منحرف قوموں کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ انھیں جب بھی حق بات بتائی جاتی اور سیدھی راہ دکھائی جاتی ہے، وہ اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور اس کی وجہ جواز یہ بتاتے ہیں کہ وہ اس طریقے کے خلاف ہے، جس پر انھوں نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ جو بات بتائی جا رہی ہے، وہ فی نفسہ درست اور ان کے اپنے مفاد میں ہے یا نہیں۔ اسے رد کرنے کے لیے وہ محض اس چیز کو کافی سمجھتے ہیں کہ ان کے باپ دادا اس پر عمل پیرا نہیں تھے یا ان کا طرز عمل اس کے برخلاف تھا۔
انبیاء کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی انھوں نے اپنی قوموں کے سامنے اللہ کا پیغام حق سنایا، انھوں نے اسی دلیل کا سہارا لیا اور یہی کہہ کر ان کی دعوت کو رد کیا۔ سورۂ الزخرف میں اللہ تعالیٰ نے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے قوموں کے اسی رویے کا تذکرہ کیا ہے: بَلْ قَالُوْٓا اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ. وَکَذٰلِکَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْھَآ اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّ اِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِھِمْ مُّقْتَدُوْنَ. قٰـلَ اَوَلَوْ جِءْتُکُمْ بِاَھْدٰی مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَیْہِ اٰبَآءَ کُمْط قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ. (الزخرف: ۲۲۔ ۲۴)
‘‘بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی نذیر بھیجا، اس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔ ہر نبی نے ان سے پوچھا: کیا تم اسی ڈگر پر چلے جاؤ گے خواہ تمھیں اس راستے سے زیادہ صحیح راستہ بتاؤں جس پر تم نے اپنے باپ کو پایا ہے؟ انھوں نے سارے رسولوں کو یہی جواب دیا کہ جس دین کی طرف بلانے کے لیے تم بھیجے گئے ہو ہم اس کے کافر ہیں۔’’
سورۂ ابراہیم میں کچھ قوموں (قوم نوح، عاد، ثمود) کا نام لے کر اور دوسری بہت سی قوموں کی طرف اشارہ کر کے کہا گیا ہے کہ ان کے پاس ان کے پیغمبر واضح تعلیمات اور روشن نشانیاں لے کر پہنچے، مگر انھوں نے ان میں شک کیا، انھیں قبول کرنے سے انکار کیا اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ دعوت انبیاء کو رد کرتے ہوئے انھوں نے جو باتیں کہیں ان میں یہ بات بھی تھی: اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاط تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا. (ابراہیم: ۱۰)
‘‘تم کچھ نہیں ہو، مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں، تم ہمیں ان ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔’’
قرآن کریم میں مختلف انبیاء کی جو الگ الگ سرگزشت بیان کی گئی ہے، اس میں بھی یہ پہلو ابھرا ہوا ہے۔ ان کی قوموں نے اس پر اپنی ناگواری کا اظہار کیا کہ وہ ایسی باتیں کیوں کہتے ہیں جو انھوں نے اپنے باپ دادا سے نہیں سنیں اور وہ اپنے باپ دادا کے جن طریقوں پر عمل پیرا ہیں ان سے کیوں ہٹانا چاہتے ہیں۔ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے حق کی دعوت پیش کی اور اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے اور اسی کی عبادت کرنے کی تلقین کی تو ان لوگوں نے ان کی دعوت کو رد کرتے ہوئے کہا: اَجِءْتَنَا لِنَعْبُدَ اﷲَ وَحْدَہٗ وَ نَذَرَ مَا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا. (الاعراف ۷۰)
‘‘کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور انھیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں؟’’
حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت پر ان کی قوم نے بھی یہی رویہ اپنایا۔ اس نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ تم تو ہماری نظروں میں بڑی قدر و منزلت کے حامل تھے۔ اب یہ تم نے کیسی باتیں شروع کر دیں؟ قَالُوْا یٰـصٰلِحُ قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھَذَآ اَتَنْھٰـنَـآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا. (ہود: ۶۲)
‘‘انھوں نے کہا: اے صالح! اس سے پہلے تو ہمارے درمیان ایسا شخص تھا جس سے ہماری بڑی توقعات وابستہ تھیں، کیا تو ہمیں ان معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے، جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے۔’’
