بابا نور

مصنف : احمد ندیم قاسمی

سلسلہ : ادب

شمارہ : مئی 2010

باپ کی محبت کی لازوال کہانی

ہے کوئی ‘‘قاسمی’’ جو ان‘‘ بابانوروں’’ کی کہانی لکھے جنہوں نے ‘‘لال مسجد’’ کی کوکھ سے جنم لیا یا ان کی جو دن رات بم دھماکوں کی اوٹ سے پیدا ہو رہے ہیں۔

‘‘کہاں چلے بابا نور؟’’ ایک بچے نے پوچھا۔ ‘‘بس بھئی۔ یہی ذرا ڈاک خانے تک۔’’ بابا نور بڑی ذمہ دارانہ سنجیدگی سے جواب دے کر آگے نکل گیا۔اور سب بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

صرف مولوی قدرت اللہ چپ چاپ کھڑا بابا نور کو دیکھتا رہا۔ پھر وہ بولا۔ ‘‘ہنسو نہیں بچو۔ ایسی باتوں پر ہنسا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بے پروا ہے۔’’

بچے خاموش ہو گئے اور جب مولوی قدرت اللہ چلا گیا تو ایک بار پھر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

بابا نور نے مسجد کی محراب کے پاس رک کر جوتا اتارا ننگے پاؤں آگے بڑھ کر محراب پر دونوں ہاتھ رکھے اسے ہونٹوں سے چوما، پھر اسے باری باری دونوں آنکھوں سے لگایا۔ الٹے قدموں واپس ہو کر جوتے پہنے اور جانے لگا۔

بچے یوں ادھر اُدھر کی گلیوں میں کھسکنے لگے جیسے ایک دوسرے سے شرما رہے ہیں۔  بابا نور کا سارا لباس دھلے ہوئے سفید کھدر کا تھا۔ سر پر کھدر کی ٹوپی تھی جو سر کے بالوں کی سفیدی کی وجہ سے گردن تک چڑھی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اس کی سفید داڑھی کے بال تازہ تازہ کنگھی کی وجہ سے خاص ترتیب سے اس کے سینے پر پھیلے ہوئے تھے۔ گورے رنگ میں زردی نمایاں تھی، چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی پتلیاں اتنی سیاہ تھیں کہ بالکل مصنوعی معلوم ہوتی تھیں۔

لباس، بالوں اور جلد کی اتنی بہت سی سفیدی میں یہ دو کالے بھنورا نقطے بہت اجنبی سے لگتے تھے۔ لیکن یہی اجنبیت بابا نور کے چہرے پر بچپنے کی سی کیفیت طاری رکھتی تھی۔ بابا نور کے کندھے پر سفید کھدر کا ایک رومال تھا جو لوگوں کے ہجوم سے لے کر مسجد کی محراب تک تین چار بار کندھا بدل چکا تھا۔

‘‘ڈاک خانے چلے بابا نور؟’’ دکان کے دروازے پر کھڑے ہوئے ایک نوجوان نے پوچھا۔‘‘ہاں۔ بیٹا جیتے رہو۔’’ بابا نور نے جواب دیا۔

پاس ہی ایک بچہ کھڑا تھا۔ تڑاک تالی بجا کر چلا گیا۔ ‘‘آ ہاہا۔ بابا نور ڈاک خانے چلا۔’’ ‘‘بھاگ جا یہاں سے۔’’ نوجوان نے بچے کو گھرکا۔ اور بابا نور جو کچھ دور گیا تھا۔ پلٹ کر بولا‘‘ڈانٹتے کیوں ہو بچے کو۔ ٹھیک ہی تو کہتا ہے ڈاک خانے ہی تو جا رہا ہوں۔’’

دور دور سے دوڑ دوڑ کر آتے ہوئے بچے یہاں سے وہاں تک بے اختیار ہنسنے لگے اور بابا نور کے پیچھے ایک جلوس مرتب ہونے لگا مگر آس پاس سے کچھ نوجوان لپک کر آئے اور بچوں کو گلیوں میں بکھیر دیا۔

