میں مدھیہ پردیش کے شیوہر ضلع کے ایک ورما خاندان میں اب سے بائیس سال پہلے پیدا ہوا۔ میرا نام گھر والوں نے دھرمیندر رکھا۔میرے گھر والے متعصب ہندو ہیں۔ میرے خاندان کے لوگ بجرنگ دل، شیو سینا اور سناتن دھرم اکھاڑے کے ذمہ دار ہیں۔ میرے تین بھائی اور ایک بہن ہے۔ میں نے اپنے یہاں اسکول کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد منڈی دیپ بھوپال میں ایک فیکٹری میں ملازمت کر لی۔ وہاں میرے کئی نوجوان ساتھی شیو سینا میں تھے۔ مجھے ورزش وغیرہ کا شوق تھا۔ اس لیے میرے دوستوں نے مجھے کوشش کر کے بھوپال شیوسینا میں شامل کرایا۔ میں شیو سینا کا بہت فعال ممبر تھا۔ ہر پروگرام میں شریک ہوتا اور مسلمانوں سے نفرت اور ان کو تکلیف پہنچانے کے کئی پروگراموں میں، میں نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں نے سنی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ دن رات میں اللہ کے یہاں ایک ایسی مقبول گھڑی آتی ہے کہ آدمی کی زبان سے نکلی بات قبول ہو جاتی ہے۔ میرا ایمان اس حدیث پاک کی تصدیق ہے۔ میں اسکول میں پڑھتا تھا تو میری دوستی دو مسلم لڑکوں سے ہو گئی۔ دونوں بھائی تھے۔ ان کا نام شہزاد اور آزاد تھا۔ میں ان کے ساتھ کھیلتا۔ ان کے گھر جاتا اور ان کے ساتھ کھانا کھاتا۔ گوشت بھی کھانے لگا۔ اکثر جب میں ان کے گھر کھانا کھاتا تو ہم تینوں ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے۔ ان کے کھیت بھی ہمارے کھیت کے ساتھ تھے۔ شہزاد کے والد نے ایک بار ہمارے کھیت کی مینڈھ کاٹ دی، اس پر میرے والد اور ان کی لڑائی ہوئی۔ بات بہت بڑھنے لگی، تو شہزاد کی امی نکل آئیں او رمیرے والد اور شہزاد کے والد سے کہنے لگیں: آپ لوگ بڑے ہو کر آپس میں لڑتے ہیں اور یہ بچے آپس میں اتنی محبت کرتے ہیں کہ آپ کا بیٹا اور ہمارے بیٹے ایک تھالی میں کھانا کھاتے ہیں اور ایک گلاس میں پانی پیتے ہیں۔ یہ سن کر میرے والد اس وقت تو گھر آ گئے، مگر گھر آ کر مجھے بہت مارا اور کہا: تو اَدھرم (بے دین) ہو گیا ، گؤ (گائے) کا مانس (گوشت) کھاتا ہے۔ مجھے گالیاں دیں اور کہنے لگے: تیرا منہ ناپاک ہو گیا ہے، اس کو پاک کرنے کے لیے اس کو آگ میں جلانا پڑے گا۔ مجھے بھی غصہ آ گیا۔ چھوٹا توتھا ہی، میں نے کہا: آپ مجھے وہاں جانے سے روک نہیں سکتے۔ وہ مجھے او رمارنے لگے تو میں نے کہا کہ میں گھر سے بھاگ کر مسلمان بن جاؤں گا۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے تو لگتا ہے کہ میرے اللہ نے میری زبان سے نکلی ہوئی بات قبول کر لی او رمجھے دھر مندر سے توحید بنا دیا۔