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت میں بھی آباء پرستی پر سخت تنقید ملتی ہے۔ وہ جب اپنی قوم کو بتوں کی پرستش سے روکتے ہیں تو قوم کے لوگ یہی جواب دیتے ہیں کہ صدیوں سے یہی ہوتا چلا آ رہا ہے اور ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایسا ہی کرتے ہوئے پایا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام وضاحت کرتے ہیں کہ کسی چیز کے برحق ہونے کی یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس پر عرصۂ دراز سے عمل ہو رہا ہے۔ اگر کوئی کام فی نفسہ غلط ہے تو تمھارا بھی اسے انجام دینا غلط ہے اور اگر تمھارے باپ دادا ویسا کرتے رہے ہیں تو وہ بھی غلطی پر تھے۔ سورۂ انبیاء میں ہے: اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَہَا عَاکِفُوْنَ.قَالُوْا وَجَدْنَـآ اٰبَآءَ نَا لَہَا عٰبِدِیْنَ. قَالَ لَقَدْ کُنْتُمْ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ فِی ضَلٰلٍ مُّبِیْن. (الانبیاء: ۵۲: ۵۶)
‘‘یاد کرو وہ موقع جبکہ اس (ابراہیمؑ) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے، اس نے کہا: تم بھی گمراہ ہو اور تمھارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔’’
سورۂ شعراء میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جب اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ بت نہ تمھاری پکار سنتے ہیں، نہ تمھیں نفع یا نقصان پہنچانے کی سکت رکھتے ہیں، پھر تم کیوں انھیں پوجتے اور ان کے سامنے اپنا سر جھکاتے ہو تو ان کی قوم نے جواب دیا: قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ. (الشعراء: ۷۴)
‘‘بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے۔’’
حضرت شعیب علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو سمجھایا کہ صرف اللہ کی پرستش اور اطاعت کرو، مالی معاملات میں بے ایمانی اور دھوکا دہی سے بچو اور صحیح طریقے سے ناپ تول کیا کرو تواس نے ان کا مذاق اڑایا اور ان پر پھبتیاں کسیں: قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ تَاْمُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَـآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاط اِنَّکَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ. (ہود: ۸۷)
‘‘انھوں نے جواب دیا: اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟ بس تو ہی ایک عالی ظرف اور راست باز آدمی رہ گیا ہے۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیاں اپنی قوم کے سامنے پیش کیں اور اسے کفر اور سرکشی سے باز آنے کی تلقین کی تو اس نے ان نشانیوں کو جادو قرار دیا اور اپنے سابقہ رویے پر جمے رہنے کے سلسلے میں باپ دادا کا سہارا لیا۔ قرآن کہتا ہے: فَلَمَّا جَآءَ ہُمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰـتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًی وَّمَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ. (القصص: ۳۶)
‘‘پھر جب موسیٰ ان لوگون کے پاس ہماری کھلی کھلی نشانیاں لے کر پہنچا تو انھوں نے کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر بناوٹی جادو۔ اور یہ باتیں تو ہم نے اپنے باپ دادا کے زمانے میں کبھی سنیں ہی نہیں۔’’
ان لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پرالزامات لگائے کہ وہ ملک میں حکومت و اقتدار کے بھوکے ہیں اسی لیے یہ افراتفری پیدا کر رہے ہیں اور لوگوں کو باپ دادا کے طریقے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ قَالُوْٓا اَجِءْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَ نَا وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِِیَآءُ فِی الْاَرْض. (یونس: ۷۸)
‘‘ انھوں نے جواب میں کہا: کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تم دونوں کی قائم ہو جائے۔’’
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو دعوت توحید پیش کی وہ ان کے باپ دادا کے طور طریقوں اور رسم، رواج کے خلاف تھی۔ چنانچہ انھوں نے قومی اور آبائی حمیت بھڑکانے کے لیے حضرت موسیٰ سے جرح کی اور دریافت کیا کہ تم جن چیزوں کی طرف دعوت دیتے ہو ہمارے باپ دادا کا طریقہ تو ان کے خلاف تھا، پھر ان کا کیا حشر ہو گا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے، وہ جیسا چاہے گا ان کے ساتھ پیش آئے گا: قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی. قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍج لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَی. (طہ: ۵۱، ۵۲)
