میں مرنا چاہتی ہوں

مصنف : ڈاکٹر خالد اشفاق

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مئی 2010

٭ لڑکی چیخ رہی تھی ‘‘میں مرنا چاہتی ہوں، میں مرنا چاہتی ہوں’’ گھر والوں نے اسے پکڑ رکھا تھا، لڑکی نے کمر بند سے لٹک کر پھندا گلے میں ڈالا اور خود کشی کی کوشش کی۔ کمر بند ٹوٹ گیا، وہ کرسی جس پر لڑکی کھڑی ہوئی تھی، پھسل گئی اور وہ خود کشی میں کامیاب نہ ہو سکی۔ گھر والوں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی، آسیبی اثرات کے اندیشے پر دو مرتبہ عامل کے پاس لے گئے، میڈیکل اسٹور سے خواب آور گولیاں لا کر کھلائیں، لیکن وہ جاگنے پر مسلسل خود کشی کا کہتی۔

کسی کے مشورے پر وہ نفسیات کے ماہر کے پاس لے آئے۔ انھوں نے اکیلے میں جب لڑکی سے اعتماد کے ساتھ بار بار بات کی، اسے فوری پریشانی سے افاقے کے ازالے کے لیے دوا دی تو اس نے بتایا: ‘‘میں نے انٹر کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا ہے، ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں، میں شروع ہی سے شوخ طبیعت ہوں، خاندان میں، سہیلیوں میں، کلاس فیلوز میں کہیں بھی شادی ہو، مہندی دیگر تقریبات میں بھرپور شرکت کرتی ہوں۔ ایک دفعہ میں ایک سہیلی کے بھائی کی شادی میں گئی۔ رات کو دیر ہو گئی، میں سہیلی کے گھر رک گئی۔ کسی نے میرے کپڑے تبدیل کرتے ہوئے اور اکیلے سوتے ہوئے موبائل سے میری فلم بنا لی۔ سہیلی کے بھائی کے دوست نے مجھے یہ ایس ایم ایس کر دی اور بلیک میل کرنا شروع کیا۔ امی مجھے ہمیشہ منع کرتی تھیں .... اب میں انھیں کیا بتاؤں کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے؟ وہ لوگ کہتے ہیں تم بس آدھا گھنٹہ ہم سے مل لو یا پچاس ہزار روپے دے دو۔ ورنہ ہم اسے آگے اس ایم ایس کر دیں گے۔’’

شادی بیاہ کی تقریبات، مہندی، منگنی وغیرہ میں بعض لڑکیاں آپس کی محفل میں ایسی حرکتیں کر جاتی ہیں، جو اس محفل کے علاوہ ناپسند کی جاتی ہیں۔ موبائل کیمرے سے اس قسم کی ریکارڈنگ کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ اس لڑکی کی طرح بہت سی لڑکیاں ان ویڈیوز کے عام ہونے پر ڈپریشن کا شکار ہو کر خود کشی کا سوچتی ہیں۔ معاشرے میں ان تقریبات میں کیا اور کتنا ہونا چاہیے....؟ یہ ایک سوال ہے جو لڑکیوں، ان کے بھائیوں، اہل خانہ، بزرگوں سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اپنی بچیوں کو نفسیاتی مریض بننے سے روکنے کے لیے ان تقریبات کے انداز میں تبدیلی کرنی چاہیے اور لڑکیوں کو لڑکیوں کی محفل میں بھی کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس کی ویڈیو آنے کے بعد وہ ہو جو اس لڑکی کے ساتھ ہوا۔ کیونکہ ایسے بہت سے ملتے جلتے واقعات اکثر ڈاکٹرز کے پاس آتے رہتے ہیں۔

لڑکیوں کو اپنی سہیلیوں وغیرہ کے گھر شادی کی تقریبات میں رکنے سے پرہیز کرنا چاہیے، اگر رکنا بھی پڑے تو لباس ایسے کمرے میں تبدیل کریں جو اندر سے بند ہو سکتا ہو۔ کھڑکی پر پردہ ہو اور کمرے کی لائٹ بند کر کے ایسے کونے میں تبدیل کریں جہاں روشنی بہت ہی کم ہو، کم روشنی یا نیم اندھیرے میں مووی نہیں بن سکتی۔ ان احتیاطوں سے ممکنہ مشکلات سے بچا جا سکتا ہے۔

