عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا اور سعودی عرب کی درخواست پر امریکی فوجیں وہاں پہنچیں تو خوش نصیبی سے میں بھی ان دو سو خواتین میں شامل تھی، جو اس فوج کا حصہ تھیں اور دمام چھاؤنی میں تعینات ہوئیں۔ میں وہاں کوارٹر ماسٹر کی خدمات انجام دے رہی تھی۔ ہماری بٹالین پانچ کمپنیوں پر مشتمل تھی، جو ایک ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی۔ ان میں دو سو خواتین بھی تھیں۔ کوارٹر ماسٹر کی حیثیت سے میری ڈیوٹی فوجیوں کے لیے لباس، غذا اور رسد کا انتظام کرنا تھی اور اس حوالے سے ہمیں مقامی طور پر مختلف اشیا کی خریداری کرنی ہوتی تھی، چنانچہ اس مقصد کے لیے معاون کے طور پر ہمیں ایک مقامی باشندہ ملازم رکھنا پڑا۔ یہ لبنان کا ایک مسلمان حسین حریری تھا۔ یہی شخص اسلام سے میرے تعارف کا سبب بنا اور یہی بعد میں میرا رفیق زندگی بھی قرار پایا۔
ہوا یوں کہ چند ہی روز میں میں نے اندازہ کر لیا کہ حسین حریری منفرد کردار اور اخلاق کا مالک ہے۔ میرا اب تک کا مشاہدہ تھا کہ امریکی مردوں کی غالب اکثریت عورت کے معاملے میں بہت ہی غیر سنجیدہ ہے۔ وہ اسے عیش اور تفریح کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور اپنے عمل سے وہ عورت کے لیے احترام کا اسلوب اختیار نہیں کرتے اور جوں ہی انھیں موقع ملتا ہے وہ عورت کا تمسخر اڑانے، اس کی تذلیل کرنے یا ہوس کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے، لیکن حسین حریری کا رویہ قطعی مختلف تھا۔ وہ دن کا بیش تر حصہ میرے ساتھ گزارتا، لیکن کبھی بھول کر بھی اس نے کوئی چھچھوری حرکت نہ کی۔ وقار اور سنجیدگی اس کی شخصیت کا لازمی جزو تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں امریکی مردوں کی طرح کبھی جنسی بھوک نہیں دیکھی، وہ کبھی بے باکی سے مجھ سے نگاہیں دوچار نہ کرتا اور عموماً نظریں جھکا کر وقار کے ساتھ پیش آتا۔ اس حوالے سے میں نے بات کی تو اس نے بتایا کہ اسلام غیر عورتوں سے بے تکلف ہونے سے منع کرتا ہے اور ایک مسلمان کے لیے اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کو چھونا تک حرام ہے۔
حریری کی یہ بات سن کر مجھے بڑی ہی خوش گوار حیرت ہوئی۔ میں نے توعام امریکیوں کی طرح سن رکھا تھا کہ مسلمان بڑے ہوس پرست ہوتے ہیں اور گوری چمڑی کی خوب صورت عورت دیکھتے ہی ان کی رال ٹپکنے لگی ہے اور وہ اسے حاصل کرنے کے لیے ہر جتن کرتے ہیں۔ لیکن حسین حریری تو بالکل ہی مختلف کردار کا مظاہرہ کر رہا تھا اور عورت کے حوالے سے اس نے مجھے جن اسلامی تعلیمات سے متعارف کرایا تھا، وہ اسلام کی بالکل ہی جدا تصویر پیش کر رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے دل میں حسین کے ساتھ ساتھ اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوتا جا رہا تھا۔ میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اسلام کے بارے میں مجھے تعارفی لٹریچر فراہم کرے۔ چنانچہ حسین حریری نے مجھے قرآن کا ایک انگریزی ترجمہ دلا دیا اور جب میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا تو اس کتاب کا اسلوب مجھے اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ میں نے دیکھا کہ قرآن کی تعلیمات بڑی سادہ ہیں اور فطری بھی۔ عیسائیت میں تثلیث کا عقیدہ کبھی میری سمجھ میں نہیں آیا تھا اور یہی حال کفارے اور پیدایشی گناہگار کے نظریے کا تھا، لیکن عام لوگوں کی طرح ان عقیدوں کو میں محض رسمی طور پر بغیر سوچے سمجھے اختیار کیے ہوئے تھی، لیکن اب جو قرآن کو پڑھا تو بالکل ہی نئی دنیا نظر آئی۔ یہاں توحید کا تصور بڑا ہی واضح تھا۔ اللہ ایک ہے، اس کاکوئی شریک اور ساجھی نہیں، ہر طرح کے اختیارات اور کائنات کا اقتدار کلی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کو عقل و فہم اور ضمیر دے کر اس لیے ایک خاص مدت کے لیے دنیا میں بھیجا جاتا ہے، تاکہ اللہ دیکھے کہ وہ یہاں مختلف معاملات میں اپنی مرضی چلاتا ہے یا اللہ کے احکام پر کاربند رہتا ہے۔
یہ عقیدہ بھی مجھے عین عقلی معلوم ہوا کہ موت جسم پر وارد ہوتی ہے، روح نہیں مرتی اور انسان کے ایک ایک لمحے کا حساب محفوظ رکھا جا رہا ہے۔ اورایک وقت آئے گا، جب لازماً اس کے اعمال کا حساب ہو گا اور اس کے مطابق اسے جزا یا سزا ملے گی۔
قرآن کے مطالعے اور حسین حریری سے گفتگو کے نتیجے میں جب اسلام کی حقیقت میری سمجھ میں آ گئی او رمیں نے اسے عین عقل اور وجدان کے مطابق پایا توایک روز میں نے اسے قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ حسین بہت ہی خوش ہوا۔ اس نے مجھے تین بار کلمۂ شہادت پڑھایا۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ کیا، اوراس طرح میں اسلام کی مبارک و مقدس چھتری تلے آ گئی۔ اس نعمت پر میں خدائے قدوس کا جس قدر شکر ادا کروں، کم ہے۔ اس کے بعد جلد ہی میں اور حسین باہم شریک حیات بن گئے۔ میری زندگی ایک نئے انقلاب سے روشناس ہوئی۔
میں نے پنج گانہ نماز شروع کر دی۔ حسین نے مجھے سادہ اور سفید رنگ کے اسکارف خرید دیے۔ میں سرکاری فرائض سے فارغ ہو کر رہائش گاہ پر آتی تو سیاہ گاؤن پہن لیتی اور سر پر سیاہ اسکارف باندھ لیتی۔ اس طرح میں دیکھنے میں بالکل سعودی خواتین کی طرح نظر آتی۔ ایک روز میں سفید اسکارف باندھ کر کھڑی تھی۔ امریکی فوجی ادھر سے ادھر جا رہے تھے۔ ان میں بعض نے تعجب سے کہا: ‘‘ادھر یہ نن کہاں سے آ گئی؟’’ میں نے کمرے میں جا کر آئینے میں دیکھا۔ واقعی اس لباس میں میں ہو بہو ایک نن نظر آ رہی تھی۔ ایک روز سیاہ اسکارف باندھ کر میں حسین کے ساتھ باہر گھوم رہی تھی کہ ہر شخص تجسس سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ تب میں نے ایک شخص کو روک کر کہا ‘‘میں اسٹاف سارجنٹ پیک ہوں، آپ کو مجھ سے کچھ کہنا ہے؟’’ اس نے تعجب سے مجھے دیکھا اور کھسیانا ہو کر چل دیا۔تاہم سرکاری فرائض کے دوران مجھے وہی صحرائی فوجی وردی پہننی پڑتی۔ میں نے اسکارف کے بارے میں متعلقہ افسر سے بات کی، لیکن اس کی اجازت نہ ملی۔
قبول اسلام کے ایک ماہ کے بعد میں دوبارہ امریکہ آ گئی اور فورٹ پریگ کی چھاؤنی میں تعینات ہوئی۔ میں چاہتی تھی کہ ڈیوٹی کے دوران مجھے اسکارف اور لمبا ساتر لباس پہننے کی اجازت مل جائے۔ اس کے لیے میں فوجی ملازمین کے قانونی مشیر جج ایڈووکیٹ جنرل سے ملی، تاکہ اپنے حقوق کے حوالے سے مجھے یہ رعایت حاصل ہو جائے، لیکن موصوف نے میرے اس نوعیت کے کسی حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
