انسان اگر ہمت سے کام لے تو راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو شکست دے کر اپنی منزل حاصل کر سکتا ہے، جنوب مشرقی افریقا کے انتہائی غریب ملک ‘‘ملاوی’’ کے نوجوان ‘‘ولیم کیم کوامبا’’ نے صرف اپنی ہمت، حوصلے اور ثابت قدمی کے بل بوتے پر وہ کر دکھایا جس کی بدولت آج وہ بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکا ہے۔ ملاوی کی ڈیڑھ کروڑ آبادی میں سے صرف دو فیصد کو بجلی کی سہولیت میسر ہے۔ یہ دو فیصد لوگ بھی وہ ہیں جو شہروں میں رہایش پذیر ہیں۔ دیہات میں تو بجلی کا تصور ہی نہیں ہے، لیکن ولیم کا نہ صرف گاؤں روشن ہے بلکہ قرب وجوار کے علاقے بھی اس نعمت سے مستفید ہو رہے ہیں اور یہ سب اسی کی بہ دولت ممکن ہو سکا ہے۔
ولیم کا گاؤں Masitala وسطی ملاوی کے ایک دور افتادہ علاقے میں ہے۔ گاؤں میں رہنے والے دیگر خاندانوں کی طرح ولیم کا خاندان بھی مالی مشکلات کا شکار تھا، اسی وجہ سے اسے سکول کو خیر باد کہنا پڑا کیونکہ اس کے والدین مزید پڑھائی کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے تھے جو سالانہ 80 امریکی ڈالر تھا۔
چودہ سالہ ولیم نے تعلیم کا شوق پورا کرنے کے لیے گاؤں کی لائبریری میں جانا شروع کر دیا، کھیت میں والد کا ہاتھ بٹانے کے بعد روزانہ لائبریری جانا اور خود کو کتابوں میں گم کر لینا اس کا معمول بن گیا تھا۔ ارد گرد کے دیگر دیہات کی طرح ولیم کے گاؤں میں بھی بجلی کی سہولت موجود نہیں تھی اور پانی کی قلت تھی، اپنے گاؤں میں دور حاضر کی اس اہم ترین ضرورت کی دستیابی اور قلت آب کا سدباب ولیم کا دیرینہ خواب تھا، ایک روز لائبریری میں ولیم کی نظر ایک بوسیدہ سی کتاب پر پڑی، جس کا عنوان Using Energy تھا، یہ کتاب ہوا چکی (Wing mill ) کی مکمل ساخت اور اس سے بجلی کی پیدائش کے طریقوں پر مشتمل تھی۔ اس کتاب میں ہوا چکیوں کی تصاویر بھی دی گئی تھیں، ہوا چکی کی صورت میں ولیم کو اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر نظر آ رہی تھی، اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ چکی ضرور بنائے گا۔ وہ 2002ء کا سال تھا اور ان دنوں ملاوی سخت قحط کی لپیٹ میں تھا۔ بھوک اور پیاس سے ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے تھے۔ خود ولیم کے گاؤں میں بھی صورتحال مختلف نہیں تھی اور اس کے گھر میں فاقے ہو رہے تھے۔ ہوا چکی کی صورت میں ولیم کو وہ ڈھا ل نظر آ رہی تھی جو انھیں بھوک اور پیاس سے محفوظ رکھ سکتی تھی۔ ولیم کے پاس ہوا چکی کی تعمیر کے لیے نہ تو ضروری سامان تھا اور نہ اتنی رقم کہ وہ سامان خرید سکتا۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ یہ مشین اس کے گاؤں کی حالت بدل سکتی ہے، لہٰذا وہ ہر صورت ہوا چکی تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ کافی غور و حوض کے بعد ولیم نے محسوس کیا کہ نیا سامان خریدے بغیر بھی ہوا چکی بنانے کے لیے کوشش کی جا سکتی ہے، چنانچہ وہ ایک عزم کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ دن بھر کھیتوں میں کام کرنے کے بعد وہ رات گئے تک لالٹین کی روشنی میں گھر سے دور اپنے کام میں لگا رہتا، ابتدا میں کئی راتوں تک وہ کتاب لیے یہ دیکھتا رہا کہ دستیاب وسائل سے ہوا چکی کس طرح معرض وجود میں لائی جا سکتی ہے؟ چند روز تک اپنے ذہن میں اس منصوبے کا خاکہ تیار کرنے کے بعد ولیم نے عملی کام کا آغاز کیا، اسے رات گئے تک اپنے کام میں مصروف دیکھ کر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے۔ کچھ نے کہا کہ وہ رات میں بیٹھ کر نشہ کرتا ہے اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جادو ٹونا سیکھ رہا تھا، لیکن ولیم ان سب باتوں سے بے پروا اپنے کام میں لگا رہتا۔
ہوا چکی کے ٹربائن بنانے کے لیے ولیم نے کہیں سے پرانی سائیکل، ٹریکٹر کا فین بلیڈ، ایک پرانا شاک آبزربر، تار اور دیگر پارٹس حاصل کیے، ان سب چیزوں کا حصول بہت دوڑ دھوپ کے بعد ہی ممکن ہو سکا تھا۔ وہ کئی روز تک کباڑ خانے کے چکر لگاتا رہا تھا جبکہ اسے کئی لوگوں کی منت سماجت بھی کرنی پڑی تھی کہ وہ اپنے گھر میں بے کار پڑی ہوئی اس کی مطلوبہ چیزیں اسے مفت دے دیں۔ ولیم نے سائیکل کے حصوں، فین بلیڈ اور شاک آبزربر کو ملا کر ٹربائن تیار کیا اور پلاسٹک سے بنے پائپ کے ٹکڑوں کو آگ پر گرم کر کے انھیں پنکھے کے بڑے پروں کی شکل دی اور ٹربائن سے جوڑ دیا۔ ٹربائن کے ساتھ ولیم نے کئی سپیئر پارٹس کو جوڑ کر وہ ڈیوائس بھی بنا لی تھی جو ہوا چکی کے پنکھے گھومنے کی صورت میں بجلی پیدا کر سکتی تھی۔ ٹربائن اور دیگر آلات کو ولیم نے درخت کی لکڑی سے بنائے گئے ایک سولہ فٹ اونچے ڈھانچے پر نصب کر دیا۔ گاؤں والوں کے لیے ولیم کی تخلیق ایک عجوبے سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے کبھی انھوں نے ہوا چکی نہیں دیکھی تھی اور اس وقت ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب بلیڈز گھومنے پر لکڑی کے ڈھانچے پر لٹکا ہوا چھوٹا سا بلب روشن ہو گیا۔
جلد ہی اس روشنی سے ولیم کا گھر منور ہو گیا۔ لالٹین کی جگہ بلب نے لے لی۔ ولیم نے ایک پرانے سپیکر کے مقناطیس، کیل اور سائیکل کے پہیے کی تاروں اور ربڑ کی مدد سے بنایا گیا سرکٹ بریکر بھی گھر میں نصب کر دیا۔ گاؤں والے جو ولیم کو پاگل کہا کرتے تھے، بجلی کا کنکشن لینے کے لیے اس سے درخواست کرنے لگے۔
ولیم کے اس کارنامے سے دنیا 2006 ء میں واقف ہوئی جب ایک معروف بین الاقوامی روزنامے کے رپورٹر نے اس بارے میں ایک مضمون شائع کیا۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد نہ صرف اسے بین الاقوامی کانفرنسوں میں تقریر کرنے کے لیے بلایا گیا بلکہ کئی اداروں اور افراد نے اس کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی بھی پیش کش کی اور آج وہ جنوبی افریقا کی ‘‘افریقن لیڈر شپ اکیڈمی’’ میں زیر تعلیم ہے۔ اس عرصے میں ولیم نے ملنے والے عطیات کی مدد سے شمسی توانائی سے چلنے والا ایک واٹر پمپ بھی نصب کیا جو گاؤں کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کر رہا ہے۔ وہ اپنی 12 واٹ کی ہوا چکی کو اپ گریڈ کر کے اس کی صلاحیت 48 واٹ تک بڑھا چکا ہے۔ ولیم نے دو مزید ہوا چکیاں بھی لگائیں جو اس کے گاؤں سمیت قرب و جوار کے کئی دیہات کو بجلی فراہم کر رہی ہیں۔
(بشکریہ ماہنامہ ‘‘علم و آگہی’’ فیصل آباد،مارچ 2010ء)