نعمتوں سے منعم تک رسائی
زمین اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک ایسی عظیم نشانی ہے جس کی دعوتِ غور و فکر ہمہ جہتی ہے ۔ اس کائنات میں زمین وہ واحد کرۂ ہے جس میں زندگی کے وجود اور اس کی بقا کے لا محدود اسباب و و سائل میسر ہیں۔ زمین گو کہ ہر لمحہ محو گردش ہے لیکن اس کے باوجود ہزارہا سال سے اس کے اوپر بسنے والی تمام مخلوقات کو وہ سکون اور سازگاری میسر ہے جو ان کی زندگی کی بنیادی ضرورت اوران کے لیے باعث لذت و سرور ہے ۔ اس سازگاری اور سکون کا سبب زمین میں موجود کشش ثقل کی صلاحیت ہے جو کہ خالق کائنات کی ان گنت عنایات میں سے اہم ترین نعمت ہے۔ اس نعمت کا ادراک دلا نے کی غرض سے مدبر کائنات کبھی کبھار زلزلے بھیجتا ہے تاکہ سکون کا درہم برہم ہونا اس کی ہمہ وقت فراہمی پر احساس شکر بیدار کر سکے۔
زمین کی ساخت اس کے خالق نے کچھ اس طرح سے بنائی ہے کہ یہ انسان سمیت تمام مخلوقات کے چلنے پھرنے اور رہنے کے لئے موافق رہے۔ یہ نہ تو اتنی نرم ہے کہ اس میں دھنس جانے کا اندیشہ ہو اور نہ اتنی سخت کہ کھیتی باڑی اور دوسری ضروریات کے کام ہی نہ آ سکے۔ یہی زمین ابتداً انسان کی تخلیق کا سبب بنی اور موت طاری ہونے کے بعد بھی انسان سمیت تمام مخلوقات کو یہی اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے جبکہ قیامت برپا ہونے پر یہی زمین اپنے خالق کے حکم سے انسانی لاشوں سمیت تمام دفینوں کو نکال باہر کرے گی بلکہ اپنی پشت پر رونما ہونے والے تمام معاملات و واقعات کے احوال بھی رب کائنات کے حکم سے بیان کر دے گی۔
انسان اپنی ضروریات کے لیے آسانی سے اسے کھودسکتا ہے اور اس کی مٹی کو عمارات کی تعمیر کے لیے استعمال کر سکتا ہے ۔ اسی طرح انتہائی کمزور کیڑے مکوڑے بھی اپنے بسیرے اور خوراک کے لیے زمین کو کھودنے اور کریدنے کا کام کرتے رہتے ہیں جبکہ انسان اسی زمین سے زندگی کی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لئے پانی کے ذخائر کو حاصل کر تاہے زمین اس اعتبار سے بھی قدرت کا شاہکار ہے کہ رحیم و شفیق رب نے اس کائنات کے اندر تہ در تہ پانی کے ذخائر انسان کی ضرورت کے لئے محفوظ کر دیئے ہیں۔ انسان اپنی ضرورت کے اعتبار سے جتنی گہرائی تک کھودنا چاہے زمین کی ہر تہ کے اندر موجود میٹھے پانی کے ذخائراس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اپنے رب کے حکم کے منتظر ہوتے ہیں ۔
زمین کا تین چوتھائی جو کہ انواع و اقسام کی آبی مخلوقات کا مسکن ہے پانی پر مشتمل ہے جبکہ صرف ایک چوتھائی قطعہ خشکی پر محیط ہے جو کہ زمینی مخلوقات کا مسکن ہے۔ اور اس تین چوتھائی میں کھاری پانی کے لا محدود ذخائر کو اللہ تعالے ہواؤں اور بارشوں کے ذریعے مسلسل گردش میں رکھتے ہیں تاکہ سمندروں کا کھاری پانی اس گردش کے نتیجے میں میٹھے پانی کی شکل اختیار کر کے خشکی کے حصے کے لئے مطلوبہ ضرورت کی فراہمی کا ذریعہ بن سکے۔ سمندروں کی شکل میں پانی کے لا محدود ذخائر کو خشکی پر طغیانی سے روکے رکھنا بھی قدرت کا اپنی مخلوق پر ایک احسان عظیم ہے اور پھر اس زمین کے اندر موجود پانی کے ذخائر کو سلب نہ کرنا بھی اس کی نعمت عظمیٰ ہی ہے۔ ربِ ذوالجلال کی کس قدر رحمت ہے کہ وہ ذخائر آب کو نہ تو سلب فرماتا ہے اور نہ ہی اس میٹھے ذخیرے کو کھاری پانی میں تبدیل ہونے دیتا ہے ۔قل ارء یتم ان اصبح ماء کم غورا فمن یاتیکم بما ء معین
