ہمارے مسائل اور ان کا حل

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : مئی 2010

۲۶ ستمبر ۲۰۰۹ء بعد نماز مغرب جماعت اسلامی ہند میں عید ملن کا پروگرام تھا۔ اس میں مسلم تنظیموں کے نمائندوں، ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے مذہبی رہنماؤں کے علاوہ سرکردہ سیاسی شخصیات، صحافی، علما اور دانش ور حضرات نے خاصی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر راقم نے مختصر سا خطاب کیا۔ اسی کو کسی قدر تفصیل سے مرتب کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ (جلال الدین)

بزرگو اور دوستو! ابھی ۲۱ ستمبر کو ہم نے عید الفطر منائی ہے، اس کی یاد تازہ کرنے کے لیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔ میں برادران ملت کو تہ دل سے عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے رمضان المبارک میں مسلسل ایک ماہ کے روزے رکھے، عبادت و ریاضت میں اپنا وقت صرف کیا اور غریبوں اور ناداروں کی اپنی حد تک مدد بھی کی۔ اللہ تعالیٰ ان خدمات کو قبول فرمائے۔ مجھے بڑی مسرت ہو رہی ہے کہ ہماری اس خوشی میں اس وقت بہت سے غیر مسلم بھائی بھی شریک ہیں۔ اس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ اس طرح کی مجلسیں ایک دوسرے کو قریب کرنے، ان کے درمیان پائے جانے والے فاصلوں کو کم کرنے اور باہم افہام و تفہیم میں معاون ہوتی ہیں۔

رمضان کا مہینا تربیت کا مہینا ہے۔ اس میں آدمی اپنی طبعی ضروریات، خواہشات اور جذبات پر قابو پانے اور انھیں کنٹرول کرنے کی تربیت حاصل کرتا ہے۔ یہ ایک طرح کا ضبط نفس ہے۔ اسی طرح اس مہینا میں آدمی تھوڑی سی تکلیف برداشت کر کے کمزوروں اور ناداروں کے دکھ درد محسوس کرتا ہے اور ان کی ممکنہ مدد کی کوشش بھی کرتا ہے۔ ضبط نفس اور دوسروں کے کام آنے کا جذبہ صحیح معنی میں پیدا ہو جائے تو انسان کی سیرت و کردار میں انقلاب آ جائے، خود غرضی کی جگہ ایثار و قربانی کے جذبات پیدا ہو جائیں اور ملک کا نقشہ ہی تبدیل ہو جائے۔

محترم حاضرین! یہ ملک ہم سب کا ہے، اس کا نفع نقصان ہم میں سے ہر فرد کا نفع نقصان ہے۔ اس کی ترقی اور خوش حالی میں ہم سب کی ترقی اور خوش حالی ہے، اس کا زیاں کسی ایک کا نہیں ہر ایک کا زیاں ہے۔ اس معاملہ میں ہم سب مخلص ہیں۔ کسی فرد یا گروہ کے خلوص پر شک و شبہ کی کوئی وجہ نہیں ہے، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خود کو ملک کا خیر خواہ اور دوسرے کو بد خواہ کہے، یا کسی کو ملک کا وفادار اور دوسرے کو غیر وفادار قرار دے۔ ہم سب اس کے وفادار ہیں اور اپنے اپنے ڈھنگ سے اس کی فلاح اور ترقی چاہتے ہیں۔

بڑی خوشی کی بات ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے ملک نے معیشت، صنعت و حرفت، زراعت، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے مختلف میدانوں میں کافی ترقی کی ہے، اس کے پاس افرادی طاقت بھی ہے اور وسائل بھی ہیں۔ آج اسے ترقی پذیر ملکوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ جلدہی وہ ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں اپنی جگہ بنا لے گا، لیکن اس کے ساتھ اس ملک میں بعض ایسی کمزوریاں ہیں جو اسے صحیح معنی میں ترقی کی راہ پر گامزن ہونے نہیں دیتیں اور داخلی طور پر اسے کمزور کر رہی ہیں۔ یہ کمزوریاں ذہنی، فکری، اخلاقی، سماجی، تہذیبی، سیاسی ہر نوعیت کی ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ملک کے پاس ان پر قابو پانے کی کوئی تدبیر نہیں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی بہت زیادہ فکر بھی اسے نہیں ہے۔ حالانکہ ملک اگر اپنی ان داخلی کمزوریوں پر قابو پا لے تو وہ دنیا کی قیادت کر سکتا ہے۔ یہاں بعض کمزوریوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

