دعا کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں

مصنف : انیس الرحمن اعظمی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2010

دعا ان اہم عبادات میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے۔ اس نے اس کی قبولیت کا وعدہ کیا ہے اور اس سے اعراض کرنے والوں کو وعید سنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وََقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ. (المومن: ۶۰)

‘‘تمھارے رب نے کہا: تم مجھ سے دعا کرو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ یقین مانو! جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں، وہ ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔’’

دعا عبودیت کی علامت ہے۔ اس کے وسیلے سے بندہ اللہ کی توجہ طلب کرتا اور اس سے مدد اور رحمت حاصل کرتا ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنی حاجت کی درخواست اور بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ غیر اللہ کی طاقت و قوت سے برأت کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ ہمیں قرآن مجید کے آغاز میں بھی دعا ملے گی اور اختتام میں بھی۔ سورۂ فاتحہ میں بندہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کے ساتھ اس کے سامنے اپنی درخواست پیش کرتا ہے۔ اسی طرح معوذتین میں بھی وہ اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے۔ فضیلت ِ دعا کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: الدعا فہو العبادۃ. (ترمذی: کتاب الدعوات: ۳۳۷)

‘‘دعا سراسر عبادت ہے۔’’

دعا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیس شیء اکرم علی اللّٰہ تعالیٰ من الدعاء. (ابن ماجہ: ۳۸۲۹)

‘‘کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے بہتر نہیں ہے۔’’

دعا سے مسلمانوں کے باہمی تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ ارشادِ باری ہے: وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْ مِنْم بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ. (الحشر: ۱۰)

‘‘ اور جو ان کے بعد آئیں وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں۔’’

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الامور التی لا تنقطع عن المیت بعد موتہ ومنہا الدعا. (مسلم، کتاب الوصیۃ، ۱۶۳۱)

‘‘وہ چیزیں جو مرنے کے بعد میت سے منقطع نہیں ہوتیں، ان میں ایک دعا بھی ہے۔’’

دعا ایسی عبادت ہے، جس کے لیے نہ کوئی وقت متعین ہے، نہ حالت۔ چنانچہ انسان کسی بھی وقت بلند آواز سے یا آہستہ، سفر، حضر، صحت، مرض غرض کسی بھی حالت میں دعا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اﷲَ مُخْلِصِینَ لَہُ الْدِّیْن. (العنکبوت: ۶۵)

‘‘ پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں۔ اس کے لیے عبادت کو خالص کر کے۔’’

سختی ، آزمایش اورمصیبت کے ازالے کے لیے دعا کا التزام کرنا چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے وطن سے ہجرت کرتے وقت فرمایا تھا: وَاَدْعُوْا رَبِّیْ عَسٰٓی اَلَّآ اَکُوْنَ بِدُعَآءِ رَبِّیْ شَقِیًّا.(مریم: ۴۸)

‘‘میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہیں رہوں گا۔’’

حضرت زکریاؑ نے فرمایا تھا: وَّ لَمْ اَکُنْ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا. (مریم ۴)

‘‘کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا۔’’

اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی تعریف کی ہے، جو اس سے دعا کرتے ہیں۔ ارشاد ہے: اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَہَبًاط وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ. (الانبیاء ۹۰)

‘‘یہ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ، طمع، ڈر اور خوف سے پکارتے تھے، اس حال میں کہ ان پر خضوع و خشوع کی کیفیت طاری ہوتی تھی۔’’

بندہ دعا سے اس عمل کا ثواب حاصل کر لیتا ہے، جس کو اس نے انجام نہیں دیا۔ نبیؐ نے فرمایا: من سال اللّٰہ بصدق بلّغہ اللّٰہ منازل الشہداء وان مات علی فراشہ. (مسلم کتاب الامارہ، ۱۹۰۹)

‘‘جس نے صدق دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے شہادت کی تمنا کی اللہ تعالیٰ اس کو شہیدوں کے درجے تک پہنچا دے گا، اگرچہ اس کی موت بستر پر ہو۔’’

دعا کے آداب

دعا کے آداب سے متعلق مختلف اقوال منقول ہیں۔ امام غزالیؒ کہتے ہیں کہ دعا کے آداب دس ہیں۔ (احیاء علوم الدین، مطبع بیروت، ۱/ ۳۰۴) اور یہی قول امام النووی سے بھی منقول ہے۔ (کتاب الاذکار، ص ۴۲۰) وہ آداب مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ محترم دنوں کا اہتمام کیا جائے۔ مثلاً یوم عرفہ۔ نبی کریمﷺ سے منقول ہے: خیر الدعاء دعاء یوم عرفۃ. (ترمذی، کتاب الدعوات: ۳۴۸۵)

