من الظلمت الی النور
میں کیسے مسلمان ہوا
گنگا رام چوپڑا جی (عبد اللہ )
میرا پہلا نام گنگا رام چوپڑا تھا۔ میں روہتک کے ایک گاؤں میں ایک پڑھے لکھے زمیندار گھر انے میں ایک جنوری ۱۹۴۸ ء کو پیدا ہوا گاؤں کے اسکول سے پرائمری تعلیم حاصل کی پھر روہتک داخلہ لیا۔ ۱۹۶۷ ء میں بی کام کرنے کے بعد ایک اسکول میں پڑھانے لگاپھر ایک تعلق سے میری سیل ٹیکس میں نوکری لگ گئی۔ میں روہتک ضلع کا سیل ٹیکس افسر تھا۔ چار سال پہلے میں نے اپنی بیماری کی وجہ سے رٹائرمنٹ لے لیا۔ میری شادی ایک بڑے گھرانے میں ہوئی۔ میری بیوی مجھ سے زیادہ پڑھی لکھی تھی اور شادی کے وقت و ہ ضلع شکشا ادھیکاری ((B.S.A پر ملازم تھی۔ میری خواہش تھی کہ میری بیوی گھریلو عورت بن کر سکون سے رہے۔ میرے لئے عورتوں کی نوکری گائے کو ہل میں جوتنے کی طرح غلط تھا۔ میں نے شادی کے تین سال بعد زور دے کر ان سے نوکری چھڑوادی۔ مگر ان کی مرضی کے خلاف یہ فیصلہ ہوا تھا اس لئے ہماری گھر یلو زندگی نا خوش گوار ہوگئی۔ بات بڑھتی گئی۔ وہ اپنے گھر چلی گئی اور ان کے گھر والے میری جان کے دشمن ہوگئے اور بات عدالت تک پہنچی مقدمہ بازی چلتی رہی اور گھریلو زندگی کی یہ ناخوشگوار ی میرے سسرال والوں کی مجھ سے دشمنی اور مقدمہ بازی میرے لئے مسیحا بن گئی اور میرے کفر سے نکلنے کا ذریعہ بنی ۔
سوال : ماشاء اللہ عجیب بات ہے۔ آپ ذرااس ہدایت ملنے اور قبول اسلام کے واقعہ کو ضرور بتائیے؟
جواب : مقدمہ بازی زوروں پر تھی۔ عدالت کا رخ میری بیوی کی طرف لگ رہا تھا اور خیال تھا کہ مجھے سزا اور جرمانہ دونوں کا سامنا کرنا پڑے گا میرے وکیل نے مجھے مشورہ دیاکہ اگر آپ کہیں سے مسلما ن ہونے کا سرٹیفکٹ حاصل کرلیں تو اسے عدالت میں پیش کرکے آپ کی بہت آسانی سے جان بچ سکتی ہے۔ مجھے کسی مسلمان نے بتایا کہ مالیر کوٹلہ میں ایک مفتی صاحب ہیں۔ ان کا سرٹیفکٹ سرکار مانتی ہے۔ میں وہاں گیا مفتی صاحب تو نہیں ملے مگر لوگوں نے مجھے بتایا کہ یہ تو ۱۵ ۔ ۲۰ ہزار وپےئے لیتے ہیں۔ میرے لئے کوئی بڑی بات نہیں تھی مگر مفتی صاحب حیدرآباد کے سفر سے چارروز بعد لوٹنے والے تھے۔ اتنا انتظار کرنا میرے لئے مشکل تھا۔میں واپس آرہا تھا۔ راستہ میں ایک مسجد دکھائی دی۔ میں نے اپنے ڈرائیور سے گاڑی روکنے کو کہا اور خیال ہوا کہ یہاں کے میاں جی سے معلوم کروں۔ کیا اور کہیں بھی یہ کام ہوسکتا ہے؟ امام صاحب سہارن پور کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ یو پی کے ضلع مظفر نگر میں ایک جگہ پھلت ہے۔ وہاں پر مولانا کلیم صاحب رہتے ہیں۔ آپ وہاں چلے جائیے اور کسی سے کچھ معلوم نہ کریں اور وہاں آپ کا ایک پیسہ بھی نہ لگے گا اور سارا کام قانونی طور پر وہ خود پکا کروادیں گے اور انھوں نے مجھے پورا راستہ لکھ کر دیا۔