۱۔ ہمارے ملک کا آئین جمہوری ہے۔ اس کی رو سے ملک کے تمام باشندوں کے مساوی حقوق ہیں۔ وہ ان کے درمیان ذات پات، مذہب، پیشہ، علاقہ اور زبان کی بنیاد پر فرق نہیں کرتا۔ لیکن عملاً یہ حقوق بعض طبقات کو حاصل ہیں اور بعض طبقات کے لیے وہ کاغذ کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ جن طبقات کو یہ حقوق حاصل ہیں ملک کے وسائل ان کے ہاتھ میں ہیں، اس کے نظم و نسق کے تمام شعبوں پر ان کی مضبوط گرفت ہے اور وہ ترقی کر رہے ہیں۔ لیکن ملک کی اقلیتوں اور کمزور طبقات کو یہ شکایت ہے کہ ان کا واجبی حصہ (Due Share) ان کو نہیں مل رہا ہے اور ان کی پس ماندگی دور نہیں ہو رہی ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے اس بات کو پسند نہیں کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی دوسرے طبقات کی طرح ترقی کریں اور ان کی صف میں کھڑے ہو جائیں۔ مسلمان جو اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت، بلکہ دوسری بڑی اکثریت ہیں، ان کے ساتھ ہر معاملہ میں تعصب برتا اور انھیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے اعداد و شمار کی روشنی میں ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی آبادی کے لحاظ سے تعلیم، ملازمت، معیشت جیسے بہت سے میدانوں میں دوسری اکائیوں سے بہت پیچھے ہیں۔ دستوری تحفظات کے باوجود انھیں جان و مال کا خطرہ لاحق رہتا ہے، انھیں پرسنل لا کی حفاظت اور دینی تشخص کو باقی رکھنے کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے۔ اتنی بڑی اقلیت کا اس حال میں ہونا خود اس کے لیے اور پورے ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ اس سے ملک بہ حیثیت مجموعی ترقی نہیں کر سکتا۔

۲۔ اس ملک میں صدیوں سے بلکہ ہزارہا سال سے طبقاتی نظام قائم ہے۔ کچھ لوگ پیدائشی طور پر اونچی ذات (Upper Caste) کے اور کچھ نیچی ذات (Lower Caste) کے سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ایک طبقہ میں برتری اور ایک طبقہ میں کم تری کا احساس بری طرح پیوست ہو چکا ہے۔ اسی بنیاد پر وہ اپنا رویہ متعین کرتا ہے۔ انسانوں کے درمیان اس فرق و امتیاز کو کسی دلیل سے جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی حالات کے زیر اثر اسے ختم کرنے کی بعض سطحی تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ جو لوگ اعلیٰ ذات کے خیال کیے جاتے ہیں، وہ ان لوگوں کی تقریبات میں شریک ہو جاتے ہیں یا ان کے گھر چلے جاتے ہیں جنھیں پست ذات تصور کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ان کے چند ایک افراد کو سیاسی نمائندگی بھی دی جاتی ہے، لیکن طبقاتی فرق کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ سماجی اور معاشرتی سطح پر انھیں مساوی درجہ حاصل نہیں ہے۔ بڑی بات یہ کہ ہماری سیاست میں اس کا غیر معمولی عمل دخل ہے۔ ذات برادری کی بنیاد پر ملکی سیاست ہو رہی ہے۔ کوئی اونچی ذات کی نمائندگی کرتا ہے اور کوئی پست طبقات کا ترجمان ہے۔ بساط سیاست پر وہ شخص نمایاں ہوتا اور قیادت کا مقام حاصل کر لیتا ہے جس کے ساتھ کوئی برادری ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس فرق کو مٹانے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔

۳۔ اس میں شک نہیں کہ ملک میں تعلیم عام ہو رہی ہے۔ بڑی تیزی سے اسکول اور کالج کھل رہے ہیں۔ نئی نئی یونیورسٹیاں قائم ہو رہی ہیں اور ان میں تعلیم پانے والوں کا اوسط بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ سب بظاہر بہت خوش آئند ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تعلیم حصول معاش کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ نہ تو طالب علم کے ذہن میں اور نہ سرپرستوں کے ذہن میں اس کا کوئی دوسرا مقصد ہوتا ہے۔ حالانکہ تعلیم کا ایک اہم اور بنیادی مقصد اخلاق و کردار پیدا کرنا اور طالب علم کو اچھا شہری بنانا ہے۔ یہ مقصد اس تعلیم میں مفقود ہے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص سے اس کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک کو بنانے اور سنوارنے میں اپنا حصہ ادا کرے گا، لیکن صورت حال یہ ہے کہ ملک کے بگاڑ میں ایک عام اور ناخواندہ شخص سے زیادہ تعلیم یافتہ آدمی کا حصہ نظر آتا ہے۔ کرپشن، رشوت، بدعنوانی، غیر قانونی ذرائع سے دولت جمع کرنا، فریب، جھوٹ اور لالچ کے ذریعہ اقتدار میں آنا اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھانا جیسے جرائم میں تعلیم یافتہ اور اصحاب مناصب ہی سب سے آگے ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس کی اصلاح کی فکر نہ حکومت کو ہے اور نہ تعلیمی اداروں کو۔