‘‘فرعون بولا: اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟ موسیٰ نے کہا: اس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ چوکتا ہے، نہ بھولتا ہے۔’’
خاتم النبیین حضرت محمد ؐ کی دعوت کے ضمن میں بھی قرآن کریم نے متعدد مقامات پر صراحت کی ہے کہ اس وقت بھی لوگ گمراہی میں غرق تھے۔ جب انھیں اس پر ٹوکا جاتا اور اللہ کی بھیجی گئی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کی جاتی تو وہ اس دعوت کو رد کر دیتے اور کہتے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو جس راہ پر پایا ہے ا س سے ذرا بھی نہ ہٹیں گے۔ قرآن ان کی عقلوں کو اپیل کرتا ہے کہ ذرا سوچو، اگر باپ دادا نے دانستہ یا نادانستہ کوئی غلطی کی تو کیا تم بھی اسے جاری رکھو گے؟
وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اﷲُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَ نَا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ. (البقرہ: ۱۷۰)
‘‘ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں، ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو او رراہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے۔’’ (مزید ملاحظہ کیجیے، المائدہ: ۱۰۴، لقمان: ۲۱)
جب ان کے سامنے حق کی باتیں کی جاتی تھیں تو انھیں قبول کرنے کے بجائے الٹا اللہ کے رسولؐ پر الزام لگاتے تھے کہ وہ یہ باتیں اپنی طرف سے گھڑ کر پیش کر رہے ہیں اور ان کا مقصد باپ دادا کے طریقے سے پھیرنا ہے: وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰـتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَاہٰذَآ اِلَّا رَجُلٌ یُّرِیْدُ اَنْ یَّصُدَّکُمْ عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُکُمْج وَقَالُوْا مَا ہٰذَآ اِلَّآ اِفْکٌ مُّفْتَرًی. (سبا: ۴۳)
‘‘ ان لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ان مبعودوں سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمھارے باپ دادا کرتے آئے ہیں اور کہتے ہیں یہ (قرآن) محض ایک جھوٹ ہے گھڑا ہوا۔’’
یہی نہیں بلکہ ان کے ڈھیٹ پن کا عالم یہ ہو گیا تھا کہ وہ کسی گناہ کے کام کا ارتکاب کرتے تھے تو اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے اس کے لیے عذرات تراشتے تھے۔ مثلاً کہتے تھے کہ یہ کام تو پہلے کے لوگ بھی کرتے رہے ہیں۔ ہم کر رہے ہیں تو کیا غلط ہے؟ اگر ہمارے باپ دادا نے اسے کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ نے انھیں ایسا کرنے کو کہا تھا۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ کو یہ جواب دینے کی ہدایت کی گئی کہ اللہ پر غلط الزام نہ لگاؤ، اس لیے کہ اللہ کسی غلط کام کرنے کا حکم نہیں دے سکتا۔قرآن کہتا ہے: وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْھَآ اٰبَآءَ نَا وَاﷲُ اَمَرَنَا بِھَاط قُلْ اِنَّ اﷲَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِط اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اﷲِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ. (الاعراف: ۲۸)
‘‘یہ لوگ جب کوئی شرم ناک کام کرتے ہیں، تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان سے کہو اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا۔ کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں؟’’
آج بھی آباء پرستی دعوت حق کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مخاطبین خواہ غیر مسلم ہوں یا مسلمان، جب ان کے سامنے اسلام کی حقیقی تعلیمات پیش کی جاتی ہیں اور وہ ان کے موروثی عقائد و اعمال کے خلاف ہوتی ہیں تو وہ انھیں رد کر دینے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے اور اس کی یہی دلیل دیتے ہیں کہ یہ ہمارے آباء و اجداد کے طریقے کے خلاف ہے۔ داعیان ِ دین کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مخاطبین کے اس رویے کا اسی طرح جواب دیں جس طرح انبیائے کرام نے جواب دیا تھا اور اسی طرح ان کی عقلوں کو اپیل کریں جو انبیائے کرام کی دعوت کا طرۂ امتیاز تھا۔
(بشکریہ ماہنامہ ‘‘زندگی نو’’ نئی دہلی، اگست 2009ء)