کچھ د فتری مصروفیت کی وجہ سے میں وہاں فوراََ نہ جاسکا تقریباََ ۲۵ دن کے بعد میں نے موقع نکا لا۔ ۲۹ جنور ی ۱۹۹۴ ء کو میں پھلت پہنچا۔ رمضان کا مہینہ چل رہا تھا۔ دن چھپنے کے ذرا بعد میں اپنے گارڈ اور ڈرائیور کے ساتھ پھلت پہنچا۔ مولانا صاحب مسجد میں اعتکاف میں تھے۔ ایک صاحب مجھے مسجد میں مولانا صاحب کے پاس لے گئے۔ مسجد کے چھوٹے کمرے میں مولانا صا حب سے میری ملاقات ہوگئی اور میں نے صاف صاف اپنے آنے کا مقصد بیا ن کیا اور مولانا صاحب سے کہا کہ مجھے اسلام قبول کرنے کا سرٹیفکٹ چاہئے۔ اپنی بیوی کے مقدمہ سے بچنے کے لئے عدالت میں جمع کرنا ہے۔ مجھے مسلمان ہونا نہیں ہے۔ نہ دھرم بدلنا ہے اور نہ میں دھرم بدل سکتا ہوں۔ صرف سرٹیفکٹ چاہئے مولانا صاحب نے مجھ سے کہا :کیا آپ عدالت میں بھی یہی کہہ کر سرٹیفکٹ داخل کریں گے۔ کہ مسلمان نہیں ہوا ہوں بلکہ صرف جعلی سرٹیفکٹ بنوایا ہے۔ میں نے کہا :بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے :عدالت میں تو میں یہی کہوں گا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں اس لئے میری بیوی سے اب میرا کوئی تعلق نہیں۔ مولانا صاحب نے کہا : جہاں آپ بیٹھے ہیں یہ مسجد ہے۔ مالک کا گھر ہے۔ اس کی بڑی عدالت میں آپ کو ہم کو۔ سب کو۔ پیش ہونا ہے۔ وہاں سب سے پہلے اس ایمان اور اسلام کے سرٹیفکٹ کے بارے میں سوال ہوگا اور وہاں جعلی سرٹیفکٹ پر گذر نہیں ہوگا۔ اس پر وہاں ہمیشہ کی نرک (دوزخ) کی جیل میں سزا ہوگی۔ خیر یہ تو آپ کا آپ کے مالک کا معاملہ ہے؟ مگر میرا کہنا یہ ہے کہ آپ ہم سے کیوں کہتے ہیں۔ کہ مجھے مسلمان نہیں ہونا ہے۔ آپ ہم سے یہ کہئے کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ مجھے مسلمان کر لیجئے اور ایک سر ٹیفکیٹ بھی چاہئے۔ ہم آپ کو کلمہ پڑھواتے ہیں۔ دلوں کا بھید تو ہم نہیں جانتے۔ ہم تویہ سمجھ کر آپ کو مسلمان کرلیں گے۔کہ آپ سچے دل سے مسلمان ہورہے ہیں۔ اس میں ہمارا یہ فائدہ ہوگا کہ ہمارے مالک نے ایک آدمی کے ایمان کا ذریعہ بننے پر ہمارے لئے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ ہمارا کام ہوجائے گا۔ جہاں تک د ل کا معاملہ ہے وہ دلوں کے بھید جاننے والا مالک دلوں کوپھیرنے والا بھی ہے۔ کیا خبر آپ اس کے گھر میں اتنی دور سے سفر کرکے آئے ہیں آپ کو سچا ایمان والا بنادیں پھر آپ کو ہم سرٹیفکٹ بھی بنوادیں گے اور وہ ہمارے نزدیک سچا سرٹیفکٹ ہوگا۔ ہم جعلی کوئی کام نہیں کرتے۔ میں نے کہا :جی ٹھیک ہے میں سچے دل سے مسلمان ہونا چاہتا ہوں اور مجھے سرٹیفکٹ بھی چاہئے۔ مولانا صاحب نے مجھے اسلام کے بارے میں کچھ بتایا اور یہ بھی کہا کہ موت کے بعداس بڑے حاکم اور بڑی عدالت میں ہم سب کو پیش ہونا ہے۔ نہ جھوٹی گواہی چلے گی نہ سرٹیفکٹ۔ اگر آپ اس مالک کے لئے سچے دل سے یہ کلمہ جو میں آپ کو پڑھوا رہا ہوں۔ پڑھ لو گے تو موت کے بعد کی ہمیشہ کی زند گی میں آپ کے لئے سورگ(جنت) ہوگی۔ چاہے آپ باہر سے کسی سے مسلمان ہونے کو بھی نہ کہیں۔ مولانا صاحب نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور اس کا ہندی ارتھ (ترجمہ ) بھی کہلوایا اور مجھ سے ہمیشہ اکیلے اللہ کی پوجا کرنے اور اس کے سچے رسول کی تابعداری کا عہد بھی کرایا اور میرا اسلامی نا م عبداللہ بتایا۔
مولانا نے بتایا کہ ہمارے مدرسے کا دفتراب بند ہے آپ رات کو رکیں۔ صبح نو بجے انشا ء اللہ میں آپ کو سر ٹیفکٹ بنوادوں گا۔ آپ چاہیں تو مسجد میں ہمارے اور ہمارے ساتھیوں کے ساتھ قیام کرلیں۔ یہاں آپ کو اچھے لوگوں کی سنگتی (صحبت ) ملے گی اور چاہیں تو ہمارے گھر بیٹھک میں آرام کریں۔ میں نے مسجد میں قیام کے لئے کہا سیکڑوں لوگ مولانا کے ساتھ مسجد میں رہ رہے تھے۔ جن میں ہریانہ کے کافی لوگ تھے ان میں سونی پت کے سب سے زیادہ تھے۔ میں سونی پت میں کئی سال رہ چکا تھا۔ آدھی رات کے بعد سب لوگ اٹھ گئے اپنے مالک کے سامنے رونے اور اس کا بڑی لئے میں ذکر کرنے والے یہ لوگ مجھے بہت اچھے لگے۔ میں بھی اٹھ کر بیٹھ گیا اور میں بھی ان کے ساتھ لاالہ الااللہ کا ذکر کرتا رہا۔ دشمنی مقدمہ بازی اور گھریلو زندگی کی اس بے چینی میں میری یہ رات ایسی گذری جیسے تھکا بچہ اپنی ماں کی گود میں آگیا ہو۔ مولانا نے مجھے سر ٹیفکیٹ صبح کو بنواکر دے دیا۔ میں نے فیس معلوم کی تو مولانا نے سختی سے منع کردیا۔ شانتی اور سکون کے اس ماحول میں میرا دل چاہا کہ کچھ اور وقت گذاروں۔ میں نے مولانا صاحب سے اجازت چاہی کے ایک رات میں اور رکنا چاہتا ہوں۔ مولانا نے کہا: بڑی خوشی کی بات ہے۔ ایک رات نہیں جب تک آپ کا دل چاہے آپ ہمارے مہمان ہیں۔ یہاں گاؤں میں آپ کو جو تکلیف ہو اس کو معاف کر دیجئے۔ شام تک مولانا الگ الگ وقتوں میں اللہ والوں کے قصے۔ قرآن کی باتیں اور دین کی جو باتیں اپنے مریدوں کو بتاتے رہے۔ میں بھی سنتا رہا اور میرا گارڈ بھی ساتھ رہا۔ وہ بڑا دھارمک آدمی ہے۔ شام کو سونی پت کے ایک ساتھی کو میں لے کر کھتولی گیااور وہاں سے ۲۵ کلو لڈو لایا۔ میرا دل چاہا کہ اللہ کے ان سچے بھکتوں کو اپنے ایمان کی خوشی میں مٹھائی کھلاؤں۔ رات کے کھانے کے بعد میں نے دوساتھیوں سے وہ لڈو تقسیم کرائے۔ دل تو اگلے روز بھی ایسے ماحول سے جانے کو نہ چاہتا تھا۔ مگر دفتر کی مجبوری اور تیسرے روز میرے مقدمہ کی تاریخ ہونے کی وجہ سے میں واپس آگیا۔ دو رات کی وہ شانتی بھر اماحول میرے بے چین جیون کو سکھی اور شانت کرگیا۔ واپسی میں میرا گارڈ جس کا نا م مہندر تھا مجھ سے کہنے لگا: سر!جینا تو یہاں آکر سیکھنا چاہئے۔ آپ نے مولانا صاحب کے بھاشن (تقریر ) ست سنگ سنی ؟ مجھے ۱۵سال ہوگئے۔ رادھا سوامی ست سنگ میں جاتے ہوئے۔ جو سچائی۔ پریم اور شانتی یہاں ملی۔ اس کی ہوابھی وہاں نہیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہر بات گات ( دل) میں گھس رہی ہو۔ سر چھوڑئیے سب سنسار !مولانا صاحب کے چرنوں میں آکر رہیں۔ چین اور سکھ تو بس یہاں ہی ملے گا۔ سارے ساتھی بھی کیسے سیدھے سادے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سچوں کا سنسار ہے۔ میں نے اس سے کہاتو بھی کلمہ پڑھ لیتا۔اس نے کہا کہ سر۔ جب آپ کو کلمہ پڑھوارہے تھے تو میں بھی آہستہ آہستہ کلمہ پڑھ رہا تھا اوردل دل میں اپنے مالک سے کہہ رہا تھا۔ کہ مالک !جب آپ دلوں کے بھید جانتے ہیں۔ تو اگر یہ دھرم سچا ہے تو ہمارے سر کے دل کو پھیردے اور مجھے بھی ان ساتھ کردے۔
مولانا صاحب نے مجھے اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ پانچ عدددی تھی۔ کہ آپ اس کو پڑھیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی پڑھوائیں۔ میں نے گھر جاکر ایک کتاب اپنے گارڈ مہندر کو دی اور خود بھی پڑھی۔ اب مجھے اسلام کے بارے میں سوفیصد اطمینان ہوگیاتھا۔ اس لئے کہ میں دو روز میں ایمان والوں کو دیکھ چکا تھا۔ میرے وکیل نے مجھے فون کیا۔ مجھے سرٹیفیکٹ دکھادیں۔ میں نے اگلے روز ملنے کو کہا۔ مگر صبح ہوئی تو میرے دل میں آیا کہ مجھے اس سرٹیفیکٹ کو اپنے مالک کی عدالت میں پیش کرنا ہے۔ اس لئے مجھے اس عدالت میں دھوکہ کے لئے نہیں پیش کرنا چاہئے۔ میں نے آپ کی امانت اٹھائی اور مالک کو حاضر ناظر جان کر ایک بار کلمہ کو اس میں دیکھ کر سچے دل سے دوہرایا۔ ۔ مقدمہ کی تاریخیں لگیں۔ فیصلہ میری بیوی کے حق میں ہوا۔ مجھ پر ایک لاکھ روپیہ جرمانہ اور ماہانہ خرچہ ہوا۔عید کے بعد میں سونی پت مدرسہ گیا۔ وہاں کے پرنسپل صاحب سے ملا اور اپنے دین لینے کی خوشی میں بچوں اور اسٹاف کی دعوت کی اور مٹھائی بھی تقسیم کی۔ مجھے موت سے بہت ڈر لگتا تھا۔ ایک روز دفتر میں تھا کہ میرے سینہ میں درد شروع ہوا اور درد بڑھتے بڑھتے میں بے ہوش ہوگیا۔ مجھے ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے ہارٹ اٹیک بتایا۔ میں ۲۴ روز ایمر جنسی اور I.C.Uمیں رہا۔ کچھ طبیعت سنبھلی۔ چار پانچ مہینے آرام کے بعد دفتر جانے لگا۔ ان چارپانچ مہینوں میں۔ میں گھر پر رہا۔ مجھے موقع ملاکہ میں اسلام کو پڑھوں میں نے تلاش کیا تو مولانا صاحب کے بھیجے ہوئے ہمارے قریب میں دوجانہ میں ایک حافظ صاحب امام تھے ان کے پاس جانے لگا اور میں نے نماز سیکھی اور نماز پڑھنے لگا۔ دہلی سے اسلام کیا ہے ؟ مرنے کے بعد کیا ہوگا ؟ وغیرہ کتابیں منگا کر پڑھیں مولانا صاحب سے ملنے کو میرا دل بہت چاہتا تھا۔ ایک روز دو جانہ کے ایک صاحب نے بتایا کہ مولانا کا پروگرام آج باغپت میں ہے اور مجھے ملنے جاناہے۔ میں نے کہا میرے ساتھ چلیں۔ میرا دل بھی ملنے کو بہت چاہ رہا ہے۔ ہم لوگ باغپت پہنچے۔ مسجد میں پروگرام شروع ہوچکا تھا تقریر کے بعد میں مولانا صاحب سے ملا۔ مولانا بہت خوش بھی ہوئے کہ اتنے دنوں میں ملاقات ہوئی۔ مجھے اتنا کمزور دیکھ کر پریشان بھی ہوئے۔ میں نے بتایا کہ مجھے سخت ترین دل کا دورہ ہوا اور ۲۵روز میں ایمرجنسی میں رہا۔ پروگرام کے بعد ایک صاحب کے یہاں دعوت تھی۔ میزبان ہمیں بھی زور دیکر ساتھ لے گئے۔ مولانا نے معلوم کیا کہ چوپڑا جی آپ کاتو پرہیز چل رہا ہوگا؟ میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ حضرت آپ تو اب چوپڑا نہ کہیں۔ آپ نے خود میرانام عبداللہ رکھا تھا۔ مولانا صاحب نے کہا کہ اچھا عبداللہ صاحب آپ کے لئے پرہیز کا انتظام کریں ؟ میں نے کہا : مولانا صاحب آپ کے ساتھ کھاؤں گا وہ مجھے بیمار کرنے کے بجائے اچھا ہی کرے گا۔ مولانا صاحب سے میں نے بتایا کہ میں نے آپ کی امانت پڑھی۔ اصل میں تو آپ کے ساتھ رہ کر ہی میں کافی حد تک مسلمان ہوگیا تھا۔ مگر آپ کی امانت پڑھنے کے بعد تو مجھے اندر سے اطمینان ہوگیا اور میں نے تنہائی میں مالک کو حاضر ناظر جان کر دوبارہ کلمہ پڑھا اور پھر عدالت میں سرٹیفیکٹ بھی جمع نہیں کیا اور اللہ کے شکر سے یہ حافظ صاحب جانتے ہیں۔ پانچوں وقت نماز پڑھتا ہوں اور آپ میری نماز سن لیجئے۔ جب میں نے نماز اور جنازے کی دعا سنائی تو مولانا مجھے کھڑا کرکے چمٹ گئے اور میرے ہاتھ کو خوشی اور پیار سے چوما۔ بار بار مبارکباددی اور بتایا کہ ہم اور ہمارے ساتھیوں نے بہت دل سے دعا کی تھی کہ میرے مالک زبان سے کہلوانے والے ہم ہیں آپ دل میں ڈالنے والے ہیں۔ ان کو سچا مسلمان بنا دیجئے اللہ کا شکر ہے میرے مالک نے ان گندے ہاتھوں کی لاج رکھ لی۔
سوال :آپ کے گارڈ جن کا آپ ذکر کررہے تھے۔ مہندر۔ آپ نے پھر ان کے ایمان کی فکر نہیں کی؟
جواب : احمد صاحب میں اس کی فکر کہاں کرنے والا تھا۔ وہ تو بہت اونچااڑا۔
سوال : وہ آج کل کہاں ہیں؟
جواب : وہ تو جنت میں ہے۔ جنت میں۔.
