پریشان ہوں گے اور اس شدید دھوپ سے بچنے کے لیے کوئی سایہ نہ پاسکیں گے، بجز ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ کا سایہ نصیب ہوگا اور وہ اس سایے میں رہ کر کسی قسم کی گرمی محسوس نہ کریں گے۔ اور یہ سایہ عرش کا سایہ ہوگا۔ حدیث میں جن سات لوگوں کا تذکرہ ہوا ہے، ان کا ذکر تفصیل سے کیا جا رہا ہے:
۱- پہلا شخص عدل پرور امام ہے۔ اس سے مراد مسلمانوں کا خلیفہ یا امیر ہے، یا ہر وہ شخص جس کو مسلمانوں کے معاملات میں کسی بھی چیز کا ذمہ دار بنایا گیا ہو اور وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہمیشہ عدل سے کام لیتا ہو۔ اپنے اندر مسلمانوں کے تعلق سے ہمیشہ خیر اور بھلائی کا جذبہ رکھتا ہو اور ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ پر چلتا ہو۔ اپنی امارت میں کبھی وہ افراط و تفریط سے کام لے کر اجتماعی مصالح کے اندر فساد کا ذریعہ نہ بن رہا ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان المقسطین عند اللّٰہ علی منابر من نور عین یمین الرحمن (مسلم کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامیر العادل، حدیث نمبر۴۷۲۱)
‘‘عدل و انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور سے بنے ہوئے منبروں پر رحمن کے دائیں جانب ہوں گے’’۔
امام کے تذکرے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر امام وقت عدل پرور ہو تو تمام معاملات صحیح ڈھنگ سے انجام پائیں گے۔ لیکن اگر اس میں کسی قسم کی ٹیڑھ ہو تو تمام رعایا پر اس کا ایسا ہی اثر پڑے گا۔
۲- دوسرا شخص اللہ کی بندگی میں پروان چڑھنے والا نوجوان ہے ۔ نوجوان کا خصوصی ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر خواہشات ہوتی ہیں جو اس کو کسی بھی معصیت پر اُبھار سکتی ہیں لیکن وہ ان سے اعراض کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کو ترجیح دیتا ہے۔ بندگی سے مراد صرف نماز اور روزہ نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اندر بندگی ٔ رب کا احساس پاتا ہے۔ اسی کے بتائے ہوئے طریقے پر اپنے قدم اٹھاتا ہے، اللہ کے حلال کو حلال جانتا ہے اور اس کی حرام کردہ چیزوں کوحرام سمجھ کر ان سے بچتا ہے۔ اسے یہ احساس رہتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ میں نے تجھے جوانی عطا کی تھی تو نے اس جوانی کو کن کاموں میں لگا دیا: وعن شبابہ فیما ابلاہ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب فی القیامۃ/ ۲۴۱۶)
۳- تیسرا وہ شخص ہے جس کا دل ہمیشہ مسجد کے ساتھ لگا رہتا ہو۔ یعنی اس شخص کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ مسجد کے ساتھ انتہائی درجے کی محبت رکھتا ہے۔ ابھی مسجد سے نکلا نہیں کہ دوبارہ وہاں جانے کی فکر میں رہتا ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ ہروقت مسجد میں بیٹھا رہتا ہے۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے زیادہ کسی دوسری چیز سے محبت نہیں ہوتی۔ ایک وقت کی نماز پڑھ کر نکلتا ہے تبھی سے دوسرے و قت کی نماز کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ نماز جو اللہ کے قرب کا سب سے بڑا وسیلہ ہے، یہ اسی وسیلے کو اپنا کر زیادہ سے زیادہ اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اگر وہ بازار میں بھی ہو تب بھی اس کا دل مسجد میں ہوتا ہے۔ جیساکہ علامہ ابن حجر نے روایت نقل کی ہے کہ۔ کانما قلبہ معلق فی المسجد (فتح الباری، ج۲، ص ۱۴۵)
‘‘گویا کہ اس کا دل مسجد میں لٹکا ہوا ہے’’۔
اذا خرج منہ حتٰی یعود الیہ کا مطلب یہ ہے کہ جب مسجد سے نکلتا ہے تو اپنے اندر ایک طرح کا اضطراب محسوس کرتا ہے اور اس کا یہ اضطراب اور بے چینی اسی وقت ختم ہوجاتی ہے جب وہ مسجد کی طرف واپس لوٹتا ہے جیساکہ ایک قول ہے:
المؤمن فی المسجد کالسمک فی الماء ‘‘مومن مسجد میں اسی طرح کا سکون اور اطمینان پاتا ہے جس طرح کا سکون مچھلی کو پانی میں حاصل ہوتا ہے’’۔
۴- وہ دو اشخاص جو اللہ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہوں، ایک شخص کی دوسرے شخص سے محبت کی بنیادیں مختلف ہوتی ہیں۔ رشتے کی بنیاد، خوبصورتی کی بنیاد، احسان کی بنیاد، کمال کی بنیاد، منصب اور اقتدار کی بنیاد وغیرہ، مگر جو محبت سب سے عظیم اور اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ ہے، وہ ایسی محبت ہے جو اللہ کے لیے کی جائے۔ یعنی جس کی بنیاد اللہ کی ذات اور اس کی خوشنودی ہو۔ اسی محبت کو کمالِ ایمان میں پہلا درجہ دیا گیا ہے۔
من احب اللّٰہ وابغض للّٰہ واعطی اللّٰہ ومنع للّٰہ فقد استکمل الایمان (ابوداؤد، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ ۱؍۴۶۸۱، ترمذی/ ۲۵۲۱)
‘‘جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اور اللہ کے لیے نفرت کی، اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روکا تو اس نے ایمان مکمل کرلیا’’۔
اس حدیث میں جن دو افراد کا تذکرہ ہے، وہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور یہ محبت حقیقی ہوتی ہے نہ کہ صرف ظاہری۔ اس کے پیچھے اگر کوئی مقصد کارفرما ہوتا ہے تو وہ یہی کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے۔ اگر وہ آپس میں ملتے ہیں تو اسی حقیقی محبت کی بنیاد پر اور جب جدا ہوتے ہیں تو اسی کا جذبہ لیے ہوئے۔ کوئی دنیاوی مفاد ان کی اس محبت میں کوئی کمزوری پیدا نہیں کرسکتا، اس لیے کہ اس کی بنیاد بہت مضبوط ہوتی ہے۔ ‘‘جدائی’’ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب یہ لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں تو اسی بنیاد پر، اگرچہ یہ جدائی موت کی شکل میں کیوں نہ ہو، اس وقت بھی یہ ایک دوسرے کے بارے میں خلوص اور خیرخواہانہ جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں۔ ایک روایت میں ‘‘اللہ کے لیے محبت’’ کو دخولِ جنت کی شرط قراردیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: لا تدخلوا الجنۃ حتٰی تومنوا ولا تومنوا حتٰی تحابوا، اولا ادلکم علی شئی اذ فعلتموہ تحاببتم؟ افشوا السلام بینکم (ابن ماجہ، کتاب الآدب، باب افشاء السلام/۳۶۹۲)
‘‘تم لوگ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ ایمان لاؤ اور تمہارا ایمان کامل نہیں ہوگا یہاں تک کہ تم آپس میں محبت کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں کہ جب تک اسے کرو تو تم آپس میں محبت کرنے لگو گے؟ (فرمایا) اپنے درمیان سلام کو رواج دو یعنی عام کرو’’۔
دنیا کی تمام محبتیں مٹ سکتی ہیں، سوائے اس محبت کے ، جو محض اللہ کے لیے ہو۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان اللّٰہ یقول یوم القیامۃ، این المتحابون بجلالی ، الیوم اظلھم فی ظلی یوم لاظل الاظلی (مسلم، کتاب البر، باب فضل الحب، فی اللّٰہ تعالٰی ؍۶۵۴۹ ، مسنداحمد ۲؍۲۳۷، رقم: ۷۲۳۱)
‘‘اللہ تعالیٰ قیامت کے روز پکارے گا، میری جلالت شان کی وجہ سے آپس میں محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج کے دن، میں ان کو اپنے سایے میں جگہ دوں گا، آج میرے سایے کے علاوہ کسی اور کا سایہ نہیں ہوگا’’۔
۵- پانچواں وہ شخص ہے جو تنہائی میں اللہ کا ذکر اس حال میں کرے کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں۔ اس شخص کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہ لوگوں سے الگ رہ کر اللہ کے انعامات، احسانات، اس کے فضل و کرم کو یاد کرتا ہے۔ اللہ کو اس کے بہترین ناموں سے پکارتا ہے ،اس کا شکر ادا کرتا رہتا ہے۔ وہ ذکر زبان سے بھی کرتا ہے اور دل سے بھی۔ اس ذکر میں ریا اور نمائش نہیں ہوتی۔