میرے والد کو میرا مسلمانوں سے دوستی کرنا بہت برا لگا اور انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ذہن بنانے کی فکر شروع کی۔ مغل بادشاہوں او رمحمود غزنوی وغیرہ کے مظالم کا ذکر کر کے روزانہ رات کو مجھے پڑھاتے۔ میرے ذہن میں بھی مسلمانوں سے نفرت ہونا شروع ہو گئی۔ اور یہ نفرت ہی میرے شیو سینا کا ممبر بننے کا ذریعہ بنی، مگر میرے دل میں اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مسلم معاشرت سے بڑی مناسبت ہو گئی تھی۔ اس لیے اس نفرت کے باوجود کئی نہ کوئی دوست مسلمان ضرور رہا۔ بھوپال میں میری کمپنی میں ایک لڑکا وسیم نام کا تھا۔ میں ڈیوٹی چھوڑ کر اس کے گھر جاتا۔ رمضان میں وہ روزے رکھتا اور مجھے شام کوافطار میں شریک کرتا اور میری بڑی خاطر مدارات کرتا۔ اس کے پاس جماعت کے لوگ آتے تو وہ مجھے چھوڑ کر ان کے پاس چلا جاتا۔ میں بھی دور سے جماعت والوں کو سنتا، کبھی کبھی میں بے اختیار ان کے پاس کھڑا ہو جاتا اور میں رومال باندھ کر ان کی باتیں سنتا، وہ صرف مرنے کے بعد کی باتیں کرتے اور اللہ کے سامنے حساب کتاب کے لیے کھڑے ہونے او رجنت دوزخ کا ذکر کرتے۔ میرے دل کو یہ باتیں بہت بھلی اور سچی لگتیں۔ اس فیکٹری سے کسی مجبوری کی وجہ سے نوکری چھورنا پڑی۔ تو دوسری فیکٹری میں نوکری کر لی۔ اتفاق سے وہاں بھی جاوید نام کا ایک لڑکا میرا دوست بن گیا۔ وہ بھی مجھے افطار پر لے جاتا۔ افطار کے بعد وہ نماز پڑھتا۔ میں دور سے نماز پڑھتے دیکھتا رہتا۔ ایک روز جاوید نے مجھ سے کہا: بھورا بھائی، مرنا تو تمھیں بھی ہے۔ تم کو بھی نماز پڑھنا چاہیے۔ تم مسلمان ہو جاؤ۔ میں نے کہا: تم مجھے کھانا اس لیے کھلاتے ہو کہ لالچ دے کر مسلمان کرو۔ وہ کہنے لگا: میں تو محبت اور سچی ہمدردی کی بات کہتا ہوں۔ اتفاق سے میری طبیعت خراب ہو گئی۔ چند روز کی چھٹی لی اور چھٹی لمبی ہونے کی وجہ سے مجھے وہاں سے نوکری چھوڑنا پڑی۔ اس فیکٹری میں گیتا نام کی لڑکی بھی کام کرتی تھی۔ میں نے اس کو بڑی بہن بنا لیا اورگیتا دیدی کہتا تھا۔ میری کمپنی کے پہلے سپروائزر بھوپال چھوڑ کر نوئیڈا میں نوکری کرنے لگے تھے۔ انھوں نے مجھے فون کیا اور میں نوائیڈا میں آ گیا۔ میں نے گھومنے کے لیے گیتا دیدی کو نوئیڈا بلایا۔ ان کو دیکھ کر میری کمپنی کا مالک مجھ سے ناراض ہو گیا کہ یہ لڑکا تو بدمعاش ہے۔ لڑکیوں کو بلا کر رکھتا ہے اور اس نے مجھے نوکری سے ہٹا دیا۔ میں نے گیتا دیدی سے کہا کہ جاوید مجھے مسلمان ہونے کو کہتا ہے۔ انھوں نے کہا: وہ بہت اچھی بات کہتا ہے۔ اسلام ہی سچا دھرم (مذہب) ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایک میاں جی رہتے ہیں۔ ان کی دو لڑکیاں مجھے مرنے کے بعد کے حالات سناتی تھیں۔ ان کے یہاں اردو میگزین ‘‘ارمغان’’ آتا ہے۔ ا س میں ایسے لوگوں کے انٹرویو آتے ہیں، جو پہلے دوسرے مذہب کے تھے اوراب مسلمان ہو گئے، تو ضرور مسلمان ہو جا او رجب تو مسلمان ہو جائے تومجھے بھی ضرور بلا لینا۔ دیکھ اپنی دیدی کو ضرور یاد رکھنا۔ دہلی گھما کر میں گیتا دیدی کو تو چھوڑ آیا، مگر ان کے کہنے سے میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ مجھے مسلمان ہونا ہے۔ میں نے ایک دوسری فیکٹری میں ملازمت کر لی۔ وہاں شریف نام کا ایک لڑکا رہتا تھا۔ میں نے اس سے کہا: میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں تو مجھے مسلمان کروا دے۔ ا س نے کہا کہ تم مسجد کے امام صاحب کے پاس چلے جانا، وہ تمھیں مسلمان بنا لیں گے۔ میں مسجد گیا۔ بہت سارے مسلمان وہاں وضو کر رہے تھے۔ میں باہر ہی سے کھڑا دیکھتا رہا۔ اس ڈر سے کہ لڑائی نہ کریں، باہر بیٹھا سگریٹ پیتا رہا اور پانچ بجے سے آٹھ بجے تک مسجد کے باہر بیٹھ کر واپس آ گیا، مگر مسجد میں جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ وہاں بیٹھنے کے بعد مسلمان ہونے کی میری بے چینی بہت بڑھ گئی۔ دوسرے روز دن چھپنے کے بعد میں پھر مسجد گیا تو لوگوں نے بتایا کہ امام صاحب مارکیٹ گئے ہیں۔ میں انتظار کرتا رہا۔ آٹھ بجے وہ آئے۔ مجھے دیکھ کر بولے کہ میں مریضوں کو صبح دس سے بارہ بجے تک دیکھتا ہوں۔ اس کے بعد تعویذ نہیں دیتا۔ میں نے کہا : مجھے یہ علاج نہیں چاہیے، میں دوسرے مرض کا مریض ہوں۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی آپ کے دھرم (مذہب) میں آنا چاہے تو آپ کو کوئی مشکل تو نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں تو کوئی مشکل نہیں۔ میں نے کہا کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ انھوں نے میرا نام ، پتا، مکان نمبر، فون نمبر وغیرہ لکھا اور جمعرات کو دوبارہ بلایا۔ میں جمعرات کو گیا تو بولے کہ جمعہ کو آنا۔ میں جمعہ کو گیا تو وہاں جماعت کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے معلوم کیا کہ تم مسلمان کیوں ہونا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: ویسے ہی۔ وہ بولے ایک درخت پر بہت سی چڑیاں بیٹھی تھیں۔ ایک آدمی آیا، اس نے پتھر اٹھا کر مارا۔ کچھ چڑیاں مر گئیں۔ کچھ اڑ گئیں، کچھ بیٹھی رہ گئیں۔ کسی نے پوچھا : تم نے پتھر کیوں مارا؟ تو بولا: ویسے ہی، اسی طرح تم بھی ویسے ہی مسلمان ہو رہے ہو۔ مجھے اس طرح ان کا بات کرنا بہت برا لگا۔ میں نے نوئیڈا میں لوگوں سے معلوم کیا کہ ہمارے قریب میں دہلی میں سب سے زیادہ مسلمان کہاں رہتے ہیں۔ لوگوں نے کہا: اوکھلا، نئی دہلی۲۵ میں۔ میں نے سوچا، میں اوکھلا جا کر مسلمان ہو جاؤں۔ اتفاق سے جمعہ کے دن اوکھلا کی جماعت آ گئی۔ مجھے شریف نے بلوایا اور جماعت والوں کو بتایا کہ یہ لڑکا مسلمان ہو گیا ہے۔ جماعت والوں نے مجھ سے کہا: اوکھلا (نئی دہلی۔ ۲۵) کی جماعت چالیس دن کے لیے جانے والی ہے۔ آپ اس میں وقت لگا دو۔ میں تیار ہو گیا۔ تین روز کے بعد میں جماعت میں نکل گیا۔ خرچ کے لیے میں نے گھڑی اور سونے کی انگوٹھی بیچی۔ پانی پت،سونی پت میں ہمارا وقت لگا۔ مجھے فون کا بہت شوق تھا۔ کبھی بھوپال، کبھی سیہور فون کرتا۔ کبھی نوئیڈا فون کرتا تھا۔ میرے ساتھیوں کو مجھ پر شک ہو گیا۔ مجھ سے الگ مشورہ ہو گیا کہ اس لڑکے کو واپس بھیج دو۔ یہ سی آئی ڈی کا آدمی ہے۔ جماعت میں ایک صاحب مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب سے بیعت تھے۔ انھوں نے کہا: یہ سی آئی ڈی کا ہے تو کیا ہے۔ ہم کوئی چوری ڈاکا تو نہیں ڈا ل رہے ہیں، لیکن جماعت والے نہیں مانے۔ انھوں نے مولوی صاحب کوفون کیا اور میری ساری بات سنا دی۔ مولوی صاحب نے صرف فون پر سن کر ان سے یہ بات کہی کہ تم اس لڑکے کو اپنے ساتھ چالیس دن لگواؤ۔ اگر اس سے کوئی خطرہ پیش آیا تو ذمہ دار میں ہوں گا۔ آپ اس کو میرا بیٹا سمجھ کر ساتھ رکھو۔ ہر نقصان کا ذمہ دار میں ہوں۔ مجھ سے بھی مولوی صاحب نے بڑی محبت سے بات کی اور کہا کہ جماعت سے آ کر مجھ سے ملنا اور امیر صاحب سے بھی کہا: یہ میرا بیٹا ہے۔ ہر نقصان او رخطرے کا میں ذمہ دار ہوں۔ اس کے بعد ان صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ میں جماعت سے واپس جا کر مولوی صاحب سے بیعت ہو جاؤں۔ پانی پت میں ایک مفتی صاحب (مفتی شرافت صاحب) سے ملاقات ہوئی انھوں نے مجھے بڑی تسلی دی اورمبارک باد دی۔
جماعت سے واپس آ کر میں نوئیڈا آ گیا اور مولوی صاحب کو بار بار فون کرتا رہا۔ ایک مہینے تک مولوی صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی۔ جب فون کرتا تومعلوم ہوتا کہ سفر میں ہیں۔ ایک روز مولوی صاحب نے بتایا کہ صبح نو بجے تک میں ان شاء اللہ دہلی پہنچوں گا۔ آپ مسجد خلیل، بٹلہ ہاؤس، نئی دہلی ۔۲۵ آ جائیں۔ میں آٹھ بجے مسجد خلیل پہنچا۔ مولوی صاحب راستے میں ٹریفک میں پھنس گئے اور گیارہ بجے تک نہیں آئے۔ مسجد خلیل میں میرے ایک جماعت کے ساتھی یوسف ملے۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حکیم محمود اجمیری کے پاس جا کر بیعت ہو جاؤں۔ وہ مجھے لے کر ان کے پاس گئے۔ انھوں نے گھر سے آ کر مصافحہ کیا اور بولے: میں توایک بجے کے بعد ملاقات کر سکتا ہوں۔ مجھے افسوس بھی ہوا، مگر بیعت کے شوق میں جا کر مسجد میں انتظار کرنے لگا۔ اتفاق سے ساڑھے گیارہ بجے مولوی صاحب آ گئے۔ بہت پیار سے گلے لگایا۔ دیر ہونے اور اتنے دنوں تک ملاقات نہ ہونے کے سلسلے میں بہت معافی مانگی۔ مجھ سے معلوم کیا کہ تم کتنے دن پہلے مسلمان ہوئے ہو۔ میں نے کہا : مجھے کسی نے مسلمان نہیں کیا۔ مولوی صاحب نے کہا: کلمہ پڑھے بغیر سارے اعمال بے کار ہیں۔ موت کا پتا نہیں۔ پہلے آپ کلمہ پڑھ لو۔ مجھے کلمہ پڑھوایا او رکہا: کوئی نام پسند ہو تو بدل لو۔ میں نے کہا: میں نے شرک سے توبہ کی ہے، اس لیے میں اپنا نام بھی توحید رکھنا چاہتا ہوں۔ مولوی صاحب نے یہ نام بہت پسند کیا۔ مجھے ‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں’’ کتاب منگوا کر دی، اور میرے اصرار پر مجھے بیعت بھی کر لیا۔