۴۔ ملک کا ایک بڑا مسئلہ اخلاقی زوال ہے۔ اخلاقی قدریں بری طرح پامال ہو رہی ہیں، بد اخلاقی اور بے حیائی عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، اخبارات و رسائل پورا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اسے پھیلانے میں شب و روز مصروف ہے۔ بجائے اس کے کہ شہوانی جذبات کنٹرول کرنے کی تعلیم و تربیت دی جائے اور جنسی آوارگی کے نقصانات واضح کیے جائیں، انھیں بڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ آزاد جنسی تعلقات میں کوئی برائی نہیں محسوس کی جاتی، بلکہ اسے پسند کیا جانے لگا ہے۔ ہمارے دانش کدے، تجربہ گاہیں، تعلیمی اور صنعتی مراکز، دفاتر اور آفس سب اس سے بری طرح متاثر ہیں۔ تعلیمی نصاب میں بھی یہ گندگی آ رہی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم جنسی (Homosexuality) کو اب سند جواز فراہم کی جا رہی ہے۔ کیا کسی مذہبی ملک میں اس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ جنسی بے راہ روی جوان نسل کی جسمانی اور ذہنی قوتوں ہی کو نقصان نہیں پہنچا رہی ہے، بلکہ خاندانی نظام کو، جو کسی بھی سماج کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، تباہ کر رہی ہے۔

۵۔ ملکی معیشت بہ ظاہر ترقی کر رہی ہے، لیکن اس میں استحصال کا پہلو غالب ہے، اس میں سرمایہ دار طبقہ کے لیے خوب مواقع ہیں۔ مارکیٹ پر اس کا قبضہ پہلے بھی تھا، اب اور مضبوط ہو گیا ہے۔ جو طبقہ مالی لحاظ سے کمزور ہے، اس کے لیے اس میں مواقع کم ہیں۔ کھلے بازار کے نام پر ہماری معیشت مغرب کے قبضہ میں چلی گئی ہے۔ ہم خوش ہیں کہ ہمیں ملازمتیں حاصل ہو رہی ہیں اور ہماری قوت خرید بڑھ رہی ہے، لیکن اس پہلو سے غافل ہیں کہ مغرب اپنے پورے کلچر کے ساتھ ہمارے بازاروں میں موجود ہے۔ اس سے ہماری اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں اور ہم اسی بے حیائی کی راہ اختیار کر رہے ہیں جس پر مغرب گامزن ہے۔ اور ان ہی نتائج ِ بد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن سے مغرب دو چار ہے۔

۶۔ ہمارے ملک میں بہت سے مذاہب ہیں۔ یہاں ہندو مت ہے، اسلام ہے، عیسائیت ہے، جین مت، بدھ مت اور سکھ مت ہے۔ اور بھی بہت سے چھوٹے بڑے مذاہب ہیں۔ اس ملک کی ایک ناقابل لحاظ آبادی کو چھوڑ کر پورا ملک ان مذاہب کے ماننے والوں کا ہے۔ ان میں ہر ایک کی اپنی فلاسفی ہے۔ خدا کے وجود، اس کی ذات و صفات، کائنات اور خدا اور انسان کے تعلق جیسے مسائل میں ان کے درمیان بنیادی اختلافات ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ تمام مذاہب کو ختم کر کے ایک مذہب بنا دیا جائے۔ البتہ ان کے درمیان بہت سی مشترک قدریں بھی ہیں، جن کی بنیاد پر وہ مختلف ملکی اور سماجی امور میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ عملی دنیا میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ ان مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں، لیکن ان کے درمیان بڑی غلط فہمیاں اور دوریاں ہیں۔ یہ ختم ہونی چاہییں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر ایک کے بنیادی فکر اور مسائل حیات میں اس کے موقف کو اچھی طرح سمجھا جائے اور اس کی صحت و عدم صحت کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ اپنے طور پر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کر لی جائے اور اس کے مطابق رویہ اختیار کیا جائے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس سے مذہبی بحثیں چھڑ جائیں گی، لیکن ان بحثوں کے نتیجہ میں ہر مذہب کا صحیح موقف واضح ہو جائے اور ملک کی اکثریت ایک دوسرے کو بہتر طریقہ سے سمجھنے لگے تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔

۷۔ مغرب نے مذہب کو انفرادی معاملہ قرار دے رکھا ہے، اس کے نزدیک کوئی شخص چاہے تو اپنی ذاتی زندگی میں مذہب کو اختیار کر سکتا ہے، لیکن اجتماعی معاملات مذہب کی مداخلت سے آزاد ہوں گے۔ چنانچہ تعلیم، تہذیب، معاشرت، معیشت، سیاست ہر شعبۂ حیات کو ا س نے مذہب سے دور رکھا ہے، بلکہ اسے گوارا کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ ہم نے بھی سیکولرزم کے نام پر مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر رکھا ہے۔ یہ کوئی معقول رویہ نہیں ہے۔ اگر مذہب ہمارے مسائل حل کرتا ہے اور ہمارے سماج کو بہتر رخ دیتا ہے تو اس پر لازماً غور ہونا چاہیے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سیکولرزم کا نام لے کر اسے رد کر دینا دانش مندی نہ ہو گی۔ اسلام کے ایک طالب علم کی حیثیت سے عرض ہے کہ وہ اس معاملہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اس کی بعض اصولی تعلیمات یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

۱۔ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق، مالک، معبود اور فرماں روا ہے۔ وہ اپنے پیغمبروں کے واسطہ سے ہمیشہ راہ ہدایت دکھاتا ہے اور آخرت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تمام انسانوں کو اس کی ہدایت و رہنمائی ملی ہے۔ انسان کا فرض ہے کہ اسی ایک خدا کی عبادت کرے اور اس کے احکام اور ہدایات کا پابند رہے ، ورنہ اس کی دنیا کا رخ بھی غلط ہو گا اور آخرت میں بھی اسے برے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔

۲۔ اسلام انسانی حقوق کا واضح تصور دیتا ہے۔ اس کے ہاں فرد، خاندان، معاشرے کے کمزور افراد، اپنوں اور غیروں کے حقوق کا ایک سسٹم ہے۔ وہ ہر ایک کو ان کے احترام کا پابند بناتا ہے اور کسی بھی صورت میں ان کی پامالی کی اجازت نہیں دیتا۔

۳۔ وہ وحدت بنی آدم کے نمائندے کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے اور یہ تصور دیتا ہے کہ سارے انسان ایک خدا کے بندے اور ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ اس لیے بہ حیثیت انسان سب برابر ہیں، ان میں خاندان، قبیلے، رنگ و نسل یا کسی اور بنیاد پر فرق و امتیاز ناروا اور ناقابل برداشت ہے۔ ان میں برتر وہ ہے جو اپنے اخلاق و کردار اور تقویٰ و خدا ترسی میں آگے ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی قوم اور نسل اور کسی بھی علاقہ اور خطۂ زمین سے ہو۔

۴۔ وہ معاشرے کی تعمیر میں اخلاق و کردار کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے۔ انسان کے اندر جھوٹ، مکر و فریب، خیانت، بد عہدی اور غلط کاری کی جگہ صداقت، راستبازی، امانت و دیانت، ایفائے عہد اور عفت و عصمت جیسی صفات پیدا کرتا ہے۔ وہ ایسی فضا پیدا کرتا ہے کہ معاشرہ سے بد اخلاقی ختم ہو اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کو فروغ حاصل ہو۔

۵۔ انسان اپنے مادی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ فطری طور پر روحانی سکون بھی چاہتا ہے۔ اسلام نے ان دونوں کو اہمیت دی ہے۔ وہ ایسا نظام قائم کرتا ہے جس میں ہر ایک کی مادی ضروریات پوری ہوں اور وہ غربت و افلاس اور فقر و فاقہ کی زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہو۔ ا س کے ساتھ اپنے خالق و مالک سے تعلق کے ذریعہ وہ روحانی سکون بھی حاصل کرے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے مسائل سیاسی کوششوں سے حل نہیں ہو رہے ہیں۔ کیا ہم اس کے حل کے لیے مذہب کی طرف رجوع نہیں کر سکتے اور اسلام کی رہنمائی پر غور نہیں کر سکتے؟

(بشکریہ سہ ماہی ‘‘تحقیقات اسلامی’’ علی گڑھ، اکتوبر - دسمبر 2009ء)

٭٭٭