بارشوں کی یہ گردش جہاں ایک طرف مخلوقات کی ضرورت کو پورا کرتی ہے وہیں دوسری طرف خوراک کی ضروریات کے اہتمام کا بھی اہم ترین ذریعہ ہے ۔خالق کائنات نے زمین کے اندر زرخیزی کی وہ صلاحیتیں رکھی ہیں جو انسانوں سمیت تمام مخلوقات کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں ۔ زمین کی کوکھ سے پیدا ہونے والی نباتات قدرت خداوندی کا ایک نادر نمونہ ہیں۔یہی زمین جو خزاں میں چٹیل اور سبزے سے قطعی طور پر محروم ہو تی ہے لیکن ہواؤں اور بادلوں کی گردش کے نتیجے میں جب بارشیں برستی ہیں تو یہی خشک اور بنجر زمین سر سبز و شاداب بن کر آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ ایک بے جاں دانہ جسے زمین کی تہ میں دبا دیا جاتا ہے آخر کون سی قوت و قدرت ہے جو اس دانے کے ایک سرے کو پھاڑ کر زندگی کو وجود میں لاتا ہے
بلا شبہ اللہ کریم ہی وہ ذات پاک ہے جو دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر نباتات کی پرورش کا ذریعہ بناتی ہے اور پھر اس دانے سے نکلنے والی کمزور ترین کونپل سطح زمین کو چیرتی ہوئی نمودارہوتی ہے۔ وہ کونپل جو اپنی حقیقت میں اس قدر نازک اور کمزور ہوتی ہے کہ معمولی سا دباؤ بھی برداشت نہیں کر سکتی لیکن دوسری طرف وہی زمین جس کو کھودنے کے لئے پھاوڑے اور ہل کی ضرورت پڑتی ہے وہ اس نازک کونپل کو باہر نکلنے کے لیے راستہ فراہم کر دیتی ہے ۔ بلاشبہ اس تمام تر عمل میں نہ تو کونپل کی قوت کا اثر ہے اور نہ ہی زمین کا اختیار۔ اس سارے عمل کے پیچھے ایک عاقل انسان کے لئے شفیق و رحیم پروردگار کی معرفت کے لا محدود دریچے کھلنے کے منتظر ہوتے ہیں۔
ایک اور پہلو سے غور کریں تو رحیم و کریم رب کی قدرت کا ایک دوسرا رخ سامنے آتا ہے کہ ایک ہی قطعہ زمین اور ایک ہی طرح کے پانی سے سینچے جانے کے باوجود انواع و اقسام کے غلے اور پھل اسی قطعہ زمین کے مختلف حصوں سے پیدا ہو رہے ہوتے ہیں جن کی صورتیں ، ذائقے اور تا ثیر ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہوتی ہیں۔
خالق کائنات نے اپنی حکمت و منصوبے کے تحت انسان کو اس کرۂ ارضی پر بسایا اور اس زمین پر چلنے والے ہر جاندار کے رزق کی فراہمی اپنے ذمہ لے لی۔ اور یہ ذمہ داری وہی ذات نبھا سکتی ہے جسے یہ معلوم ہو کہ رزق کا متلاشی کہاں ہے؟ اور اس کی ضروریات کیا کیا ہیں؟ اور پھر وہ مطلوبہ ضروریات کو فراہم کرنے اور مقررہ جگہ پر پہنچانے کی قدرت بھی رکھتا ہو۔ بلاشبہ خالق ارض و سما کے سوا رازق و رزاق ہونے کا یہ مقام کسی اور کو زیبا ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ رب کائنات اپنی مخلوقات کو محض ذمہ داری اتار دینے کی حد تک ہی رزق نہیں پہنچاتا بلکہ اس فراہمی رزق میں وہ اس قدر تنوع اور وسعت کا اہتمام فرماتا ہے کہ نہ صرف انسان کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے بلکہ اس کا رب اس کے لئے لذت کام و دہن کا اورذوق نظر کا اہتمام بھی بمقدار وافر فرماتا ہے۔
