وہ بادشاہ سلامت کا مصاحب تھا۔بادشاہ سلامت کی نظر کرم اس پر تھی اور اس نظر کرم نے اسے گویا بادشاہ سلامت کے محل کا مالک بنا ڈالا تھا۔ جب وہ اپنے محل سے نکلتا تو اس کی گردن تنی ہوتی تھی ۔ یسار و یمین دیکھنا اس کے شایان شان نہ تھا۔ وہ عام انسانوں کے سلام کا جواب بھی کم کم ہی دیا کرتا تھا اور اگر دیتا بھی تو گردن کے ہلکے سے اشارے کے ساتھ۔اس کے قیام ، اس کے جلوس ،اس کے تکلم، اس کے تبسم سب پر رعونت کا سایہ تھا ۔ بادشاہ کے دیگر ملازمین کو ڈرا نے میں بھی وہ یدطولیٰ رکھتا تھا۔اس کا کوئی خا ص منصب نہ تھا مگرپھر بھی سارے منصب اسی کے تھے۔و ہ بادشاہ کے ہر منصب دار،چاہے وہ ہفت ہزاری ہو یا پنج ہزاری،کے پر کاٹ کر رکھتا تھا۔اس لیے سارے منصب دار بھی اسی کے در کے درباں ہو ا کر تے تھے۔بلکہ وہ جب چاہتا اپنے کاندھے جھٹک کر ان بیچاروں کو جھٹک دیا کرتا تھا ۔ وہ ہر منصب دار کو اس بات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتا تھا کہ‘ ‘ میں وہ کندھا ہوں جس پر تمہارا سر قائم ہے’ ’۔وہ جب محل سے باہر جانا چاہتا توہر دربان تعظیم بجا لاتا اور اس کے لیے اپنے ہاتھوں سے گیٹ کھولنا فخر جانتا ۔ لوگ اس کے اشارہ ابر و کے منتظر رہا کرتے ۔ ہر ملازم میں دوڑ لگی رہتی کہ کس طرح اس کی خوشنود ی حاصل کر لے کیونکہ اس کی خوشنودی کا مطلب بادشاہ سلامت کی خوشنود ی تھی۔اسے دیکھ کر ایک صاحب کہا کرتے کہ ہاں بھائی ،‘‘ پیا جسے چاہے وہی سہاگن’’۔ ان صاحب کا خیا ل تھا کہ اصل میں ایسا ہوا ہے کہ جب پیاکے آنے کا وقت تھا کہ تو سب دلہنیں سوئی ہوئی تھیں اور یہ دلہن جاگ رہی تھی اس لیے وہی پیا من بھا گئی۔ وہ اصل میں انجیل کی تمثیل سے یہ بات بنایا کرتے تھے ۔انجیل کی تمثیل انجیل کی زبان میں کچھ یوں ہے۔
‘‘اس وقت آسمان کی بادشاہی ان دس کنواریوں کی مانند ہو گی جو اپنے چراغ لے کر دلہا سے ملاقات کرنے نکلیں۔ان میں سے پانچ بیوقوف اور پانچ عقل مند تھیں۔جو بیوقو ف تھیں انہوں نے چراغ تو لے لیے لیکن اپنے ساتھ تیل نہ لیامگر جو عقل مند تھیں انہوں نے اپنے چراغوں کے علاوہ کپیوں میں بھی اپنے ساتھ تیل لے لیا۔دلہا کے آنے میں دیر ہو گئی اور وہ سب کی سب اونگھتے اونگھتے سو گئیں۔آدھی رات کو شور مچ گیاکہ دلہا آ گیا ہے اس سے ملنے کے لیے آ جاؤ۔اس پر سب کنواریاں جا گ اٹھیں اور اپنے اپنے چراغ جلانے لگیں۔ بیوقوف کنواریوں نے عقل مند کنواریوں سے کہا، اپنے تیل میں سے کچھ ہمیں بھی دے دو۔کیونکہ ہمارے چراغ بجھے جا رہے ہیں۔عقل مند کنواریوں نے جواب دیانہیں شاید یہ تیل ہمارے اور تمہارے دونوں کے لیے کافی نہ ہو، بہتر ہے تم دکا ن پر جاکر اپنے لیے تیل خرید لو۔جب وہ تیل خریدنے جا رہی تھیں تو دلہا آن پہنچا۔ جو کنواریاں تیار تھیں وہ دلہا کے ساتھ شادی کی ضیافت میں اندر چلی گئیں اور دروازہ بندکر دیا۔ بعد میں باقی کنواریا ں بھی آ گئیں اور کہنے لگیں، اے خداوند ، اے خداوند،ہمارے لیے دروازہ کھول دے۔لیکن اس نے جواب دیا سچ تو یہ ہے کہ میں تمہیں جانتا ہی نہیں۔لہذا، جاگتے رہوکیونکہ تمہیں نہ تو اس دن کاپتا ہے نہ ا س گھڑی کی خبر ہے۔’’
بادشاہ سلامت کے یہاں بھی بہت سی کنواریاں موجود تھیں لیکن یہ کنواری بادشاہ سلامت کے من کو بھاگئی تھی۔ اس لیے وہی سہاگن ٹھہری۔لیکن نہ جانے اس سہاگن سے خلوت میں کیاغلطی ہو گئی کہ ایک دن وہ بادشاہ سلامت کی نظروں سے گرگئی۔
