جولائی 2010 کے آخر میں پاکستان میں تاریخ کا سب سے بڑ ا سیلاب آیا۔ پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس سیلاب نے جان و مال کی وہ تباہی برپا کی جس کا نظارہ ہر درد مند دل کو دہلانے کے لیے کافی تھا۔ اس سیلاب کی اگر اطلاع مل جاتی اور بچاؤ کی تیاری کر لی جاتی تو یقینا اتنی تباہی نہیں پھیلتی۔
عجیب بات ہے کہ ایک عظیم سیلاب پوری دنیا کا رخ کرنے والا ہے ۔ یہ سیلاب دریا کے پھیلاؤ سے نہیں، بلکہ سمندروں کے ابل جانے سے واقع ہو گا۔ دریا چند سو فٹ چوڑے اور چند میٹر گہرے ہوتے ہیں ۔ ان کا سیلاب پھیلاؤ میں چند کلو میٹر سے زیادہ تباہی نہیں مچاتا۔ مگر یہ عظیم سیلاب جو زلزلۂ قیامت کے ساتھ نمودار ہو گا، لاکھوں مربع میل پر پھیلے ہوئے سمندروں سے ہزاروں فٹ اونچی لہریں اٹھائے گا۔ یہ لہریں طوفان بن کر شہروں اور بستیوں پر ٹوٹ پڑ یں گی۔ بڑ ی بڑ ی عمارتیں ، محلات، بستیاں اور شہر لمحہ بھر میں ان طوفانی لہروں کی زد میں آ کر ملیا میٹ ہو جائیں گے ۔ انسانوں کا تو پوچھنا کیا۔ نہ کوئی چھت ہو گی کہ اس پر پناہ لی جا سکے نہ کوئی کشتی اس طوفان کے سامنے ٹھہر سکے ۔ نہ کوئی بچانے والا ہو گا نہ کوئی نکالنے والا۔
اس عظیم سیلاب کی پیش گوئی پندرہ سو برس پہلے کی جا چکی ہے ۔ ہر مسلمان کے گھر میں قرآنِ مجید میں یہ پیش گوئی لکھی ہوئی موجود ہے ۔ اب اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا وقت آ رہا ہے ۔ مگر کوئی نہیں جو اس پیش گوئی کو پڑ ھے اور سمجھے ۔ کوئی نہیں جو اسے سنے اور دوسرے تک پہنچائے ۔ کوئی نہیں جو اس سیلاب سے بچنے کے لیے نیکی کی کشتی اللہ کے احکام کی روشنی میں تیار کرے۔ جس طرح پیغمبر نوح نے اللہ کے حکم پر کشتی بنائی تھی۔ کیونکہ قیامت کے سیلاب سے صرف یہی کشتی بچا سکتی ہے ۔ کیسی عجیب ہے یہ پیش گوئی اور کیسی عجیب ہے لوگوں کی بے حسی۔