لوگوں سے دُور اور الگ رہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ یہ شخص جنگل یا کسی غار کی پناہ لیتا ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ اس عمل میں اس کا محور و مرکز اللہ کی ذاتِ مقدس ہوتی ہے، نہ کہ لوگوں کو دکھانے کے لیے ایسا کرتا ہے اور اس ذکر اللہ میں وہ کسی بھی طرح کی دخل اندازی نہیں چاہتا۔ ابن حجر العسقلانیؒ نے حاکم کی وساطت سے حضرت انسؓ کی ایک روایت نقل کی ہے: من ذکر اللّٰہ ففاضت عیناہ من خشیۃ اللّٰہ حتٰی یصیب الارض من دموعہ لم یعذب یوم القیامۃ (فتح الباری ۱۴۷، ج ۲)
‘‘جس نے اللہ کا ذکر اس طرح کیا کہ اللہ کی خشیت سے اس کی آنکھیں بہ پڑیں اور اس کا آنسو زمین پر گر پڑا، تو ایسے شخص کو قیامت کے دن عذاب نہیں دیا جائے گا’’۔
بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے کر مامون فرمائے گا۔
۶- چھٹا وہ شخص ہے جس کو کوئی حسب نسب اور جمال والی عورت اپنی طرف بلائے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ یہ شخص بھی اللہ کے سایے میں جگہ پائے گا اورکیوں نہ پائے کہ اس کو ایک ایسا موقع ہاتھ آتا ہے کہ دنیا میں چند لوگ ہی ایسے مواقع پر صحیح سلامت بچ پاتے ہیں۔ عورت بھی کوئی معمولی نہیں، بلکہ حسب و نسب والی ہے، جو بجائے خود ایک بڑی چیز ہے، اور اس کے علاوہ خوبصورت بھی، اور تیسری چیز جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ عورت خود دعوت دے رہی ہے۔ اللہ کا خوف اگر کسی کے دل میں نہ ہو تو وہ اس پھندے میں با آسانی پھنس سکتا ہے، مگر خوفِ خدا رکھنے والا شخص اس سے باز رہ کر اپنی عفت کو داغ دار ہونے سے بچاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو حرام قرار دیا ہے۔
لا تقربوا الزنی انہٗ فاحشۃً وسآءَ سبیلًا (الاسرا:۳۲)
وہ سمجھتا ہے کہ اللہ کے مومن بندوں کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں: والذین ہم لفروجہم حافظُون (المومنون:۵)
اس لیے وہ بھی اپنا نام ان مومنین کی صف میں لکھوانا چاہتا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے کامیاب قرار دیا ہے۔
۷- ساتواں وہ شخص ہے جو خفیہ طریقے پر صدقہ کرتا ہے۔ اصل میں عبادات کی جان اور روح اخلاصِ نیت ہے۔ اگر کسی کام میں اخلاص نہ ہو اور اسے لوگوں کو دکھانے اور نام نمود کے لیے کیا جائے تو وہ بے کار ہے۔ قیامت کے روز ایسا عمل اُلٹا اس آدمی کے لیے وبال بن جائے گا۔ اس روایت میں مذکور ہے کہ وہ آدمی بھی اللہ کے سایے میں جگہ پائے گا۔ جو کچھ بھی صدقہ کرتا ہے تو خفیہ طریقے پر کرتا ہے، کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ اس کا یہ عمل اس کے حددرجہ احتیاط اور خلوص کی علامت ہے۔
یہاں صدقہ سے مراد نفلی صدقہ ہے، جس کو چھپا کر کرنا ضروری ہے۔ فرض صدقات جیسے زکوٰۃ وغیرہ کا اعلانیہ طور پر ادا کرنا افضل ہے۔ قرآن کریم میں انہی لوگوں کا تذکرہ مختلف جگہ پر آیا ہے: الذین ینفقون اموالہم بالیل والنَّہار سِرًّا وعلانیۃ فلہم اجرہم عند ربہم ولا خوفٌ علیہم ولاہم یحزنون (البقرہ:۲۷۴)
‘‘جو لوگ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں’’۔ والذین صبروا ابتغآءَ وجہِ ربہم واقاموا الصلٰوۃ وانفقوا مما رزقنٰہم سِرًّا وعلانیۃً ویدرءُ ونَ بالحسنۃِ السیئۃَ اُولئک لہم عقبی الدَّارِ (الرعد:۲۲)
‘‘ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں، آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے’’۔