بس پھر کیا تھا۔ بادشاہ سلامت کی نظروں سے گرنا تھا کہ یہ مصاحب بھی آسمان سے سید ھا زمین پر آن گرا۔ راستے میں کھجور پر اٹکنے کی نوبت بھی نہ آئی۔راقم الحروف نے اس مصاحب کے عروج و زوال کامنظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ایک وہ دن تھے کہ لوگ اس کی نظروں میں آنے کے لیے عجیب عجیب حرکتیں کیا کرتے تھے اور اس کی رہ گزر میں یوں ہی کھڑے رہا کرتے کہ شاید نظر پڑ جائے اور ایک یہ دن آیا کہ لوگ اس سے نظریں چرانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ حتی کہ وہ، جن کے بغیر اس کی صبحیں اداس اور شامیں سونی ہوا کرتی تھیں وہ بھی اس سے نظریں چرانے اور بچ کر نکلنے لگے اب وہ آتاتو کوئی اس کی تعظیم بجا نہ لاتا۔ اسے دیکھ کر لوگ راستہ بدل لیا کرتے کہ مبادا ا سکی نظر پڑ جائے اور وہ خود سلام کر بیٹھے اور کوئی جاکے بادشاہ سلامت کو بتادے کہ فلاں بندے نے اس کے سلام کا جواب دیاتھا اور یہ بند ہ بھی کہیں بادشاہ کی فہرست سے قلم زد نہ ہو جائے ۔تنی ہوئی گردن میں خم آ گیا تھا۔اللہ کی زمین پر اکڑ کر چلنے والاعاجزی سے چلنے لگا تھا۔مگر دیر ہو گئی تھی۔ اب وقت ہاتھوں سے نکل گیا تھا۔ گئے وقتوں کی تلاش میں وہ دیر تک پھرتا رہا مگر گیا وقت کسی کے ہاتھ آیا ہے جو اس کے ہاتھ آتا؟
اس سارے منظر نے مجھے بری طرح متاثر کیا ہے اور میں یہ سوچتا رہتاہوں کہ ایک معمولی اور فانی بادشاہ کی نظروں سے گر کر انسان کتنا بے قیمت ہو جایا کرتا ہے، تو وہ جو سب بادشاہوں کا بادشاہ بلکہ اصل بادشاہ ہے، اگر اس کی نظروں سے کوئی گر جائے تو وہ کتنا بے حیثیت اور بے قیمت ہو جائے گا ؟ اس امر کا اندازہ کرنابھی محال ہے۔شاید اسی لیے حضور ﷺ نے طائف کی وادی میں پتھر کھانے کے بعد زخمی ہاتھوں اور زخمی دل کے ساتھ جو دعا کی تھی اس میں فرمایا تھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ‘‘ اے میرے مالک اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو پھر مجھے کسی بات کا غم نہیں۔ اصل غم تو یہ ہے کہ کہیں تو مجھ سے ناراض نہ ہوجائے اور کہیں میں تیری نظروں سے گر نہ جاؤں۔ جب تک تو مجھ سے راضی ہے اس وقت تک میرے لیے کوئی تکلیف ، تکلیف نہیں اور میرے لیے کوئی رنج ، رنج نہیں’’۔
سوچتا ہوں کہ زندگی کے جو دن مخلوق کی خوشنودی حاصل کر نے کی دوڑ دھوپ میں بیت گئے ،سو بیت گئے ۔ اب باقی ایام کو اس طرح گزار ا جائے کہ بس اسی ایک مالک کی نظروں میں سما جانے کی فکر ہو جو سب کچھ کے بغیر سب کچھ کر سکتا ہے اور ان سب سے نظروں کو ہٹا لیا جائے جو سب کچھ کے ساتھ بھی کچھ نہیں کرسکتے ۔اور سوچتا ہوں کہ کیا ہی اچھا ہو کہ میرا رخ مال سے ہٹ کر اعمال کی طرف ، دنیا سے ہٹ کر آخرت کی طرف اور مخلوق سے ہٹ کر خالق کی طرف ہو جائے ۔اور سوچتا ہوں کہ اے کاش ا یسا ہو جائے کہ جب آنے والا آئے تووہ مجھے اپنا منتظر پائے ، میرا چراغ بھی روشن ہواور میری کپیوں میں تیل بھی بھرا ہو اورپھر وہ مجھے پردوں کے پیچھے بلائے اور ہولے سے کہہ دے جا تیرا حسا ب کتاب کیا لینا، تیرے پاس ہے ہی کیا؟ جا ایسے ہی میری جنت میں چلا جا۔ کیا یاد کرے گا! اے کاش ، ایسا ہو جائے ! لوگو تم بھی دعا کرو میں بھی دعا کرتا ہوں۔الا من تاب و آمن و عمل عملا صالحا فاولئک یبد ل اللہ سیاتھم حسنات و کا ن اللہ غفورا رحیما۔