سوال : وہ کس طرح ؟ ذرا سنائیے؟
جواب : میں بتایا نا کہ وہ بہت دھارمک (مذہبی ) آدمی تھا۔ وہ جاٹ فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ پھلت سے آکر تو بس اس کے آگ سی لگ گئی۔ اس نے آپ کی امانت پڑھی۔ تو پڑھ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا سر! آپ نے وہ کتاب پڑھی ؟ میں نے کہا کہ ابھی نہیں پڑھی۔ اس نے کہا کہ سر آپ نے بڑی نا قدری کی۔ دو روز سورگ میں رہ کر بھی آپ کو وہاں کا مزانہ لگا۔ سر آپ وہ کتاب ضرور پڑھیں۔ میں اب سچا مسلمان ہوں۔ میں نے اپنا نام محمد کلیم رکھا ہے ۔سرآپ تو اب مجھے محمد کلیم ہی کہا کریں۔ اس کے بعد اس کو دین سیکھنے کا شوق لگ گیا۔ روہتک میں چورا ہے پر ایک مسجد ہے اس کو لال مسجد کہتے ہیں۔ کہتے ہیں۔ یہ بڑی اتہاسک (تاریخی) مسجد ہے۔ یہاں پر بہت بڑے پیر اور مولانا صاحب رہتے تھے۔ جنھوں نے پورے ہندستان میں دین پھیلایا۔ ان کا نام ہی ولی اللہ تھا۔ وہ اس مسجد کے امام کے پاس روز جاتا تھا اور پھر چارمہینے کی چھٹی لیکر جماعت میں چلا گیا۔ ڈاڑھی رکھ کر آیا۔ ایک دن میں کسی کام سے دہلی گیا تھا۔ وہ مجھ سے جمعہ کی نماز پڑھنے کی اجازت لے کر گیا۔ دفتر سے وضو کر کے گیا۔ سڑک پار کر رہا تھا کہ ایک موٹر سائیکل والے نے ٹکّر ماردی۔ سر کے بل گر ا اور سر میں چوٹ آئی۔ بے ہوش ہوگیا۔ ڈرائیور نے مجھے بتایا۔ ہم اسے اسپتال لے کر گئے۔ آٹھ روز تک پنتھ میں رہا۔ مگر ہوش نہیں آیا۔ گھر والے علاج کرتے رہے۔ ۱۵ روز کے بعد میں اس کو اسپتال میں دیکھنے گیا۔ وہ بے ہوش تھا اچانک اس کے پاؤں ہلے۔ میں نے آوازدی۔ اس نے آنکھ کھول دی۔ مجھے اشارہ سے قریب کیا اور آہستہ سے بولا۔ سر میرا سرٹیفیکٹ قبول ہو گیا۔ زور سے ایک با رکلمہ پڑھا اور چپ ہوگیا۔ (روتے ہوئے) وہ مجھ سے بہت آگے نکل گیا۔ واقعی بہت سچا آدمی تھا۔
سوال : اب وہ کہا ں ہے ؟
جواب : احمد بھائی میں یہی تو کہہ رہا ہوں۔ پھر وہ ہمیشہ کے لئے چپ ہوگیا۔ وہاں اس کی یہ زبان چپ ہوگئی۔ مگر وہ ہمیشہ میرے کان میں کہتا ہے۔ سر میرا سر ٹیفیکٹ قبول ہوگیا۔ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ اس دن سے میں روز اپنے اللہ سے دعا کرتا ہوں کہا اے اللہ ! آپ نے ایک سچے کا سرٹیفیکٹ تو قبول کر لیا۔ ا س سچے کے صدقہ میں بلکہ اپنے سچے رسول کے صدقہ میں مجھ فراڈ کا جعلی سر ٹیفیکٹ بھی قبول کر لیجئے ( روتے ہوئے)
سوال : آپ کی بیوی کہاں ہیں؟ آپ کے کوئی بچہ بھی ہے؟اس بارے میں آپ نے نہیں بتایا۔