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ‘‘چھپا کر نیکیاں کرنے سے آدمی کے نفس و اخلاق کی مسلسل اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے اوصافِ حمیدہ خوب نشوونما پاتے ہیں۔ اس کی بُری صفات رفتہ رفتہ مٹ جاتی ہیں اور یہی چیز اس کو اللہ کے ہاں اتنا مقبول بنا دیتی ہے کہ جو تھوڑے بہت گناہ اس کے نامۂ اعمال میں ہوتے بھی ہیں انہیں اس کی خوبیوں پر نظر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے’’۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص ۲۰۹)
ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان ظل المؤمن یوم القیامۃ صدقتہ (مسنداحمد، ۴؍۲۳۳، رقم ۱۸۲۰۷)
‘‘قیامت کے دن مومن کا سایہ اس کا (اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا ہوا) صدقہ ہوگا’’۔
یعنی دنیا میں رہتے ہوئے اس نے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صدقہ کیا ہوگا، قیامت میں اس کو اس صدقے کی بدولت اللہ کا سایہ نصیب ہوگا اور ایک روایت میں فرمایا: کل امرئ فی ظل صدقتہ حتٰی یفصل بین الناس (مسنداحمد: ۴؍۱۴۸، رقم ۱۷۳۳۳)
‘‘(قیامت کے دن) ہر شخص اپنے صدقے کے سایے میں ہوگا، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوگا’’۔
اس حدیث میں رجل کا لفظ آیا ہے۔ جس کے معنی مرد کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس حدیث میں صرف مردوں کو بشارت دی گئی ہے۔ بلکہ اس میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ یعنی ہر وہ عورت جو اپنی مفوضہ ذمہ داریاں عدل وانصاف کے ساتھ انجام دے، جو اپنی جوانی اللہ کی بندگی اور خوشنودی میں گزارے، جو نمازوں کو ان کے اوقات کی پابندی کے ساتھ ادا کرے، وہ دو عورتیں جن کے تعلقات اور نشست و برخواست محض اللہ کے لیے ہوں، جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کی آنکھیں خشیت الٰہی سے اشکبار ہو جائیں، وہ عورت جسے اگر کوئی حسب و نسب والا اور خوبصورت نوجوان بدکاری کی دعوت دے تو یہ اس کی دعوت یہ کہہ کر رد کردے کہ میں اللہ سے ڈرتی ہوں، جو صدقہ کرے اور اسے اتنا پوشیدہ رکھے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ لگے۔ یہ تمام عورتیں بھی ٹھیک اسی طرح روزِ قیامت سایۂ الٰہی سے بہرہ ور ہوں گی جس طرح ان خصوصیات کے حامل مرد اس سے فیضیاب ہوں گے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں علامہ ابوسامۃ عبدالرحمن کے وہ اشعار نقل کیے جائیں جن میں انھوں نے اس حدیث کو بیان کیا ہے:
وقال النبی المصطفٰی ان سبعۃً
یظلہم اللّٰہ الکریمُ بظلِّہِ
محبٌ عَفِیفٌ ناشِیٌ متصدقٌ
وباکٍ مصلٍّ والامامُ بعدلِہِ
(فتح الباری، ج ۲، ص ۱۴۳)
کروں گا اور ایک لمبے عرصے تک دن رات اللہ کا ذکر سنوں گا ۔ وہ اپنے ساتھی بیج کو مخاطب کر کے بولا کہ کیا تم نے یہ خیال کیا کہ میر ی پیدائش کتنی بابرکت ، میری زندگی کتنی شاندار اور مرنے کے بعد میرا مصرف کتنا باعث ثواب ہو گا ۔ دوسرا بیج بولا : نہ بھئی نہ ! میں تو یونہی پڑا رہنا پسند کروں گا ۔ اگر نمی کی وجہ سے میں اگ اٹھا اور میر ی جڑیں نیچے کی طرف پھیلنا شروع ہوئیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ نیچے کسی چٹان سے ٹکرا جائیں ۔ اس طرح تو میری جڑوں کے زخمی ہونے کا خدشہ ہے ۔ اگنے کے بعد اگر میری کونپلوں نے زمین سے سر نکالا تو کوئی بھیڑ بکری آئے گی اور منہ میں چبا کر چلی جائے گی ۔ وہ پھر خوف زدہ ہو کر بولا میں تو اس طرح پڑا رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہوں ۔ میں تو اگنے اور بڑھنے کی شکل میں بلاوجہ کا رسک نہیں لوں گا ۔ اسی اثنا میں ایک مرغی دانا دنکا تلاش کرتے ہوئے آنکلی ۔ وہ بیج جو اگنے کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے مرغی کی چونچ کا شکار ہو کر اس کے پیٹ میں چلا گیا ۔
٭٭٭