میرا نام ارم ہے۔ میرے والد ڈاکٹر انل مودی بیجاپور (کرناٹک) کے رہنے والے تھے۔ وہ آن جہانی پیول مودی جو سوشلسٹ پارٹی کے صدر تھے، کے حقیقی بھتیجے تھے۔ انھوں نے امریکہ سے ایم ڈی کیا تھا اور بہت اچھے فزیشن تھے۔ بعض دوستوں او رجاننے والوں کے اصرار پر وہ میرٹھ (یوپی) آ گئے تھے اور بینک اسٹریٹ پر ایک کوٹھی خرید کر اس کے ایک حصے میں اپنا کلینک بنایا تھا۔ میرے دو بھائی مجھ سے چھوٹے ہیں۔ ایک کا نام طارق اور دوسرے کا نام شارق ہے۔ بارہویں کلاس تک میری تعلیم بیجاپور میں ہوئی تھی۔ میرٹھ آنے کے بعد میں نے میرٹھ کالج میں بی ایس سی میں داخلہ لیا۔ بی ایس سی کے بعد پی ایم ٹی مقابلے میں بیٹھی اور مولانا آزاد میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کے تین سال مکمل کرنے کے بعد اپنی بوا کے اصرار پر لندن چلی گئی۔ وہیں ایم بی بی ایس اور اس کے بعد ایم ایس کیا۔ ردولی ضلع بارہ بنکی (یوپی) کے ایک سید گھرانے میں ڈاکٹر سید عامر سے میری شادی ہوئی، جو اچھے نیرولوجسٹ ہیں۔ لکھنؤ سنجے گاندی پی جی آئی میں ہم دونوں کا تقرر ہو گیا۔ الحمد للہ ہم دونوں پروفیسر ہو گئے۔ ہماری بوا جو لندن میں رہتی تھیں، ان کے کوئی اولاد نہیں ہے، ان کا بہت اصرار تھا کہ ہم دونوں لندن آ جائیں۔ ان کے حد درجہ اصرار پر ۲۰۰۱ء میں تین سال پہلے ہم نے ملازمت چھوڑ دی اور لندن چلے گئے۔ ہماری نند کی شادی میرے چھوٹے بھائی شارق سے ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے ہمارا ہندوستان آنا ہوا ہے۔
میرے والد صاحب کو اسلامی معاشرت بہت پسند تھی۔ بریانی، قورمہ اور کباب کہ وہ دل دادہ تھے۔ نہ صرف یہ کہ وہ اردو جانتے تھے ، بلکہ فارسی بھی اچھی جانتے تھے۔ پارسی مذہب سے ان کا خاندانی تعلق تھا۔ اس کے باوجود انھوں نے میرا نام ارم، میرے چھوٹے بھائیوں کا شارق اور طارق رکھا۔ خود اپنا نام ڈاکٹر انل وراث مودی لکھنے لگے تھے۔ بیجاپور میں ہم رہتے تھے۔ جنوبی ہند کا ماحول بڑا صاف ستھرا ہے۔ ہم لوگ میرٹھ آئے تو یہاں ماحول عجیب تھا، خصوصاً میرٹھ کالج میں دیہات کے جاٹ او رچودھری طلبہ بڑی چھچھوری حرکتیں کرتے تھے۔ وہ اس قدر رکیک حرکتیں کرتے تھے کہ مجھے خیال ہوا کہ مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑے گی او رکسی دوسرے کالج کو سلیکٹ کرنا پڑے گا، لیکن اللہ کو اسی گندے ماحول سے میری ہدایت کا فیصلہ کرنا تھا۔ انھیں گندے لوگوں میں چند شریف لڑکے بھی پڑھتے تھے۔ ان میں محمد کلیم صدیقی تھے، جن کی شرافت سے ہمارے سب ساتھی، یہاں تک کہ اساتذہ بھی مرعوب تھے۔ ان کو لوگ احتراماً کلیم بھائی کہتے تھے۔ میں نے بارہا دیکھا کہ لوگ کسی فلم کی بات کرتے ہوتے، کلیم بھائی آجاتے، لوگ فوراً خاموش ہو جاتے۔ اپنی کلاس میں وہ ذہین سمجھے جانے والے لوگوں میں تھے۔ آواز بھی بہت اچھی تھی۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے اور اچھے مصور بھی تھے۔ ہمارے کالج میں پورے صوبے کا مقابلہ تھا۔ اس میں انھوں نے اول درجے کا انعام حاصل کیا تھا۔ کلیم بھائی کو کلاس میں اس طرح کی گندی حرکتوں سے بہت اذیت ہوتی تھی۔ میں گھر میں والد صاحب سے ان کی شرافت کا ذکر کرتی۔ پاپا مجھ سے ان کو کبھی گھر لانے کو کہتے تھے۔ وہ روزانہ اپنے گاؤں پھلت سے کھتولی کے راستے بذریعہ ریل میرٹھ چھاؤنی اور پھر میرٹھ کالج سے اپ ڈاؤن کرتے۔ کبھی کبھی بیگم پل سے و ہ گاؤں جاتے ہوئے پیدل ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتے۔ ایک روز صبح میں نے ان کو آواز دی اور اپنے والد سے ملوایا۔ میرے والد ان سے اور وہ خود میرے والد سے بہت متاثر ہوئے۔ ہماری کلاس کے زیادہ تر چھچھورے لڑکے میرٹھ کالج کے ہوسٹل میں رہتے تھے۔ رکشا بندھن کا تیوہار آیا۔ کلیم بھائی ساڑھے آٹھ بجے ہمارے گھر آئے اور مجھ سے کہا: ارم بہن! کلاس کے گندے ماحول سے ہم لوگ عاجز ہیں۔ چلو، کچھ راکھیاں خرید لو اور ہوسٹل چلتے ہیں۔ میں نے پچیس راکھیاں خریدیں اور کلیم بھائی کے ساتھ ہوسٹل پہنچی اور ان تمام جاٹ اور چودھری اسٹوڈنٹس کو بھیا بھیا کہہ کر راکھیاں باندھ دیں۔ وہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے اور ہماری کلاس کا ماحول بدل گیا۔ اس حکمت عملی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے پاپا ممی کو بھی بتایا، جس کی وجہ سے ہماری ممی پاپا ان کا حد درجہ احترام کرنے لگے۔ مجھے اردو زبان سیکھنے کا شوق تھا۔ میرے پاپا کی خواہش تھی کہ میں اردو پڑھوں۔ ان کا خیال تھا ، بلکہ وہ بہت زور دے کر کہتے تھے کہ اردو زبان سے اچھی اور شائستہ تہذیب آتی ہے۔ میں نے کلیم بھائی سے فرمایش کی کہ وہ ہمیں اردو پڑھا دیں۔ انھوں نے وقت نہ ہونے کا عذر کیا، مگر انھوں نے اردو ڈپارٹمنٹ جا کر ایک صاحب مولوی مسرور کو تلاش کیا، جو اردو میں ایم اے کر رہے تھے او ران کو تیار کیا کہ مجھے اردو پڑھائیں۔ وہ مجھے لائبریری میں آدھا گھنٹہ روزانہ پڑھانے لگے۔ مجھے اردو بہت جلد آ گئی۔ کلیم بھائی نے مجھے ‘‘اسلام کیا ہے؟’’ اور ‘‘مرنے کے بعد کیا ہو گا؟’’ پڑھنے کو دیں۔ مجھے ان کتابوں نے بہت متاثر کیا۔ ‘‘مرنے کے بعد کیا ہو گا؟’’ نے تو میری نیند اڑا دی۔ مجھ پر موت کے بعد کے عذاب کا سخت خوف تھا۔ میں نے اپنا حال کلیم بھائی کو بتایا تو انھوں نے مجھے مرنے کے بعد کی عافیت کے لیے ایمان قبول کرنے کو کہا ۔ میں نے پاپا سے مشورہ کیا۔ انھوں نے مجھے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کو کہا کہ تم بڑی ہو گئی ہو۔اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکتی ہو۔ یکم جنوری ۱۹۷۴ء کو میں نے لائبریری میں ہی کلیم بھائی کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ الحمد للہ میرے والدین نے میرے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ۷۹ء میں بوا کے اصرار پر میں لندن چلی گئی اور ۸۴ء میں ایم ایس سی کر کے میرٹھ واپس آئی۔ کلیم بھائی کو میرے والد نے شادی کے سلسلے میں اختیار دے دیا۔ الحمد للہ انھوں نے میرے لیے انتہائی موزوں رشتہ تلاش کیا اور ردولی (یوپی) کے ایک سید گھرانے میں میری شادی ہو گئی۔ میرے شوہر ڈاکٹر سید عامر ڈی ایم ہیں اور اچھے نیرلوجسٹ ہیں۔ وہ بہت دین دار اور خلیق انسان ہیں۔ جہاں رہے، لوگ ان کی قدر کرتے ہیں۔ ان کی شرافت سے مرعوب رہتے ہیں۔ وہ اپنے فن میں بھی ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔
لندن آنے کے بعد الحمد للہ ہم لوگ شریعت پر عمل کے سلسلے میں زیادہ حساس ہو گئے۔ میرے شوہر نے یہاں آ کر داڑھی رکھ لی ہے۔ خود میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ مجھے بے پردگی سے کم از کم عریانیت سے سخت کراہت ہو گئی ہے۔ ہم دونوں الحمد للہ تہجد پابندی سے پڑھتے ہیں۔ شفا کا اللہ کے ہاتھ میں ہونا اب ہمارے لیے حق الیقین ہو گیا ہے۔ مسلمان مریض بھی خاصی تعداد میں ہمارے یہاں آتے ہیں۔ مریض کو اوٹی (آپریشن روم) میں میز پر لٹا کر پہلے میں اس کو کلمہ پڑھواتی ہوں۔ اس کو تسلی بھی دیتی ہوں اور یہ بھی سمجھاتی ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ موت واقع ہو جائے، اس لیے اچھی طرح دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر لیجیے۔ غیر مسلم مریض بھی آتے ہیں۔ ہماری کلینک ایک روحانی شفاخانہ بھی ہے۔ ہم دونوں کی میزوں پر اچھا اسلامی لٹریچر رہتا ہے، جس میں سے اپنے اپنے حصے کا ہر مریض لے کر جاتا ہے۔ اصل میں ہم نے مغرب کوبہت قریب سے دیکھا ہے۔ بے حیائی اور مادیت زدہ مغربی دنیا بے چین ہے اور ان میں اکثر لوگ زندگی کی لذت او رسکون سے محروم خودکشی کے کنارے کھڑے دکھائی دتیے ہیں۔ ان کی بے چینی اوراضطراب کا علاج صرف اسلام کی مقدس تعلیمات میں ہے۔ کاش ان کو اس نعمت سے آشنا کرایا جائے۔
الحمد للہ ہم دونوں کی دعوت پر ان تیس سالوں میں دو سو تہتر لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ ہمارے سسر شیخ ابو الحسن علی حسنی ندویؒ سے بیعت تھے۔ میرے شوہر بھی ان کے ایک خلیفہ شیخ ولی آدم صاحب سے بیعت کا تعلق رکھتے ہیں۔ ہم لوگ اپنے لندن میں قیام کا مقصد اسلام کی دعوت سمجھتے ہیں۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ میری بوا جو مجھے میرے باپ سے زیادہ چاہتی تھیں، انھوں نے ہمارے لندن آنے کے دو ماہ کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا او رگزشتہ سال ان کا بہت اچھی ایمانی حالت میں کلمۂ طیبہ پڑھتے ہوئے مصلے پر انتقال ہوا۔
الحمد للہ، کلیم بھائی نے مجھے اس پرزور دیا کہ میں روزانہ کا نصاب طے کر کے اسلام کا مطالعہ کروں۔ میں نے ارادہ کیا کہ اوسطاً ۵۰ صفحے روزانہ پڑھوں گی، مگر ۵۰ صفحوں کا نصاب تو مجھ سے نہیں ہو سکا، البتہ اگر میں یہ کہوں کہ ان تیس سالوں میں میں نے ۲۵ صفحے روزانہ سے کم نہیں پڑھے ہوں گے تو یہ بات بہت احتیاط کے ساتھ سچ ہو گی۔ میں نے ایک سو سے زائد سیرت کی کتابوں کو پڑھا ہے۔ شیخ علی میاںؒ کی سب کتابیں اور شیخ تھانوی ؒ کی ساری کتابیں تقریباً میں نے پڑھی ہیں۔ شیخ ابو الاعلیٰ مودودیؒ کو بھی میں نے پڑھا ہے۔ اس کے علاوہ لندن میں اسلام پر روز نئی کتابیں چھپتی ہیں، ہم لوگ عیسائیوں کے یہاں چھپنے والی کتابوں کو بھی دیکھتے رہتے ہیں۔
