تمام تر انسانی اقدار کا ایک خاص معیار ہی مطلوب و محمود ہوتا ہے ، اس سے کم یا زیادہ کی صورت میں وہی قدر ایک مکروہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مثلاً قوت غضبیہ کی پسندیدہ مقدار شجاعت کہلاتی ہے اس میں تفریط بزدلی اور افراط جاہلیت ہے ۔ قوت عقلیہ کی مناسب سطح حکمت و دانائی ہے ، کمی کی صورت میں حماقت اور زیادتی جزبرہ ہوتی ہے ۔ قوت شہوانیہ کی معتدل حد عفت و عصمت ہے جبکہ کمی جمود اور اضافہ فسق و فجو ر ہے ۔ رواداری حد سے بڑھ جائے تو بے غیرتی اور بزدلی بن جاتی ہے اور ضرورت سے بھی کم ہوجائے تو تعصب و تنگ نظری سمجھی جاتی ہے ۔
ایک مومن اگر اپنی عملی زندگی میں اقدار کے مابین اس باریک فرق سمجھنے کی سعی نہیں کرے گا تو اندیشہ رہے گا کہ وہ مثبت راہ چلتے چلتے منفی راہ اختیار نہ کر بیٹھے۔ جیسا کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا کہ ایک غیرت اللہ کو پسند ہے اور ایک نا پسند ۔ پسند غیرت زنا کے سلسلے میں ہے اور نا پسند غیرزنا کے سلسلے میں۔ ایک اکڑ کی چال اللہ کو پسند ہے اورایک ناپسند ۔ جہاد میں اکڑ کی چال اللہ کو پسند ہے اور غرور سے اکڑ کی چال ناپسند ۔ اسی طرح فرمایا کہ دو چیزوں میں حسد (غبطہ ) ہے کسی کو اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں رات دن لٹاتا ہو اور کسی کو اللہ نے دین کی سمجھ عطا کی ہو اور وہ اس سے دینی فیصلے کرتا رہتا ہو اور دوسروں کو بھی سکھاتا رہتا ہو ۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک صحیح مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھی اسلامی زندگی گزارنے کے لیے درج ذیل افعال کے جوڑوں کو نہ صرف ذہن نشین کر ے بلکہ ان کے درمیان باریک فرق کو سمجھنے کی سعی بھی کرے ۔ مدارات و مداہنت، ایمان و نفاق، خودداری و غرور، تواضع و ذلت، غیرتِ دینی وغیرتِ نفسانی ، سخاوت و اسراف، دور اندیشی و بزدلی ، میانہ روی او ربخل، ہدیہ و رشوت، صبر و سنگدلی، معافی و ذلت،بھروسہ اور دھوکہ، رجا اور تمنا ، اظہارِ نعمت اور فخرِ نعمت، توکل و عجز، نصیحت و ملامت، مقابلہ و حسد وغیرہ۔