٭ آج کل بیوٹی پارلر جانے کا رواج عام ہے۔ چند بیوٹی پارلرز میں دلہنوں کی مووی موبائل کیمرے سے بنی اور دبئی گئی۔ بیوٹی پارلرز میں کام سیکھنے والی لڑکیوں کو احتیاط کرنی چاہیے، وہ ایسا لباس نہ پہنیں جو ان کے لیے مسائل کا باعث بنے۔ اسی طرح لڑکیوں کو بیوٹی پارلر میں لباس تبدیل کرنے پر بھی شدید احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر لباس ایسا شائستہ ہو جو لڑکیاں گھر سے پہن کر آ سکیں تو بہت سی ممکنہ مشکلات سے نجات مل جائے گی۔

اسی طرح بیوٹی پارلر جانے والی خواتین کو بھی تھریڈنگ صرف چہرے کی حد تک کروانی چاہیے۔ بہت سی ایسی خواتین جو بہت زیادہ تھریڈنگ کراتی ہیں، ان کی مووی و تصاویر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ڈیلر ان کو خرید کر ان پر گانے ڈال کر دنیا بھر میں مارکیٹ میں دیتے ہیں۔

٭ ایک شادی کا واقعہ ہے کہ کچھ افراد پینٹ کوٹ میں مووی بنا رہے تھے۔ کسی نے توجہ نہ دی۔ دولہا والے سمجھتے رہے یہ دلہن والوں کے رشتہ دار ہیں اور دلہن والے سمجھتے رہے کہ یہ دولہا والوں کے رشتہ دار ہیں۔ مخلوط محفل کی وجہ سے یہ افراد خواتین کی مووی بنا رہے تھے اور جب پتا چلا تو ان کو آواز دی گئی لیکن وہ تیزی سے باہر آئے اور بھاگ گئے۔

٭ اسی طرح ایک جگہ شادی ہال کے قریب ڈاکوؤں نے گاڑی روکی، زیورات مانگے، ایک خاتون نے چھپا لیے، ڈاکوؤں کے ہاتھ میں موبائل کیمرہ تھا، انھوں نے فوراً اس خاتون کی تصویر نکالی اور بتایا کہ شادی میں تم نے یہ زیورات پہن رکھے ہیں، ہوشیار مت بنو۔

اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں خواتین کی مووی بننا کس طرح ڈاکہ زنی میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ہر خاتون کا زیور ایکسپوز ہوتا ہے اور ڈاکو جدید طریقے سے پلاننگ کر کے ڈاکے مارتے ہیں۔

مخلوط محفلیں کس طرح گھروں کا سکون برباد کرتی ہیں، جس کا گھر یا راستے میں زیور چھین لیا جائے اس کو کہاں سکون ملتا ہے۔ خوف و غم کے سائے بڑی دیر تک ساتھ رہتے ہیں۔

٭ ماڈل بننے کی خواہش یا چند سکوں کے عوض اپنی تصاویر کپڑوں وغیرہ کے اشتہار کے لیے کھنچوانا یہ کام بہت سی لڑکیاں کر لیتی ہیں، لیکن ان بے چاریوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ خواتین کے کپڑے بدلنے والے کمرے میں ویڈیو کیمرہ لگا ہے، جہاں ان کی ویڈیو بن چکی ہے جو مہنگے داموں بک جائے گی .... لڑکیوں کو اس میں احتیاط کرنی چاہیے۔ اپنے گھر کے علاوہ کہیں لباس تبدیل نہ کریں، کم روشنی والے کمرے میں تبدیل کریں تاکہ پریشانیوں سے بچا جا سکے۔

٭ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کی اکثریت معصوم اور بھولی ہوتی ہے اور وہ اپنے دفاع کی وہ صلاحیت نہیں رکھتیں جو مرد رکھتے ہیں۔ مرد عورتوں کے نگہبان، ان کی جان و مال اور عزت کے محافظ ہیں، وہ گھر کے سربراہ ہوں، ادارے کے سربراہ ہوں، محکمے کے سربراہ ہوں، حکومت کی وزارت، پولیس کے سربراہ ہوں، فرم ہو، کالج یا کوچنگ سینٹر ہو، وہ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ ان کے دائرۂ کار میں جو خواتین ہیں، ان کی جان، مال، عزت کا تحفظ وہ کریں۔ اگر لڑکیوں کے ساتھ لا علمی میں یا دھوکہ دے کر یہ کیا جا رہا ہے تو یہ ہر سطح کے مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کی حفاظت کے لیے اپنی صلاحیتوں، اثر و رسوخ او راختیارات کو استعمال کریں۔

(بشکریہ ماہنامہ ‘‘علم و آگہی’’ فیصل آباد،مارچ 2010ء)

٭٭٭