بابا نور اب گاؤں سے نکل کر کھیتوں میں پہنچ گیا تھا۔ پگڈنڈی مینڈ مینڈ جاتی ہوئی اچانک ہرے بھرے کھیتوں میں اتر جاتی تھی تو بابا نور کی رفتار میں بہت کمی آ جاتی۔ وہ گندم کے نازک پودوں سے پاؤں، ہاتھ او رچولے کے دامن بچاتا ہوا چلتا۔ اگر کسی مسافر کی بے احتیاطی سے کوئی پودا پگڈنڈی کے آر پار لیٹا ہوا ملتا تو بابا نور اسے اٹھا کر دوسرے پودوں کے سینے سے لپٹا دیتا اور جس جگہ کے پودے نے خم کھایا تھا اسے کچھ یوں چھوتا جیسے زخم سہلا رہا ہے۔ پھر وہ کھیت کی مینڈ پر پہنچ کر تیز تیز چلنے لگتا۔

چار کسان پگڈنڈی پر بیٹھے حقے کے کش لگا رہے تھے۔ ایک کسان لڑکی گندم کے پودوں کے درمیان سے کچھ اس صفائی کے ساتھ درانتی سے گھاس کاٹتی پھر رہی تھی کہ مجال ہے جو گندم کے کسی پودے پر خراش آ جائے۔ بابا نورذرا سا رک کر لڑکی کو دیکھنے لگا۔ وہ گھاس کی دستی کاٹ کر ہاتھ کو پیچھے لے جاتی اور گھاس کو پیٹھ پر لٹکتی ہوئی گٹھڑی میں ڈال کر پھر درانتی چلانے لگتی۔ ‘‘بھئی کمال ہے۔’’ بابا نور نے دور ہی سے کسانوں کو مخاطب کیا۔ ‘‘یہ لڑکی تو بالکل مداری ہے۔ اتنی لمبی درانتی چلا رہی ہے۔ چپے چپے پر گندم کا پودا اُگ رہا ہے۔ پر درانتی گھاس کاٹ لیتی ہے اور گندم کو چھوتی تک نہیں۔ یہ کس کی بیٹی ہے؟’’

‘‘تو کس کی بیٹی ہے بیٹا؟’’ بابا نور نے لڑکی سے پوچھا۔لڑکی نے پلٹ کر دیکھا تو ایک کسان کی آواز آئی ‘‘میری ہے بابا۔’’ ‘‘تیری ہے؟’’ بابا نور کسانوں کی طرف جانے لگا۔ ‘‘بڑی سیانی ہے بڑی اچھی کسان ہے، خدا حیاتی لمبی کرے۔’’‘‘آج کہاں چلے بابا؟’’ لڑکی کے باپ نے پوچھا۔ ‘ڈاک خانے؟’’ دوسرے نے پوچھا۔ ‘‘ہاں!’’ بابا نور ان کے پاس ذرا سا رک کر بولا۔ ‘‘میں نے کہا پوچھ آؤں شاید کوئی چٹھی وٹھی آئی ہو۔’’

چاروں کسان خاموش ہو گئے۔ انھوں نے ایک طرف ہٹ کر پگڈنڈی چھوڑ دی اور بابا نور آگے بڑھ گیا۔ ابھی وہ کھیت کے پرلے سرے پر پہنچا تھا کہ لڑکی کی آواز آئی۔ ‘‘لسی پیو گے بابا؟’’بابا نور نے مڑ کر دیکھا اور گاؤں سے نکلنے کے بعد پہلی بار مسکرایا۔ ‘‘پی لوں گا بیٹا۔’’ پھر ذرا سا رک کر بولا۔ ‘‘پر دیکھ ذرا جلدی سے لا دے۔ ڈاک کا منشی ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتا ہے، چلا نہ جائے۔’’

لڑکی نے گھاس کی لٹکتی ہوئی گٹھڑی کندھے سے اتار کر وہیں کھیت میں رکھی پھر وہ دوڑ کر مینڈ پر اگی ہوئی ایک بیری کے پاس آئی، تنے کی اوٹ میں پڑے ہوئے برتن کو خوب چھلکایا۔ ایلومونیم کا کٹورا بھرا اور لپک کر بابا نور کے پاس جا پہنچی۔ بابا نور نے ایک ہی سانس میں سارا کٹورا پی کر رومال سے ہونٹ صاف کیے بولا۔ ‘‘تیرا نصیبہ اسی لسی کی طرح صاف ستھرا ہو بیٹا۔’’ اور آگے بڑھ گیا۔

