ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع سے پورے خطے کے عوام میں بھلے ہی بے چینی اور تناؤ ہے لیکن شمالی ریاست بہار کے پورنیہ ضلع کے ‘پاکستان’ نامی گاؤں کے عوام امن اور بھائی چارے کا پیغام دینے کی اپنی روایت پرآج بھی قائم ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی صورت جنگ ہو۔
‘پاکستان’ مغربی بنگال کی سرحد کے قریب ایک گاؤں ہے جہاں کے مسلمان بھارت کی تقسیم کے بعد اس وقت کے مشرقی پاکستان ہجرت کرگئے تھے اور جن کی یاد میں مقامی غیرمسلموں نے سندھیا پنچایت کے اس اجڑے ہوئے گاؤں کا نام ‘پاکستان’ رکھ دیا تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان روایتی تلخ رشتے اور کچھ مقامی عناصر کی مخالفت کے باوجود یہاں کے لوگوں نے اپنے گاؤں کا نام نہیں بدلا ہے اور آج بھی یہ گاؤں ‘پاکستان’ ہی کہلاتا ہے۔ لیکن ‘پاکستان’ میں آج ایک بھی مسلم خاندان آباد نہیں ہے۔
اس گاؤں میں یوں تو زیادہ تر لوگ ناخواندہ ہیں اور انہیں بھارت اور پاکستان کے موجودہ تلخ رشتوں کی شدت کا احساس نہیں ہے لیکن کچھ لوگ کافی باشعور ہیں۔
‘پاکستان’ میں رہنے والے سبھاس بسیرا بتا تے ہیں:‘دونوں ممالک کے درمیان حالات کشیدہ ہیں لیکن کسی بھی حال میں جنگ کی نوبت نہیں آنی چاہیئے کیونکہ اس کا خمیازہ معصوم عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔’ وہ مزید کہتے ہیں کہ‘جب بھی دونوں ممالک کے رشتے کشیدہ ہوتے ہیں تب ہم ایک نفسیاتی دباؤ کے شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ کچھ عناصرہم پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ ہم دشمن ملک کے نام سے کیوں جانے جاتے ہیں۔’
یہ گاؤں ضلع پورنیہ کے شری نگر بلاک میں ہے۔اس بلاک کے بلاک ڈیویلپمینٹ آفیسر ونیے کمار پنکج کہتے ہیں: ‘ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اس گاؤں کے نام پر اعتراض کرتے ہوں لیکن انتظامیہ کو ایسی کوئی شکایت نہیں ملی ہے اور سرکاری دستاویز میں بھی اس کا نام پاکستان ہی ہے۔’
اسی گاؤں میں کئی نسلوں سے آباد سبل ہیمبرم کا خاندان بھی رہتا ہے۔ ہیمبرن بتاتے ہیں:‘ہمارے آباؤ اجداد یہاں کے مسلمانوں کے کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے۔ ملک کے بٹوارے کے بعد جب وہ لوگ مشرقی پاکستان ہجرت کرنے لگے توانہوں نے اپنی زمینیں ہمارے آباؤ اجداد کے حوالے کردیں اور ان کے اسی احسان کے بدلے ہمارے باپ داداؤں نے اس گاؤں کا نام پاکستان رکھ دیا۔’
اس گاؤں سے کچھ فاصلے پر آباد موسٰی پور گاؤں کے پردھان (مکھیا) عبدالستار بتاتے ہیں: ‘پاکستان گاؤں کے قبائلی عوام کافی روایت پسند ہیں اور وہ اس نام کے بجائے دوسرے نام سے پکارا جانا پسند نہیں کرتے۔’
اسی ضلع کے ویر پور پنچایت کے پوکھریا گاؤں کے بزرگ باشندے حبیب میاں کو اس گاؤں کے وہ تمام واقعات اب بھی یاد ہیں جب یہاں کے باشندے مشرقی پاکستان ہجرت کر رہے تھے۔
چھہتر سالہ حبیب اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں:‘ تقسیم ہند کے دوران میں کوئی پندرہ سال کا ہوں گا۔ مجھے یاد ہے کہ پورا گاؤں مسلمانوں کا تھا لیکن 1947 سے 1950 تک رفتہ رفتہ یہاں کے لوگ ہجرت کر کے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) چلے گئے۔ اس وقت یہ لوگ اپنا گاؤں کیوں چھوڑ رہے تھے میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔’
ضلعی ہیڈ کوارٹر سے لگ بھگ پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ گاؤں تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہے جہاں پہنچنے کے لیے ایک چھوٹی ندی کو پہلے کشتی سے اور پھر پگڈنڈیوں کے راستے پیدل عبور کرنا پڑتا ہے۔ اس گاؤں میں بجلی، پانی، سڑک اور سکول جیسی تمام سہولیات ندارد ہیں۔ یہاں کے بلاک ڈیولپمینٹ آفیسر ونیے کمار پنکج کہتے ہیں: ‘یہاں پرائمری سکول نہیں ہے لیکن یہاں کے اکا دکا بچے قریب کے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں لیکن انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ اس گاؤں میں بھی ترقیاتی پروگرام چلائے جائیں۔’