الحمد للہ، ۲۵ صفحات سے کم تو اوسط کسی طرح بھی نہیں رہا ہو گا۔ اس اوسط سے سال میں دس ہزار کے قریب صفحات ہو جاتے ہیں۔ شروع میں مجھے مطالعے کا شوق نہیں تھا۔ کلیم بھائی نے مجھے زور دیا کہ زبردستی مطالعہ کیا جائے۔ اب یہ حال ہے کہ کھانا نہ کھانے سے ایسا نہیں لگتا ، جیسا مطالعہ کرنے سے تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ کئی بار نئی کتابیں نہیں ملتی تو پرانی کتاب دوبارہ پڑھتی ہوں۔ اس طرح الحمد للہ، ہمارے یہاں ایک اچھا کتب خانہ جمع ہو گیا ہے۔ اور اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ذہن میں بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔
میرے تین بچے ہیں۔ بڑے بیٹے کا نام حسن عامر ہے اور چھوٹے کا حسین عامر ہے اور بچی کا نام فاطمہ زہرا ہے، دونوں بیٹے ڈیوز بری کے مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حسن نے جس کی عمر دس سال سے زیادہ ہے، حفظ مکمل کر لیا ہے اور عالمیت کا پہلا سال ہے۔ حسین کی عمر نو سال ہے، اس کے سولہ پارے ہو چکے ہیں۔ فاطمہ ایک اسلامی اسکول میں دوسری کلاس میں پڑھ رہی ہے۔ ان کے والد نے اس کو قرآن حکیم گھر پر پڑھایا ہے۔ ہم دونوں نے پروگرام بنایا ہے کہ اپنے بچوں کو روزگار سے بے فکر کر دیں گے اور اتنا نظم کر دیں گے کہ ان کو کمانے کی فکر نہ رہے اور وہ یک سوئی کے ساتھ زندگی کو دعوت کے لیے وقف کر سکیں۔
الحمد للہ، میں نے جس سال ایم ایس سی کیا، فارغ ہو کر میں ہندوستان آئی تو میں نے کلیم بھائی کو بلایااور والد صاحب پر کام کرنے کی درخواست کی۔ انھوں نے والد صاحب کو بہت سی کتابیں دیں۔ شیخ علی میاںؒ کی کتاب ‘‘نبی ِ رحمت’’ نے ان کو بہت متاثر کیا۔
وہ اسلام سے تو پہلے سے ہی متاثر تھے، مگر اتنی عمر تک ایک مذہب میں رہنے اور خاندان کے لوگوں خصوصاً اپنے چچا پیلو مودی صاحب اور ان کے خاص دوست آر کے کرنجیا کی وجہ سے ان کو جھجھک تھی۔ میری شادی ڈاکٹر عامر سے انھوں نے باقاعدہ اسلامی طریقے بلکہ مسلمانوں کے طریقے یعنی رواج کے مطابق کی اور خوب خرچ کیا۔ ظاہر ہے کہ خوب خرچ کرنا اسلامی طریقہ نہیں، مگر مسلمانوں نے اسی طریقے کو اختیار کر رکھا ہے۔ والد صاحب ہم لوگوں کے پی جی آئی ملازمت کے دوران ایک بار گومتی نگر (یوپی) میں ہمارے یہاں آئے۔ ہم دونوں نے چھٹی لے لی اور ان سے اسلام قبول کرنے پر اصرار کیا۔ وہ شروع میں ٹالتے رہے کہ رسم کیا ہوتی ہے؟ میں دل و دماغ سے تم لوگوں سے پہلے سے مسلمان ہوں، مگر میرے شوہر نے کہا: بلاشبہ اصل چیز تو دل و دماغ کا اسلام ہے اور ہم اسی اسلام کی روح کو مانتے ہیں، مگر روح کے لیے جسم بھی ضروری ہے۔ اگر جسم نہ ہو تو روح کس چیز میں پڑے گی۔ آپ کلمہ پڑھ لیجیے۔ وہ تیار ہو گئے او رانھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ممی بھی ان کے ساتھ تھیں۔ پاپا کے مسلمان ہونے کے بعد ممی کو منانا ہمارے لیے آسان ہو گیا۔ انھوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔ میرٹھ آ کر دو ماہ کے بعد ان کو سخت ترین ہارٹ اٹیک ہوا۔ ان کے دل کی شریانیں خراب ہو گئی تھیں۔ ہم ان کو لکھنؤ لے کر آئے، لیکن اللہ کی مرضی لکھنؤ میں ہی ان کا انتقال ہو گیا اور وہیں تدفین ہوئی۔ الحمد للہ، ان کا آخری وقت ایمان کے لحاظ سے بہت اچھا تھا اور وہ اپنے اسلام پر حد درجہ اللہ کی تعریف اور شکر کرتے تھے۔
مجھ سے چھوٹے بھائی طارق نے سی اے کیا ہے اورممبئی میں ایک بڑے کارخانے میں منیجر ہیں۔ ان کی شادی ممبئی کے ایک تبلیغی گھرانے میں ہوئی ہے۔ چھوٹے بھائی شارق نے ایم بی اے کیا ہے۔ وہ لکھنؤ میں ایک ہوٹل کے منیجر ہیں۔ ان کی شادی میرے شوہر کی چھوٹی بہن راشدہ سے ہو رہی ہے۔
یوں تو یہ علم اورعقل کا زمانہ ہے۔ بے چین اور بلکتی انسانیت کے لیے علم اور عقل کے پیمانے پر پورا اترنے والے مذہب کا تعارف ہی انسان کو حد درجہ متاثر کرتا ہے، مگر میں اپنے قبول اسلام اور اپنے واسطے سے ہدایت پانے والے لوگوں کے حالات پر غور کرنے سے اس نتیجے پر پہنجی ہوں کہ آپ اپنی دعوت سے لوگوں کوقائل تو کر سکتے ہیں، مگر اس درجہ متاثر کرنے کے لیے کہ ایک زندگی کے طریقے پر رہنے والا آدمی مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ ہوجائے، اس کے لیے آپ کی دعوت کے ساتھ آپ کے کردار کی عظمت ضروری ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے گھرانے کو مشرف باسلام کرنے، بلکہ ہم دونوں کو دعوت پر کھڑا کرنے میں کلیم صدیقی کی فطری شرافت اور مجسم دعوت کردار سب سے اہم ذریعہ رہی ہے۔ کتابوں کے ساتھ نبیوں کو بھیجنا خود میرے خیال کی بڑی دلیل ہے۔ انسان کو کتاب کے ساتھ افراد چاہییں۔ یعنی قول کے ساتھ کردار کی ضرورت ہوتی ہے، تب کہیں انقلاب برپا ہوتا ہے۔
ایک مسلمان کی ذمہ داری پوری انسانیت تک اسلام کے پیغام کو پہنچانا ہے۔ اس میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی مکلف بنایا گیا ہے، بلکہ اسلامی دعوت کی ترتیب تو تاریخ اسلام میں یہ ملتی ہے کہ اسلامی دعوت کی مدعو مردوں سے پہلے عورتیں ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے رفقا، محسنین اور محرم راز مردوں کے ہوتے ہوئے غار حرا میں پہلی وحی کے نزول کے بعد، اپنی دعوت کا سب سے پہلا مدعو اپنی رفیقۂ حیات خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بنایا تھا۔ میدان دعوت میں غیر مسلم اقوام خصوصاً مغربی دنیا سے قریب ہو کر ان کو اس حقیقت سے بھی واقفیت ہو گئی کہ جس مادیت او رعریانیت زدہ مغربی تہذیب کی چکا چوند سے ہم مرعوب ہو رہے ہیں اور اس کو ہم ترقی کی معراج سمجھ رہے ہیں، وہ کس درجہ پستی کا شکار ہے۔ و ہ بے چینی اور اضطراب میں خودکشی کے دہانے پر کھڑی اسلامی تعلیمات کی کس قدر پیاسی ہے اور دین ِ اسلام کی نعمت سے نواز کر اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر کس قدر بڑا احسان کیا ہے۔