جنسی تعلیم اور جنسی آزادی کے حامی غور فرمائیں ۔ کیا جنسی آزادی مسئلے کا حل ہے؟
امریکی کانگریس میں فوج میں جنسی حملوں کی سماعت کرنے والے ارکان نے کہا ہے کہ حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ مسلح افواج میں ساتھی فوجی خواتین سے جنسی زیادتی کے واقعات بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں۔
کانگریس کی سماعت کرنے والی کمیٹی کی ایک رکن لوریٹا سینچاز کا کہنا ہے کہ سماعت کے دوران اس قسم کے واقعات کی بارے متعدد فون کالز موصول ہوئیں ہیں جن کا زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ فوجی میں شامل خواتین ایک سے زیادہ مرتبہ جنسی زیادتی کا نشا نہ بنایا گیاہے۔
وزارتِ دفاع کی جانب سے سال دو ہزار تین میں ریٹائرڈ فوجی عورتوں سے انٹرویو پر مبنی سروے میں انکشاف ہوا تھا کہ پانچ سو میں سے کوئی تیس فیصد عورتوں کا دوران ملازمت ریپ ( جنسی زیادتی) ہوا یا کرنے کی کوشش کی گئی۔اس سے بھی زیادہ تشویش ناک صورتحال وزارتِ دفاع کے سال دو ہزار نو میں ہونے والے سروے میں سامنے آئی، جو یہ تھی کہ فوج کے اندر ہونے والے جنسی زیادتی کے کوئی نوے فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔
زیادہ تشویش ناک صورتحال وزارت دفاع کے سال دو ہزار نو میں ہونے والے سروے میں سامنے آئی جو یہ تھی کہ فوج کے اندر ہونے والے جنسی زیادتی کے کوئی نوے فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔اس کی تصدیق سال دو ہزار تین میں عراق اور دو ہزار چھ میں افغانستان میں اپنے فرائض انجام دینے والی امریکی فضائیہ میں مارتی ریبائیرو نے کی۔ مارتی کا تعلق ایک فوجی گھرانے سے ہے۔ وہ کہتی ہیں اپنے دادا اور والد کو دیکھ کر فوج میں بھرتی ہونا ان کا ایک خواب تھا مگر اس خواب کی تعبیر کے لیے انھیں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ان کا کہنا تھا کہ فوج میں شمولیت کے بعد اپنے ساتھی فوجیوں کے کردار دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی۔انھوں نے کہا کہ افغانستان میں دو ہزار چھ میں وہ دوران ڈیوٹی اپنی بندوق رکھ کر چند لمحوں کو سگریٹ پینے کے لیے ایک طرف گئیں۔ اور اسی دوران ان کے اپنے ہی ساتھی نے ان پر حملہ کر کے ان کا ریپ کیا۔ مارتی کہتی ہیں کہ رپورٹ کرنے پر کمانڈر کا جواب تھا کہ محاذ جنگ میں ہتھیار ایک طرف رکھنا فرائض سے غفلت کے اس زمرے میں آتا ہے جس پر ان کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔ اور یوں ریپ کرنے والا انتہائی آسانی سے سزا سے بچ گیا۔
امریکی وزارتِ دفاع کے جنسی حملوں سے روک تھام کی شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر کے وائیٹ لی کا کہنا ہے کہ ایک تو کسی بھی عورت کے لیے ریپ رپورٹ کرنا انسانی اور جذباتی سطح پر انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے، دوسرا اس میں اور بھی کئی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں مثلاً کمانڈر کی جانب سے یونٹ کی یک جہتی کے نام پر ایسی رپورٹنگ کی حوصلے شکنی کی جاتی ہے۔ڈاکٹر کے وائیٹ لی کا کہنا ہے فی الوقت ریپ کا شکار ہونے والی فوجی عورتوں کو تفتیشی مراحل سے گزارے بغیر طبی امداد اور کونسلنگ یعنی نفسیاتی علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ تاہم اب ایسی کئی تجاویز زیر غور ہیں جس کے مطابق کمانڈروں کو جنسی تشدد کے مسلے سے بہت زیادہ سنجیدگی سے نمٹنا ہوگا۔انھوں نے کہا حال ہی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کمانڈرز پہلے سے زیادہ کیسز کورٹ مارشل کے لیے بھیج رہے ہیں۔ (بشکریہ ،بی بی سی ڈاٹ کام)