غلے کے اعتبار سے اگر سوچا جائے تو اس کے اندرخالق کائنات نے اتنا تنوع رکھا ہے کہ انسان اگر گندم سے اکتا جائے تو چاول میسر ہیں، چاول سے اکتاجائے تو مکئی موجود ہے مکئی سے اکتا جائے تو جو میسر ہیں۔ نیز گندم، چاول، جو اور دالوں سے وہ خدا کی عطا کردہ ذہانت کو استعمال میں لاتے ہوئے نت نئی چیزوں کو بنانے کی قدرت بھی رکھتا ہے جو اس کی لذت کام و دہن کو تسکین پہنچاتی ہیں۔ اسی طرح پھلوں اور میوہ جات میں قادر و قیوم رب نے اس قدر تنوع رکھا ہے کہ کسی ایک محدود خطہ ارضی ہی میں پھلوں کی اتنی اقسام مل جاتی ہیں کہ انسان اگر اپنے باطن کی نگاہ کو بند ہی نہ کر لے تو اس کے جسم کا رواں رواں اپنے خالق کی حمد و ثناء کے نغمے الاپنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
غذائی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے خالق کائنات نے یوں نہیں کیا کہ غلے اور میوہ جات کو پھینک مارا ہو۔ بلکہ ابتدائی پھول سے لے کر پھل اور غلے کے پکنے تک اس کو مضر ہواؤں اور چرند و پرند سے محفوظ رکھنے کے لئے حیرت ناک تحفظ کا اہتمام کیا ہے۔ غلہ اور پھل تیار ہو کر پیکنگ کے اس اعلیٰ ترین معیار پر انسان کے سپرد ہوتا ہے کہ انسان اپنی تمام تر ترقی کے باوجود اس معیار کو کبھی عبور نہیں کر سکتا۔ گندم، چاول، جو ، دالیں سمیت ہر غلہ پیکنگ کی شکل میں تیار ہوتا ہے اور پھر اس چھلکے کو اتار کر کے انسان غلہ کو اپنے استعمال میں لانے کے قابل بناتا ہے جبکہ غلاف کے چھلکے بھوسے کی شکل اختیار کر کے ایک طرف مویشیوں کی غذا بنتے ہیں اور دوسری طرف انسانی ضروریات کی متفرق مصنوعات کی تیاری کا ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔
غلہ اور میوہ جات تو بلاشبہ انسانی غذائی ضروریات کو پورا کرتے ہیں لیکن قربان جائیے خالق کائنات کی شفقت پر کہ ان کے ساتھ ساتھ اس نے انسان کے ذوق نظر کے لئے پھولوں کی لامتناہی اقسام کو وجود بخشا ہے۔ کمزور سے کمزور ذوق کا حامل انسان بھی رنگ برنگے ہمہ اقسام پھولوں کو دیکھ کر سرور و سکون سے سرشار ہو جاتا ہے۔
کسی بھی نعمت سے مستفید ہونے کا ایک لازمی نتیجہ تویہ ہونا چاہئے کہ نعمت کے ذریعے منعم کی شناخت حاصل ہو اور دوسرا یہ کہ اس نعمت کے عطا کرنے پر منعم کے لئے شکر گزاری کے جذبات کا اظہار ہو۔ شیخ سعدیؒ نے معرفت الہی کے حوالے سے فرمایا ہے کہ انسان کی معرفت کی حس بیدار ہو تو ایک ایک پتا اپنے رب کی معرفت کا ایک وسیع کتب خانہ بن جاتا ہے۔
