اس کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا مگر اسے اپنی سج دھج ، وضع قطع ، تراش خراش یا لباس سے زیادہ دلچسپی نہ تھی ۔اصل میں وہ تن سے زیادہ من کی دنیا کا آدمی تھا اس لیے وہ جس طرح چاہتا یونیورسٹی چلا جاتا۔ کبھی الجھی زلفوں کے ساتھ تو کبھی شکن زدہ لباس میں۔ کبھی موٹر سائیکل پر تو کبھی پیدل ۔ کبھی چھوٹی گاڑی پر سوار تو کبھی بڑی پر ۔ بعض اوقات تو وہ دیکھنے میں عجیب سا معلوم ہوتا لیکن کوئی اس سے گفتگو کرتا تو اُسے فورا ً اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا اور اسے تسلیم کیے بغیر چارہ نہ رہتا کہ یہ طالب علم نہایت سنجیدہ ، مہذب ، خاندانی اور با وقار طو رو اطوار کا مالک ہے جو نہ صرف دنیا بلکہ دین کا علم بھی رکھتا ہے اورمزید یہ کہ اپنی بات کو شائستہ طریقے سے کہنے کا فن بھی جانتا ہے ۔
یہ درویش منش طالب علم ملک کی ایک مایہ ناز یونیورسٹی میں انگریزی ادب کا طالب علم تھا۔ ایک دن یونیورسٹی کی ایک خاتون استاد نے اسے ہنڈا کار پر یونیورسٹی آتے دیکھا تو اس نے اپنی ساتھی استاد سے کچھ یوں تبصر ہ کیا‘‘ارے ، میں تو فلاں کو بڑا brutal قسم کا انسان سمجھتی تھی لیکن وہ تو ہنڈا میں آتا ہے ’’ یعنی اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو ا کہ وہ brutal نہیں بلکہ مہذ ب انسا ن ہے کیونکہ اس کے پاس ہنڈا کار ہے ۔ اس طالب علم کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ کوئی نیا نہیں اس کے باپ کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ تما م تر شرافت ، علم اور اخلاق کے باوجود اس کے سگے رشتہ داروں نے اسے اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا تھاکیونکہ اس کے پاس بینک بیلنس نہیں تھااور نہ ہی گھر یا گاڑی۔ اس نے اپنی ماں کو منع بھی کیا تھا اور کہا تھا ‘‘ماں جی، اب زمانہ تبدیل ہو گیاہے آپ یہ رشتہ نہ مانگیں ،جواب ہوجائے گا’’ ، تو اس کی ماں نے کہا تھا ،‘‘بیٹا، یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ میرے سگے ہیں کیسے انکار کریں گے’’۔ لیکن وہی ہوا جو اس نے کہا تھا ۔ لڑکی والوں نے کہا ، دیکھیں آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہیں ،ہم آپ کے بیٹے کی شرافت اور اخلاق کے قائل ہیں مگر اس کے پاس گھر گاڑی اور بینک بیلنس نہیں، ہماری بچی کیسے گزارہ کرے گی؟اور پھر جب وہ ایک محلے میں آباد ہوا تو کوئی اس کو منہ لگانے کو تیا ر نہ تھا کیونکہ اس کے پاس محض سائیکل تھا اور اس کا گھر بھی ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ لیکن جو ں جوں اس کے پاس دنیوی چیزوں کی آمد بڑھتی گئی، اس کے اہل محلہ کی بے رخی بھی رفت ہوتی گئی۔ اس کے پاس سائیکل سے موٹر سائیکل آیا تو لوگ اسے سلام کرنے لگے، اس کے پاس موٹر سائیکل سے گاڑی آئی تو لوگ اسے پاس بٹھانے لگے اور اپنے اہم کاموں میں اس سے مشورہ لینے لگے اور جوں ہی اسکا گھر چھوٹے سے بڑا ہو ا ، اس کی چھوٹی عزت بھی بڑی ہو گئی۔ اب وہ بھی ایک معززشہر ی تھا کیونکہ اب اس کے پاس عزت و شرافت کے سارے لوازمات موجودتھے۔
اس ذہین طالب علم کے بارے میں ایک استاد کا تبصرہ اور اس کے باپ کے بارے میں لوگوں کا رویہ ہماری بدلتی، نہیں، بلکہ بدلی ہوئی معاشرتی اقدار کا بہترین عکاس ہے۔ ہمارے ہاں اخلاقی و معاشرتی اقدار کے بدلنے کا جو عمل پچاس ساٹھ برس قبل شروع ہوا تھا وہ آج تقریباً مکمل ہو گیا ہے ۔ اوراب شرافت و عزت کا معیار علم و اخلاق نہیں بلکہ پیسہ ، گھر ، گاڑی اور عہد ہ ہے ۔اب کوئی علم وعمل اور اخلاق و شرافت سے کتنا ہی تہی دامن کیوں نہ ہو اگر اس کے پاس یہ لوازمات موجود ہیں تو وہ عزت والا ہے اور اگرعلم و عمل اور اعلیٰ اخلاق تو ہیں مگر ان لوازمات کی کمی ہے تووہ اتنا ہی گھٹیا بلکہ brutal ہے۔ ستر اور اسی کی دہائی میں پیدا ہونے والی نسل اب ماشا ء اللہ اس ملک کی ہر اہم جگہ پر قابض ہے او راس نسل کی غالب اکثریت اسی سوچ کی حامل ہے جو ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے ایک اعلیٰ استاد کی ہے ۔معاشرے میں بے سکونی ، ابتری ، فساد اور بے چینی کی شکایت کرنے والے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔کیکر بو کر شیشم کی تمنا کرنا اتنا ہی عبث ہے جتنا چنا بو کر گندم کی تمنا۔
ہم نے سائنسی ترقی کے شوق میں پہلے اپنے تعلیمی اداروں سے عربی اور فارسی کو رخصت کیا ۔ نتیجتاً گلستا ں بوستاں اور کلیلہ دمنہ کی شکل میں موجود سارا اخلاقی ادب بھی ساتھ ہی رخصت ہو گیا۔ان کتابوں کے بغیر وہ نسل پیدا ہوئی جس کے خیال میں اعلی اخلاقی اقدار ایک اضافی شے تھی ۔ اسی طرح پھر ہم نے اپنے تعلیمی اداروں سے تاریخ کو رخصت کیا تا کہ کوئی تاریخ کا یہ سبق نہ جان سکے کہ سائنس و مادیت کی بنا پر حاصل ہونے والی ترقی او رعروج کو اُسی معاشرے میں بقا اور استمرار نصیب ہوتا ہے جہاں اخلاقی اقدار کو برابر کی اہمیت حاصل رہے اور جہاں تمام تر مادی ترقی کے باوجود عزت اور شرافت کا معیار وہی رہے جس کو صدیوں سے دوام حاصل ہے ۔
‘‘سدا رہے نام اللہ کا’’ یہ سبق جاننے والے قوم کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس جہان فانی کی حد تک وہی چیز سداقائم رہ سکتی ہے، جو اس سدار ہنے والی ذات کی مرضیات سے ہم آہنگ ہو گی اور اس پر تمام اہل علم کااتفاق ہے کہ اخلاقی اقدار سے وابستگی اس لافانی ، باقی اور دائم ذات کی مرضیات سے یقینا ہم آہنگ ہے ۔