‘‘سب سے بہتر دعا وہ ہے جو عرفہ کے دن کی جائے۔’’

جمعہ کے دن بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوم الجمعۃ لا یوجد مسلم سال اللّٰہ عز وجل الا اتاہ اللّٰہ فالتمسوہا اخر ساعۃ بعد العصر. (ابو داؤد، کتاب الصلوٰۃ ۱۰۴۸)

‘‘جمعہ کے دن جو شخص بھی اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو عطا کرتا ہے۔ لہٰذا تم اس گھڑی کو آخری ساعت میں عصر کے بعد تلاش کرو۔’’

اسی طرح جب ایک تہائی رات گزر جائے تہجد کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ینزل ربنا کل لیلۃ الی السماء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الآخر یقول من یدعونی فاستجیب لہ من یسالنی فاطیہ من یستغفرنی فاغفر لہ. (البخاری، کتاب الجمعۃ: ۱۱۴۵)

‘‘میرا پروردگار ہر رات، آسمانِ دنیا پر اترتا ہے، جس وقت تہائی رات باقی رہ جاتی ہے اور فرماتا ہے کون مجھ سے دعا کرتا ہے، تاکہ میں اس کی دعا کو قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اس کی درخواست کو پورا کروں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے تاکہ اس کی مغفرت کروں۔’’

۲۔ قبولیت دعا کے لیے سب سے بہتر حالت سجدے کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اقرب ما یکون العبد من ربہ وہو ساجد فاکثروا الدعاء. (مسلم، کتاب الصلوٰۃ: ۴۸۲)

‘‘بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے، تو اس وقت خوب دعا مانگو۔’’

اسی طرح اذان کے وقت او رمعرکہ آرائی کے وقت جبکہ لوگ گتھم گتھا ہوں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شنان لا تردان او کلما تردان الدعاء عند النداء وعند البأس حین یلحم بعضہم بعضا. (ابو داؤد، کتاب الجہاد، ۲/ ۴۸۳)

‘‘دو چیزیں رد نہیں کی جاتیں، یا بہت کم رد کی جاتی ہیں: دعا اذان کے وقت اور لڑائی کے وقت جبکہ فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوں۔’’

۳۔ وضو کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی مانگا۔ اس کے بعد فرمایا: ‘اللہم اغفر لعبد ابی عامر ’ (اے اللہ، ابو عامر کے غلاموں کی مغفرت فرما)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ اس کو اپنی مخلوق میں سے بہت سے لوگوں سے بلند درجہ عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے بھی درخواست کی کہ میرے لیے بھی مغفرت کی درخواست کیجیے تو آپؐ نے فرمایا: اے اللہ ، عبد اللہ بن قیس کے گناہوں کو معاف فرما دے، اس کو قیامت کے روز ایک محترم جگہ میں داخل فرما۔ (بخاری، کتاب المغازی: ۴۳۲۳)

۴۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہو کر دعا مانگا کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے:

‘‘حضرت طفیل بن عمرو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا قبیلہ دوس کے لوگ ایمان نہیں لا رہے ہیں آپ ان پر بددعا کر دیجیے۔ آپ نے قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی: ‘اللہم اہد دوسا’ ‘‘اے اللہ! قبیلہ دوس کے لوگ کو ہدایت دے۔’’ (الادب المفر: ۶۱۱)

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان اللّٰہ حی کریم یستحی اذ رفع الرجل الیہ یدیہ ان یردہما صغرا خائبتین. (ابن ماجہ، کتاب اللہ الدعا: ۳۸۶۵)

‘‘بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ رہنے والا کریم ہے۔ اس کو شرم آتی ہے اس بات سے کہ آدمی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگے اس کو خالی ہاتھ لوٹا دے۔’’

۵۔ دعا کے اندر تضرع و خشوع ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً. (الاعراف: ۲۰۵)

‘‘آپ اپنے رب کو یاد کریں اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ۔’’

۶۔ دعا کی قبولیت کا یقین ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے: لا یقل احدکم : اللہم اغفرلی ان شئت، ارحمنی ان شئت، وارزقنی ان شئت. (بخاری، کتاب التوحید: ۷۴۷۷)