اگلے روز ہمارے ضلع کے کچھ لوگ مولوی صاحب سے ملنے آ گئے۔ انھوں نے مولوی صاحب سے کہا کہ توحید کو ہم لے جاتے ہیں۔ یہ گھر والوں پر کام کرے گا۔ مولوی صاحب نے مجھے ان کے ساتھ بھیج دیا۔ میں بھوپال میں تھا کہ میرے گاؤں کے کچھ لوگوں نے مجھے دیکھ لیا۔ انھوں نے بتایا کہ گاؤں کے لوگوں کو پتا چل گیا ہے کہ تو مسلمان ہو گیا ہے۔ ہمیں وہاں فساد کا خطرہ ہے۔ تمھیں یہاں ہر گز نہیں رہنا چاہیے۔ میں پھر پھلت آ گیا۔ مولوی صاحب سے میں نے کہا کہ میں نے بیعت کی تھی سنت کے اتباع پر، مگر میری ایک سنت چھوٹ رہی ہے۔ آپ میرا ختنہ کرا دیں۔ مولوی صاحب نے کہا: بہت اچھا! اگلے روز نائی کو بلایا اور بہت سارے لوگوں کا ایک ساتھ ختنہ ہو گیا۔ سب کا ختنہ جلد اچھا ہو گیا۔ بس میرا اور ایک اور لڑکے کا ختنہ پک گیا۔ مجھے بخار ہو گیا۔ بہت تکلیف رہی۔ میرے ساتھی مجھ سے معلوم بھی کرتے رہے۔ ایک دو نے مجھے ڈرایا کہ ختنے کے پکنے سے آدمی مر بھی جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے لیے میری جان بھی چلی جائے تو میری خوش قسمتی ہے۔ الحمد للہ، میری طبیعت ٹھیک ہو گئی۔ میں نے مولوی صاحب سے درخواست کی حضرت! میں بیعت ہو گیا تھا، مگر میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ سنت کے اتباع کا عہد تو کر رہا ہے، مگر ایک سنت چھوٹ رہی ہے۔ اب الحمد للہ، وہ سنت بھی ادا ہو گئی ہے۔ آپ مجھے دوبارہ بیعت فرما لیں۔ مولوی صاحب نے مجھے دوبارہ بیعت کر لیا۔
گیتا دیدی کے گھر والے ان کی شادی کرنا چاہتے تھے۔ وہ کئی مسلمانوں کے پاس گئیں کہ کوئی ان کو مسلمان کر لے اور ہندو دھرم سے نکلنے کے لیے مدد کرے، مگر کوئی اس کے لیے تیار نہیں ہوا۔ سب ڈرتے تھے ، ان گھر والوں نے ایک شرابی اور جواری لڑکے سے منگی کر دی اور ساموہک وواہ سملین (شادی کی تقریب) میں لے جانے کو کہا۔ انھوں نے مجھے فون کیا کہ میں آ کر اس سے پہلے ان کو لے جاؤں۔ میں نے کہا: اتوار کو میری چھٹی ہوتی ہے، مگر ہفتے کے دن ان کی شادی ہونی تھی۔ وہ جمعہ کے روز دسیوں مسلمانوں کے پاس گئیں کہ وہ مسلمان بننا چاہتی ہیں اور اگر آج مجھے مسلمان نہ بنایا گیا تو میرے گھر والے میری شادی کر دیں گے اور مجھے ہندو ہی رہنا پڑے گا، مگر کوئی آدمی ان کو مسلمان کرنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ مجبوراً انھوں نے رات کو سلفاس کی گولیاں کھا لیں اور رات کو ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ یہ کہتی رہیں کہ میں ہندو سماج میں رہنے اور وہاں شادی کرنے سے زیادہ موت کو پسند کرتی ہوں۔ میرے اللہ! مجھے خود مسلمان کر لیں گے۔ میں اتوار کو بھوپال پہنچا تو مجھے حادثے کا علم ہوا۔ آج تک میں اس ظلم کو بھلا نہیں سکتا، میں نے دو پیسے کی نوکری کے لیے کتنا ظلم کیا۔ میرے اللہ مجھے معاف کرنا۔ آمین!