مدرسے کے برآمدے میں ڈاک کا منشی بہت سے لوگوں کے درمیان بیٹھا اپنے روزانہ کے فارم پر کر رہا تھا اور دیہاتیوں کو معلومات سے بھی مستفید کر رہا تھا ‘‘میرا سالا وہاں کراچی میں چپڑاسی کا کام کرتا تھا جب وہ مرا ہے تو مجھے فاتحہ کے لیے کراچی جانا پڑا۔ بات یہ ہے کہ دوستو ایک بار کراچی ضرور دیکھ لو چاہے وہاں گدھا گاڑی میں جانا پڑے۔ اتنی موٹر کاریں ہیں کہ ہمارے گاؤں میں تو اتنی چڑیاں بھی نہیں ہوں گی۔ ایک ایک موٹر پر وہ وہ عورت ذات بیٹھی ہے کہ اللہ دے اور اللہ ہی لے۔ بندہ نہ لینے میں ہے نہ دینے میں۔ بندوں کو پریوں سے کیا لینا دینا۔ اللہ کی قدرت یاد آ جاتی ہے، نماز پڑھنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ ایک سیٹھ کہہ رہا تھا کہ بس ایک اور بڑی لام لگ جائے تو کراچی ولایت بن جائے گی۔ کہتے ہیں کتنی بار لام لگنے لگی پر لگتے لگتے رہ گئی۔ کوئی نہ کوئی بیچ میں ٹانگ اڑا دیتا ہے۔ کہتے ہیں لام میں لوگ مریں گے۔ کوئی پوچھے لام نہ لگی تو جب بھی تو لوگ مریں گے۔ لام میں گولے سے مریں گے۔ ویسے بھوک سے مر جائیں گے۔ ٹھیک ہے نا۔’’

‘‘ٹھیک ہی تو ہے۔’’ ایک دیہاتی بولا۔ ‘‘پر منشی جی پہلے یہ بتاؤ کہ لفافہ اکنی کا کب کرو گے۔’’منشی نے اسے کچھ سمجھانے کے لیے سامنے دیکھا تو اس کی نظر ایک نقطے پر جیسے جم کر رہ گئی، اس کا رنگ فق ہو گیا اور وہ بجھی ہوئی آواز میں بولا ‘‘بابا نور آ رہا ہے۔’’

سب لوگوں نے پلٹ کر دیکھا اور پھر سب کے چہرے کملا گئے۔بچے مدرسے کے دروازوں اور کھڑکیوں میں جمع ہو کر ‘‘بابا نور۔ بابا نور’’ کی سرگوشیاں کرنے لگے اور منشی نے انھیں ڈانٹ کر اپنی اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔

سفید براق بابا نور سیدھا مدرسے کے برآمدے کی طرف آ رہا تھا اور لوگ جیسے سہمے جا رہے تھے۔برآمدے میں پہنچ کر اس نے کہا ‘‘ڈاک آ گئی منشی جی؟’’‘‘ آ گئی بابا۔’’ منشی نے جواب دیا۔ ‘‘میرے بیٹے کی چٹھی تو نہیں آئی؟’’ بابا نے پوچھا۔‘‘نہیں بابا۔’’ منشی بولا۔

بابا نور چپ چاپ واپس چلا گیا۔ دور تک پگڈنڈی پر ایک سفید دھبا رینگتا ہوا نظر آتا رہا اور لوگ دم بخود بیٹھے اسے دیکھتے رہے۔

پھر منشی بولا۔ ‘‘آج دس سال سے بابا نور اسی طرح آ رہا ہے، یہی سوال پوچھتا ہے اور یہی جواب لے کر چلا جاتا ہے، بے چارے کو یہ یاد ہی نہیں رہا کہ سرکار کی وہ چٹھی بھی تو میں نے ہی اسے پڑھ کر سنائی تھی جس میں خبر آئی تھی کہ اس کا بیٹا برما میں بم کے گولے کا شکار ہو گیا جب سے وہ پاگل سا ہو گیا ہے۔ پر خدا کی قسم ہے دوستو کہ اگر آج کے بعد وہ پھر بھی میرے پاس یہی پوچھنے آیا تو مجھے بھی پاگل کر جائے گا۔’’

٭٭٭