‘‘تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر تو چاہے تو میری مغفرت فرما، اور مجھ پر رحم فرما اگر تو چاہے ، اگر تو چاہے تو مجھے رزق دے۔’’

امام نووی نے سفیان بن عیینہ کا اثر اپنی کتاب الاذکار (ص ۴۲۱) سے نقل کیا ہے: ‘‘تم میں سے کسی کو ہر گز دعا سے نہ روکے وہ چیز جس کو وہ اپنے بارے میں جانتا ہے۔ یعنی گناہ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس جو سب سے بدترین مخلوق ہے، اس کی بھی دعا قبول کر لی۔’’

۷۔ دعا کی قبولیت میں جلدی نہ کی جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لا یزال یستجاب للعبد ما لم یستعجل، قیل یا رسول اللّٰہ! ما الاستعجال؟ قال: یقول: قد دعوت، وقدر دعوت فلم ار یستجیب لی، فتعسر عند ذلک ویدع الدعاء.

‘‘بندے کی ہر حال میں دعا قبول کی جاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ جلدی نہ کرے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! جلدی سے کیا مراد ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ بندہ کہتا ہے میں نے دعا کی، میں نے دعا کی، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ قبول نہیں ہو رہی ہے۔ اس طرح وہ تھک ہار کر دعا چھوڑ دیتا ہے۔’’

۸۔ دعا قبول ہونے کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی جائے، اس کی کبریائی بیان کی جائے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے۔ فضالہ بن عبیدؓ بیان کرتے ہیں: ‘‘ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی پھر یوں دعا کی ‘اللہم اغفرلی وارحمنی’ ‘‘اے اللہ! میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔’’ آپؐ نے فرمایا: اے نماز پڑھنے والے، تو نے جلدی کر دی۔ جب تم نماز پڑھ کر فارغ ہو جاؤ تو بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرو، اس طریقے سے جس کا وہ اہل ہے، پھر مجھ پر درود پڑھو، پھر دعا کرو۔’’ (ابو داؤد، کتاب الصلوٰۃ، ۱۴۸۱)

۹۔ دعا کی قبولیت کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ رزق حلال کا اہتمام کیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ایہا الناس ان اللّٰہ طیب لا یقبل الا طیبا. (مسلم: کتاب الزکوٰۃ: ۱۰۱۵)

‘‘اے لوگو! بلاشبہ اللہ تعالیٰ پاک ہے، وہ صرف پاک ہی چیزوں کو قبول کرتا ہے۔’’

وہب بن منبہؒ نے فرمایا: من سرہ ان یستجیب اللّٰہ دعوتہ فلیطب طعمتہ. (ابن رجب، جامع العلوم والحکم ۱/ ۱۵۹)

‘‘جو شخص چاہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے تو اسے چاہیے کہ پاکیزہ غذا کھائے۔’’

۱۰۔ دعا کے الفاظ میں مجمع بندی نہ ہو یعنی تکلف ایک وزن پر الفاظ نہ استعمال کیے جائیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ‘‘میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ دیکھا اور آپؐ کے اصحاب کا زمانہ بھی دیکھا ہے، وہ اس سے پرہیز کرتے تھے۔’’ (بخاری: ۲۳۳۷)

جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں

والدین کی دعا اپنی اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے، اسی طرح مسافر کی دعا بھی بارگاہ ایزدی میں رد نہیں کی جاتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ثلاث دعوات یستجاب لا شک فیہن، دعوۃ المظلوم ودعوۃ المسافر ودعوۃ الوالد علی ولدہ. (ابو داؤد، کتاب الصلوٰۃ: ۱۵۳۶)

‘‘تین دعائیں قبول ہوتی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے۔ وہ مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اپنی اولاد کے حق میں والد کی دعا۔’’

روزہ دار کی دعا افطار کے وقت قبول ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان للصائم عند فطرۃ الدعوۃ ما ترد. (ابن ماجہ، کتاب الصیام، ۱۷۵۳)

‘‘ روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی۔’’

اذان اور اقامت کے درمیان بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الدعا یر یرد بین الاذان والاقامۃ. (ترمذی: کتاب الصلوٰۃ ۱۷۵۳)

‘‘اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی۔’’

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طریقے سے دعا مانگنے اور اس کے آداب کو ملحوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭٭٭