جواب : میں خود ہی آپ کو ان کے بارے میں بتانے والا تھا۔ ہوا یہ کہ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ میں نے ایک زمانہ سے تہجد پڑھنی شروع کی تھی۔ پھلت میں اس آدھی رات کی عبادت میں۔ میں نے بڑا مزا دیکھا۔ ایک رات میں نے اپنی بیوی کو خواب میں دیکھا۔ ایک کٹہرے میں بند ہیں اور مجھ سے فریاد کررہی ہیں۔ میں جیسی بھی ہوئی ہوں۔ آپ مجھے اس کٹہرے سے نکال دیں۔ میرے گھر والوں نے مجھے کتنا کہا۔ کہ میں دوسرے سے شادی کر لوں مگر میں نے کبھی گوارہ نہیں کیا۔ جب میں آپ کی ہوں تو آپ کے علاوہ مجھے کون اس کٹہرے سے نکالے گا اور بہت رو رہی ہے مجھے ترس آگیا۔ میں نے دیکھا۔ بڑا تالہ لگا ہوا ہے۔ چابی میرے پاس نہیں ہے۔ میں بہت پریشان ہوا کہ اس تالہ کو کیسے کھولا جائے۔ اچانک میرا گارڈ کلیم (مہندر) آگیا اور جیب سے چابی نکال کر بولا۔ سر! یہ لا الہ الااللہ۔ کی چابی ہے آپ اپنی میڈم کو کیوں نہیں نکالتے ؟میری آنکھ کھل گئی۔ صبح کے تین بجے تھے۔ میں نے وضو کیا نماز پڑھی۔ مجھے خیال آیا کہ اس عورت نے ساری جوانی میرے لئے گنوادی۔ حتیٰ کے خرچ بھی مجھ سے لیا۔ میکے والوں کے یہاں رہنا بھی گوارہ نہ کیا مجھے بہت یاد آئی۔ اکیلے رہنے رہتے میں بھی تنگ آگیا تھا۔ ٹوٹے ہوئے دل سے میں نے اپنے بے کس ہاتھ اللہ کے آگے پھیلا دیے۔ میرے مولا! میرے کریم ! میرے رب میں نے اب سارے جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر آپ کی بندگی کا عہد کیاہے اور کون سا در ہے۔ جو میرا سوال پورا کرے گا؟ میرے اللہ جب اس نے میری رہ کر ساری جوانی گنوادی۔ تو پھر آپ اس کو میرے پاس بھیج دیجئے۔ آپ کے لئے کچھ مشکل نہیں جب آپ ایک گنگارام اور مہندر کا دل پھیر کر عبداللہ اور کلیم بناسکتے ہیں۔ تو آپ ایک سریتا دیوی کو فاطمہ یا آمنہ بنا کر میری مسلمان بیوی کیوں نہیں بناسکتے۔ میں نے بہت دعا کی اور میرا رواں رواں میرے ساتھ دعا میں شریک تھا۔ میرے خواب کی وجہ سے مجھ پر توحید کی ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔
سوال : پھر کیا ہوا؟
جواب : ایک گندے بھکاری بندہ نے کریم کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ دروازہ نہ کھلتا۔ دو روز گذرے تھے۔ تیسرے روز میں اپنے گھر میں۔ دو پہر کو بیٹھا تھا۔ گھنٹی بجی۔ میں نے نو کر سے دروازہ کھولنے اور دیکھنے کے لئے کہا۔ میری آنکھ حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔ جب میں نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ نو کر آکر مجھے بتاتا کہ فلاں صاحب آئے ہیں۔ دونوں بچوں کیساتھ سریتا میرے سامنے تھی۔ وہ آکر مجھ سے چمٹ گئی دس سال بعدمیں نے اس کو دیکھا تھاوہ جوانی کھو چکی تھی۔ بلک بلک کر دیر تک روتی رہی۔ بیٹا بیٹی جو اب بڑے ہوگئے تھے۔ وہ بھی رونے لگے۔ کہنے لگی جب آپ نے میرے ساتھ پھیرے پھرے ہیں۔ تو۔ میری عزت میرا دل آپ کے علاوہ کون رکھے گا۔ میں نے اس کو تسلی دی اور میرے دل میں چونکہ یہ بات تھی۔ کہ میرے اللہ نے میرے گندے ہاتھوں کو یہ بھیک دی ہے۔ اس لئے یہ آئی ہے مگر میں نے پھر بھی اس سے کہا کہ اب بات ہاتھوں سے نکل گئی ہے اس نے پوچھا۔ کیوں ؟ میں نے کہا میں اب مسلمان ہوگیا ہوں اس نے کہا میں نرک میں بھی آپ کے ساتھ رہوں گی۔ میں آپ کی بیوی ہوں آپ کے ساتھ رہوں گی۔ میں آپ کی ہوں آپ کی رہوں گی۔ میں نے اس سے کلمہ پڑھنے کے لئے کہا وہ فوراََ تیار ہوگئی۔ میں نے کلمہ پڑھوایا اور اس کا نام آمنہ رکھا۔ بچوں کا نام حسن اور فاطمہ رکھا۔ اصل میں ہوایہ کہ وہ اپنے میکہ میں الگ کمرہ میں رہتی تھی۔ بچوں کی لڑائی میں اس کی بھابھی کے ساتھ اس کی لڑائی ہوگئی۔ اس نے اس کو بہت برا بھلا کہا اور یہ بھی کہا کہ اگر تو کسی لائق ہوتی تو پتی کے در کو کیوں چھوڑتی۔ اگر اصل کی ہوتی تو پتی کے ساتھ ستی ہوجاتی۔ جسے پتی نے دھتکار دیا وہ عورت کیا ڈائن ہے۔ بس اس کے دل کو لگ گئی یہ توبہانہ ہوگیا ورنہ میرے رب کو تو مجھے بھیک دینی تھی الحمدللہ ڈیڑھ سال سے وہ میرے ساتھ ہے۔ ہم خوشی خوشی اسلامی زندگی جی رہے ہیں۔
سوال :عبداللہ صاحب۔ واقعی یہ قبولیت دعا کا عجیب واقعہ ہے۔ آپ کو کیسا لگا؟
جواب : احمد بھائی اس واقعہ کے بعد میرا میرے اللہ کے ساتھ ایک دوسرا ہی تعلق پیدا ہوگیا۔ میرا اب یہ حال ہے کہ مجھے ایسا یقین ہے کہ اگر میں اپنے اللہ سے آج ضد کروں کہ آج سورج پچھم سے نکالئے تو میرے اللہ ضرور پورا کریں گے۔
سوال :آپ بڑے خوش قسمت ہیں۔ قارئین ارمغان کے لئے کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟
جواب : میری آپ سے اور سبھی سے درخواست ہے کہ میرے لئے اس کی دعا کریں کہ اللہ میرایمان اور سجدہ کی حالت میں خاتمہ فرمائیں۔ میں نے اپنی بیوی کو وہ سرٹیفیکٹ دیا ہے۔ کہ میں مرجاؤں۔ وہ میری قبر میں میرے کفن کے ساتھ سرٹیفکٹ رکھ دیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کا یہ جعلی سرٹیفیکٹ قبول کر لے بلکہ میرے لئے کیا ساری دنیا کے لئے بھی میری یہی دعا ہے اور سب سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو ایمان کے ساتھ موت عطا کرے ۔
آمین !بہت بہت شکریہ۔
بشکریہ : مستفاداز ماہ نامہ ارمغان اپریل۲۰۰۵ ء