وسط ایشیا کی چراگاہوں میں بھیڑیں بکریاں چرانے والی خانہ بدوش منگول قوم کا ایک قافلہ مسلمانوں کے علاقے سے گزر رہا تھا۔ چند مسلم سپاہیوں نے منگول عورتوں سے زیادتی کی ۔ یہ قافلہ جب واپس اپنی منزل پر پہنچا تو انہوں نے اپنے سردار سے مسلمانوں کی زیادتی کی فریاد کی ۔ سردار نے یہ سب خاموشی سے سنا اور اس علاقے کے مسلمان حکمران کو پیغام بھیجا کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ، مجرموں کو سزا دی جائے ۔ مسلم حکمران نے ان خانہ بدوشوں کو کمزور سمجھتے ہوئے کوئی نوٹس نہ لیا۔تاریخ کہتی ہے کہ اس پر وہ سردار ایک ٹیلے پر چڑھ کر دہائی دینے لگا کہ اے مسلمانوں کے خدا ، ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے، اگر تو ہے، تو ہماری مدد کر ۔ کئی دن یہ عمل کرنے کے بعد جب اس کے وجدان نے مثبت اشارے دیے تو اس نے اپنی چھوٹی سی فوج کو تیار ہونے کا حکم دیا اور کہا کہ ہم مسلمانوں سے بدلہ لیں گے ۔ یہ کہہ کر اس نے نزدیکی مسلمان علاقے پر چڑھائی کردی۔ اس علاقے کے مسلمان اس کے آگے نہ ٹک سکے ۔ اس کامیابی نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور اس نے اگلے شہر کا رخ کیا ۔ وہاں بھی کامیابی نے اس کے قدم چومے ۔ اس کے بعد اس قوم کی کامیابیوں کی ایک ہولناک داستان ہے جو چنگیز اور ہلاکو کے نام سے وابستہ ہے ۔ مگر اس تمام ہولناکی اور تباہی کا آغاز ایک بے انصافی اور ظلم سے ہوتاہے ۔
تاریخ کو ہم لوگ قصے اور کہانیوں کی طرح پڑھ کر گزر جاتے ہیں مگر اس کے اندر پوشیدہ اسباق ہماری نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں جبکہ تاریخ کا مقصد ان اسباق سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنے رخ کو تبدیل کرنا ہوتا ہے مگر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے۔
قوموں کی تاریخ کا یہ انمٹ سبق ہے کہ اللہ اس دھرتی پر کفر اور شرک کو تو برداشت کرتاہے مگر بے انصافی اور ظلم کو تادیر برداشت نہیں کرتا ۔ ایک خاص مہلت کے بعد ظالموں اور عدل و انصاف سے کھیلنے والوں کو دوسری قوموں کا کھلونا بنا کے رکھ دیتا ہے ۔ اس لیے ہر سمجھدار اور دور اندیش حکمران نے جس قدر کو سب سے بڑھ کر عزیز رکھا وہ ایک ہی قدر تھی ، عدل وانصاف۔ پورے کے پورے اسلام کو اگر ہم دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو وہ ہوں گے عدل اورتزکیہ ۔ اپنی ذات کے ساتھ انصاف سے لے کر خاندان ، برادری ، قبیلے ، قوم ، معاشرے، اپنوں، غیروں سب کے ساتھ انصاف کرنا اور اپنی طہارت او رپاکیزگی کا خیال کرتے ہوئے خاندان ، برداری ، قبیلے ، قوم اور معاشرے کی طہارت اور پاکیزگی کے لیے کوشاں رہنے کا نام اسلام ہے۔ اسی لیے اسلام کے دور اول میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی وہ عدل وانصا ف ہی تھا۔ سیدنا عمرؓ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے ۔ زلزلہ آیا توآپ نے زمین پر اپنا کوڑہ مار کر ارشاد فرمایا ، اے زمیں کیوں ہلتی ہے، کیا عمر تجھ پر انصاف نہیں کرتا؟ گویا عمر اس بات کا اعلان کر رہے تھے کہ لوگو انصاف نہ کرنا ،زلزلوں اور تباہیوں کو دعوت دینا ہے۔چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی سے ممکنہ شکست سے بچنے کے لیے جب کابینہ کو مشورے کے لیے بلایا تو تمام مشوروں ، جنگی سکیموں اور پلاننگ کو ایک طرف رکھتے ہوئے چرچل نے ایک عجیب سوال کیا کہ کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟ جب جائز ہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ عدالتوں میں انصا ف ہو رہا ہے اس پر چرچل نے کہاتو پھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
عروج و زوال اور فتح و شکست کے غیر مادی اسبا ب میں سے جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حا صل ہے و ہ عدل و انصا ف ہی ہے ۔آج مسلم معاشروں ، حکومتوں ، ملکوں ، اداروں اور خاندانوں میں اس قدر کو طاق نسیاں بنا دیا گیا ہے ،نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اگر ہم پھر سے ترقی کرنا چاہتے ہیں اور ہر طرف پھیلی ہو ئی تباہی اور ذلت کو خود سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر سطح پر انصاف کا ساتھ دنیا ہو گا ۔ وہ چاہے گھر ہو ،ادارہ ہو ملک ہویا معاشرہ اور چاہے ہمارے سامنے کوئی اپنا ہو یاغیر، سب کے ساتھ انصاف کرنا او رہر حال میں انصاف کی قدر کو تھام کے رکھنا، اسی طرح ظالم قوموں کو انصاف کی دعوت دنیا اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو نمایاں کرکے بجائے بدلہ لینے ، خود کش حملے اور بم دھماکے کرنے کے سب کو انصاف کی حمایت میں کھڑے کرنے کی کوشش کرتے رہنا ہی ہمارے انفرادی اور اجتماعی مسائل کااصل حل ہے ۔ہماری بات پر یقین نہ آئے تو پھر حضور ﷺکی سیرت پڑھ لیجیے اور یا یہ فرامین الہی۔۔۔۔یا ایھا الذین امنو ا کونو ا قوامین للہ شہداء بالقسط ولا یجر منکم شنان قوم علی الا تعدلوا اعدلوا ہو اقرب للتقوی ۔۔۔۔واذا قلتم فاعدلوا ولو کان ذا قربی۔۔۔۔ان اللہ یامر بالعدل والاحسان۔۔۔۔