تحریر: شہزاد سلیم
ترجمہ: محمد صدیق بخاری
ذرائع ابلاغ اور مواصلات کی حیرت انگیز ترقی نے دھرتی کا منظر ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ پہلے جن چیزوں کا تصور بھی مشکل تھا اب وہ حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں۔ فاصلے سمٹ چکے ہیں اور دنیا ایک گاؤں کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ تہذیبی روایات اور اقدار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں اور نئی قدریں وجود پارہی ہیں۔اسی تہذیبی ٹوٹ پھوٹ پر ایک شاعر نے کہا تھا،
لٹ گئی عصمت اقدار وشرافت ازہر
کاش جاتے نہ میرے گاؤں کو پکے رستے
ہماری رسائی اب وہاں تک ہے جہاں تک قدیم انسان کے لیے سوچنا بھی محال تھا۔ میڈیا کے اس انقلاب اور رفتار کو روکنا تو ممکن نہیں البتہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ جس تیزی کے ساتھ میڈیا آگے بڑ ھ رہا ہے اسی تیزی کے ساتھ انسان اپنے دل و دماغ خاص طو ر پر نظروں کی حفاظت کے لیے چوکنا اور محتاط ہو جائے۔ کیونکہ نگاہیں ہی وہ آلہ ہیں جو اشیا کا عکس دل و دماغ کو منتقل کرتی ہیں۔ انہی کے راستے دل میں نقوش بنتے اور بگڑتے ہیں۔ دل میں اچھی تصویریں بھی انہی کے راستے اپنی جگہ بناتی ہیں اور بری تصویریں بھی انہی راہوں سے آکر دل کی نگری میں بیٹھ جاتی ہیں اور پھر اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ انہیں بیٹھنے ہی نہ دیا جائے۔ تو پھر کیا ان راہوں کو بند رکھا جائے؟ یہ بھی ممکن نہیں، ہاں البتہ ان کی ہرآن حفاظت ممکن ہے۔
یہ حفاظت کیا ہے اصل میں نگاہوں کو جھکا لینے کی مشق ہے اور جب یہ مشق ہو جاتی ہے تو پھر ہر غیر مطلوب تصویر پر نگاہیں خود بخود جھک جاتی ہیں اور ہرمطلوب پر اٹھ جاتی ہیں۔ ٹی وی ، انٹر نیٹ وغیرہ کے بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان میں دل و دماغ کی پاکبازی برباد کر نے کا سامان بھی وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے اور یہ سامان تقوے اور پاکبازی پر نگاہوں کی راہ سے ہی حملہ آور ہو تا ہے۔ اس لیے ہر اُس شخص پر یہ لازم ہو گیا ہے، کہ جسے اس بات کی خبر ہے کہ اسے ایک روز اللہ کے حضور جوابدہ ہونا ہے، کہ وہ میڈیا کے اس انقلاب میں اپنی حفاظت کے لیے بھی ہوشیار رہے۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس کی نگاہیں تو مناظر سے روشن ہورہی ہوں لیکن دل میں اندھیرا پھیل رہا ہو۔ نگاہوں کی روشنی تو لمحوں میں ختم ہو جائے گی لیکن دل و روح کا اندھیرا تو جہنم کے اندھیروں تک پہنچا کر چھوڑے گا۔ اور یہ بہر حال خسارے کا سودا ہے۔ بد نظر ی کی لذت تو تھوڑی ہی دیر میں ختم ہو جاتی ہے لیکن اس کے نتیجے میں دل جس گنا ہ میں مبتلا ہوتا ہے اس کا وبال آخرت تک ساتھ جاتا ہے۔ اس لیے لذت کے لیے گناہ کرنا بیوقوفی ہے کیونکہ لذت توختم ہو جائے گی اور گناہ کا وبال باقی رہ جائے گا اسی طرح نیکی کو مشقت کے ڈرسے نہ کرنا بھی حماقت ہے کیونکہ مشقت تو ختم ہو جائے گی اور نیکی کا اجر ہمیشہ باقی رہے گا۔
نگاہوں کی اہمیت کا یہی وہ پہلو ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یہ کہہ کر توجہ دلائی کہ مومنین سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور مسیح علیہ السلام نے یوں کہا "تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا۔"(متی 29۔ 27،5) اور رسول کریم نے کہا ‘‘ النظرۃ سھم مسموم من سھام ابلیس فمن ترکھا للہ اتاہ اللہ ایمانا یجد حلاوۃ فی قلبہ( میزان الاعتدال) نظر ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے جو شخص محض اللہ کے خوف سے اس کو چھوڑ دے گا تو اللہ اس کے بدلہ میں اس کو ایمان دے گا جس کی حلاوت کو وہ اپنے دل میں پائے گا۔
اب بھی یہ صفحہ اول کی سب سے بڑی خبر ہے۔ اور تمامتر کوششوں کے باوجود عرب عوام حماس اور حزب اللہ کو اپنا دشمن اور اسرائیل و امریکہ کو اس جنگ میں اپنا حلیف ماننے کو تیار نہیں۔
عوامی نظروں میں حماس عربوں کی جنگ لڑ رہی ہے اور وہ اس کی حمایت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ حزب اللہ کی 2006 میں جنگ کو وہ عربوں کی فتح کہنے پر مصر ہیں۔ ایران عوام کا نہیں خواص کا مسئلہ نظر آتا ہے۔ حکمرانوں اور رعایا کے درمیان ایک وسیع خلیج نظر آتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ خلیج بڑھ رہی ہے کم ہوتی نظر نہیں آتی۔ (بشکریہ ، بی بی سی ڈاٹ کام)