مولانا حالی نے برسوں پہلے کہا تھا:
شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے
وہ جا کے سب اہل مغرب نے جوڑے
انھی میں سے ایک عادت شکریہ کہنے کی بھی ہے۔ آپ اس خیال سے متفق ہوں گے کہ ہمارے ہاں یہ عادت بہت کم ہے کیونکہ ہم اپنے بچوں کو یہ شکریہ کہنا کم ہی سکھاتے ہیں، اس کے برعکس آپ نے مغربی اقوام کو قدم قدم پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکریہ کہتے سنا ہو گا۔
اب ہمارے ہاں اونچے طبقے کے افراد کم اور متوسط طبقے کے لوگ زیادہ حفظ مراتب ذہن میں رکھ کر شکریہ کہنے لگے ہیں، ماتحت تو شاید ہر بات پر افسر کو شکریہ کہہ دے، لیکن افسر کسی ملازم کا شکریہ ادا کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اسی طرح جب ہم کوئی چیز خریدیں تو لاشعوری طور پر گویا دکاندار پر احسان کرتے ہیں اور شکریہ ادا کرنا غیر ضروری، بلکہ بعض اوقات غلط سمجھتے ہیں۔ ہوٹل میں بیرے یا ریلوے اسٹیشن پر قلی کا شکریہ ادا کرنا بعض لوگوں کے خیال میں شاید باعث توہین ہو مگر معاملہ بالکل برعکس ہے۔
بہت سے لوگ جنھیں ہم دل ہی دل میں چھوٹا سمجھتے ہیں، ہمارے شکریے کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں اور ان کے لیے اس لفظ کی اہمیت بھی زیادہ ہے۔ شاید آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ شکریے کا لفظ ان لوگوں کے دلوں میں خوشی کے کیسے پھول کھلا دیتا ہے۔ دکانوں کے سیلز مین، سبزی فروش اور دیگر پھیری والے، پٹرول پمپ پر آپ کی گاڑی میں پٹرول بھرنے والے، ایسے کسی انسان کو شکریہ کہنے سے آپ کی عزت قطعی نہیں گھٹے گی، بلکہ یقین کیجیے کہ اس میں اضافہ ہو گا۔ اگر آپ ‘‘شکریہ’’ کہنے کی عادت اپنا لیں تو جلد محسوس کریں گے کہ خود آپ کو یہ لفظ زیادہ سننے کو مل رہا ہے۔
خوش خلقی بھی چھوت کی بیماری کی طرح ایک سے دوسرے کو لگتی ہے۔ اگر آپ دوسروں کے ساتھ خوش خلقی کا مظاہرہ کریں تو ان میں بھی مثبت عادت پیدا ہو جاتی ہے، جس کی آج کے دور میں اشد ضرورت ہے۔
ہم بچوں کو اچھے اچھے تعلیمی اداروں میں بھیجنے، انھیں حسب استطاعت زیادہ سے زیادہ آسائشیں فراہم کرنے اور انھیں بڑا آدمی بنانے کے خواب ضرور دیکھتے ہیں، لیکن انھیں اچھا آدمی بنانے کی طرف ہمارا دھیان کم ہی جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے سلسلے میں نرمی، آداب اور شائستگی کا اظہار نہ صرف معاشرتی ماحول کو خوشگوار بناتا، بلکہ ہماری عزت و احترام میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ جب آپ اچھی عادتیں اپنا لیں تو خود اپنی نظر میں بھی اپنے آپ کو زیادہ محترم، مطمئن اور پُر اعتماد محسوس کرتے ہیں۔ جب آپ کے بارے میں یہ تاثر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیل کر پختہ ہو جائے کہ آپ شائستگی، نرمی اور تہذیب سے بات کرتے ہیں تو آپ محسوس کریں گے کہ دوسرے لوگ آپ کی زیادہ عزت کرنے لگیں گے۔ یونہی لوگوں میں اچھی عادتوں کارواج ہو جائے گا، جیسے چراغ سے چراغ جلتا ہے۔
یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہ صرف ہماری قدیم معاشرتی اور مذہبی اقدار بحال کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی، بلکہ دھیرے دھیرے ہمارا ماحول بھی خوبصورت اور خوشگوار بنا دیں گی۔ یہ باتیں اپنا کر آپ نہ صرف دوسروں کے لیے خوشی کا باعث بنیں گے بلکہ خود آپ کو بھی ایسی طمانیت اور سرشاری ہو گی کہ آپ بہتر انداز میں زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے لگیں گے۔
چلیے اگر آپ زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تو زیادہ سے زیادہ مواقع پر شکریہ کہنے کی عادت ہی ڈال لیجیے اور اپنے بچوں کو بھی یہ بات سکھائیے، اگر کسی کا شکریہ ادا کرنا ہو لیکن آپ کے پاس اس کے ہاں جانے کا وقت نہ ہو تو خط یا فون کے ذریعے شکریہ ادا کیجیے۔ یقین کیجیے یہ ایک لفظ نہ صرف آپ کی، بلکہ دوسروں کی زندگی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
٭٭٭