مجھے مولوی صاحب نے کالا آنب (ہریانہ) بھیج دیا، وہاں ایک فیکٹری میں ملازمت کی تلاش میں گیا۔ انھوں نے میرے حالات معلوم کر کے نوکری دینے کا وعدہ تو کیا، مگر شرط لگائی کہ تمھیں داڑھی کٹوانی پڑے گی۔ میں نے کہا: نوکری تو کیا چیز ہے، میں جان کے لیے بھی داڑھی نہیں کٹوا سکتا۔ میں سر تو کٹوا سکتا ہوں، مگر داڑھی نہیں کٹوا سکتا۔ مجھے فاقے منظور ہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت چھوڑنا منظور نہیں۔ ایک دوسری فیکٹری میں میں نے آدھی تنخواہ پر ملازمت کر لی۔ میرے اللہ نے میرے ساتھ کرم کیا۔ میرے کام کو دیکھ کر کمپنی مالک نے میرا پروموشن کر دیا اور سپر وائزر بنا دیا۔ میرے ساتھی مجھ سے جلنے لگے۔ ایک روز مجھے فیکٹری میں پانچ روپے پڑے ہوئے ملے۔ میں نے جماعت میں سنا تھا کہ ہر پڑی چیز یا تو اٹھانی نہیں چاہیے اگر اٹھالی ہے تو ذمے داری ہے کہ اس کے مالک تک پہنچانے کی پوری کوشش کرے۔ میں نے ایک گتے میں اعلان لکھ کر فیکٹری کے دروازے پر لگا دیا۔ میرے ساتھیوں نے منیجر کو بھڑکا دیا۔ مجھے مجبوراً ملازمت چھوڑنا پڑی۔
اسلام کی ہر چیز سے مجھے عشق ہے۔ مجھے مسلمان ہونے پر ناز ہے او راپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے۔ میں نے بال بڑھا کر پٹے رکھے ہیں۔ میں جب آئینہ دیکھتا ہوں تو مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی وجہ سے اپنے اوپر بہت پیار آتا ہے۔ ایک مرتبہ میں کپڑے سلوانے گیا۔ درزی نے معلوم کیا: جیب کدھر لگاؤں۔ ایک حافظ صاحب میرے ساتھ تھے۔ میں نے ان سے معلوم کیا کہ جیب کدھر لگانا سنت ہے۔ انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ میں نے درزی سے کہا: ابھی کپڑے مت سینا۔ مجھے جب تک معلوم نہ ہو جائے کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیب کہاں لگواتے تھے، ہر گز کپڑے نہیں سلواؤں گا۔
الحمد للہ، ایک سال میں بہت سے فیکٹری کے ساتھیوں کو میں نے دعوت دی اور وہ مسلمان ہوئے۔ اب میں ایک سفر پر جا رہا ہوں۔ پانچ لوگ جھنجھانہ کے قریب الگ الگ گاؤں کے بالکل قریب کے ہیں۔ ان شاء اللہ جلد ان کو کلمہ پڑھوا کر لے آؤں گا۔ ہدایت تو اللہ کے فیصلے میں ہے ، مگر کوشش پر اللہ نوازتے ہیں۔
اسلام دشمن خاندان کے ایک انسان کو جب اللہ تعالیٰ سنت سے ایسی محبت دے سکتے ہیں تو بھولے بھالے انسان جو دنیا میں زیادہ ہیں، اگر ان کو اسلام سمجھایا جائے تو پھر وہ کیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے والے نہیں بن سکتے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