اس دوران میں مجھے پتا چلا کہ فوٹ پریگ سٹی میں چند مسلمان خواتین نے ایک اسلامی تبلیغی و سماجی ادارہ قائم کر رکھا ہے، جسے سسٹرز گروپ ( Sisters Group) کہا جاتا ہے۔ میں بھی اس کی ممبر بن گئی اور اس کی سرگرمیوں میں شامل ہونے لگی۔ اس کی ایک رکن خاتون کے خاوند نے ایک اسلامک کمیونٹی سینٹر قائم کر رکھا تھا اور خاصا باخبر آدمی تھا۔ اس خاتون نے اپنے خاوند سے میرے مسئلے کی بات کی اور موصوف نے بھاگ دوڑ کر ایسے قوانین کی نقل حاصل کر لی، جو ہر شہری کو اس کے مذہبی فرائض پر کاربند ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ میں دوبارہ جج ایڈووکیٹ جنرل سے ملی، متعلقہ حقوق کی نقل اسے پیش کر کے اپیل کی اور اس نے مجھے ڈیوٹی کے دوران براؤن رنگ کا اسکارف لینے کی اجازت دے دی۔ اس نے کہا: ‘‘ان قوانین کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اب ‘‘نہیں’’ کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں رہا۔’’اور اس طرح اللہ کے فضل سے میں سرکاری فرائض کے دوران بھی اسکارف پہننے لگی۔
لیکن مسئلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ مجھے فوج میں اور امریکی معاشرے میں رہتے ہوئے بار بار لوگوں کی سوالیہ نظروں اور استفہامیہ گفتگوؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک روز ایک صاحب نے طنزیہ انداز میں کہا: ‘‘تم نے سر پر کیا چیتھڑا باندھ رکھا ہے؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟’’ ‘‘یہ چیتھڑا نہیں ہے جناب! میں مسلمان ہوں اور میرے مذہبی فرائض کا ایک حصہ ہے۔ ایک مسلمان عورت سر کھلا نہیں رکھ سکتی۔’’
وہ بہت حیران ہوا اور متاثر بھی۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اسکارف دیکھ کر تجسس سے رک جاتے ہیں، لیکن میرا رینک دیکھ کر خاموشی سے مرعوب ہو کر چل دیتے ہیں۔ یہ سارے لوگ E-4 یا کم تر رینک کے ہوتے ہیں جبکہ میں E-6 رینک سے تعلق رکھتی ہوں، جو فوج کا قابل لحاظ درجہ ہے۔
اسی طرح ایک بار مجھے کمانڈر سارجنٹ میجر نے انٹرویو کے لیے بلایا۔ یہ میرا سینئر ترین افسر ہے اور NCODP یعنی نان کمیشنڈ آفیسر ڈویلپمنٹ پروگرام کے انچارج کی حیثیت سے ہر ماہ دو تین افسروں سے ملاقات کیا کرتا ہے۔ وہاں بھی میرے اسکارف اور ساتر لباس کی بات چلی تو ایک خاتون آفیسر نے کہا کہ فوج میں اس قسم کے حقوق کی کوئی گنجایش موجود ہے؟ ‘‘کیوں نہیں’’ میں نے کہا: ‘‘دیکھیے، یہاں کبھی بھی اس امر کا لحاظ نہیں رکھا جاتا کہ کس کا کیا مذہب ہے، بلکہ ایک فوجی کی حیثیت سے اس کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ آپ عیسائی مذہب کے فوجیوں کے جذبات کا لحاظ کرتے ہیں۔ لوتھرز کو مطلوبہ حقوق حاصل ہیں اور یہودیوں کا تو خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہودی سپاہیوں اور افسروں کو رعایت حاصل ہے کہ وہ سور نہیں کھاتے، اس لیے وہ میس میں کھانا نہ کھایا کریں اوراپنی خوراک کا الگ انتظام کر لیں، اسی طرح شادی شدہ لوگوں کو حق حاصل ہے کہ وہ شام کو اپنے گھروں میں چلے جایا کریں اورانھیں راشن کے بجائے نقد رقم فراہم کر دی جاتی ہے، تاکہ وہ اپنی مرضی سے اپنی ضرورت کی اشیائے خور و نوش خرید لیں۔ ظاہر ہے جب مذہب اور خاندان کی بنیاد پر مختلف لوگوں کو رعایات حاصل ہیں تو ایک مسلمان کی حیثیت سے مجھے یہ حق کیوں نہیں مل سکتا کہ میں اپنے عقیدے کے مطابق سر کو ڈھانپ سکوں؟’’
میری بات سن کر متعلقہ افسر سوچ میں پڑ گیا اور پھر سر ہلا کر کہنے لگا: ‘‘کیوں نہیں؟ آپ کو اس کا پورا حق حاصل ہے اور اس حق کا تحفظ کریں گے۔’’
٭٭٭