انسان اپنے ارد گرد شعور کی نگاہ دوڑائے تو اسے اپنے پروردگار کی ایسی ایسی نعمتیں قدم قدم پر نظر آتی ہیں جو اسے وہ بن مانگے اور بغیر کسی استحقاق اور بغیر کسی وقفے کے مسلسل عطا فرمائے چلا جا رہا ہے۔ لا محالہ ان نعمتوں کے استفادے کا لازمی نتیجہ ایک سلیم الفطرت انسان کی طرف سے یہ برآمد ہونا چاہئیے کہ وہ ان نعمتوں کے پیچھے نعمتوں کے فراہم کرنے والے شفیق و کریم رب کی قدرت اور رحمت کو دریافت کرے۔ اور ان نعمتوں کے عطا کرنے پر اپنے قول و فعل سے شکر و سپاس بجا لائے۔
انسان اپنی اصل کے اعتبار سے تمام مخلوقات میں اشرف و اکرم مقام کا حامل ہے اور خود اسے اپنے اردگرد اپنے ماحول میں شکر گزاری کے تجربات کا مشاہدہ ہوتارہتا ہے کہ کس طرح ایک پالتو جانور کا سر اور پورا بدن اپنے مالک کے سامنے پیکر شکر بن جاتا ہے۔ جب شعور کی دولت سے محروم جانور کسی کے فراہم کردہ رزق میں سے پرورش کرنے والے کے سامنے شکر گزاری کو اپنے اوپر لازم قرار دیتے ہیں، تو انسان کو اپنی اشرفیت کی لاج رکھتے ہوئے اپنے حقیقی رازق و رزاق کے سامنے اس کی بے پناہ نعمتوں پر ہرہر لمحہ اور ہر ہراسلوب سے شکر بجا لانا چاہئے۔
نعمتوں کی اس فراہمی پر ایک دوسرے پہلو سے غور کیا جائے جس کی طرف انبیاء اور وحی الہی ہمیشہ سے توجہ دلاتی رہی ہے کہ حقیقی معنی میں عقلمند انسان جب ان نعمتوں کے لامتناہی سلسلہ پر غور کرتا ہے تو جہاں اسے نعمتوں کے فراہم کرنے والے پروردگار کا تعارف حاصل ہوتا ہے وہیں وہ اس نتیجے پر بھی پہنچتا ہے کہ اس کاپروردگار کائنات اور اس کے اندر لا متناہی سلسلہ ہائے ربوبیت کو محض اس لئے وجود میں نہیں لایا کہ انسان چار دن کی زندگی میں ان سے لطف اندوز ہو کر موت کی آغوش میں جا کر رزق خاک بن جائے بلکہ وہ پکار اٹھتا ہے کہ اے ہمارے رب ، تونے یہ سب بلا مقصد نہیں پیدا کیا۔ یقینا تونے نعمتیں عطا کی ہیں تو ان نعمتوں کے بارے میں اختیار کردہ رویے کا حساب لینے کے لئے یقینا ایک روز قیامت بھی برپا کرکے رہے گا، جس کے ظہور پذیر ہونے میں کوئی شک نہیں اور اے ہمارے رب! اس دن ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھنا ( آمین)۔ربنا ما خلقت ہذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار۔ بلا شبہ یہی وہ درست رویہ ہے جو اشرف المخلوق انسان سے اس کے رب کریم کو مطلوب ہے۔
انسان اگر شکر گزاری کے اس رویے کو پیدا نہ کر سکے تو وہ انسان ہوتے ہوئے اپنے آپ کو انسانیت کے مقام سے بہت نیچے گرا لیتاہے۔ چونکہ اپنے مالک کی نا شکر ی تو جانور بھی نہیں کرتا۔ بلاشبہ اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے اس طرح کا رویہ اختیار کرنے والا اپنے مالک کی نگاہ میں جانوروں سے بھی بد ترین مخلوق قرار پاتا ہے۔ انہی دو رویوں کے ردوقبول کا امتحان در حقیقت اصل مقصد زندگی ہے۔کامیاب انسان وہی ہے جو اس زندگی کے دوران چھوٹے چھوٹے ظہور پذیر ہونے والے واقعات سے اپنے لئے ایمان کی غذا حاصل کرے اور قدم قدم پر اپنے رب کی معرفت اور شکر کے مواقع پیدا کرتا رہے۔ یہی وہ انسان ہے جس کے بارے میں حالی نے کیا خوب کہا ہے:
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