تعلیم و تعلم
حقیقی استاد
قانتہ سید
’’بیٹے اللہ کی طرف جا کر تو دیکھو ،زندگی اتنی آسان ہوجائے گی کہ سوچو گے ،کہ کیا واقعی زندگی اتنی آسان ہوتی ہے ‘‘۔نہیں معلوم اس جملے میں وہ کونسی ایسی چیز تھی جو دل پہ لگی
بظاہر تو یہ ایک جملہ تھا جسے میرے جیسی تیس اور لڑکیوں نے بھی سنا تھا ۔باقی سب کا تو معلوم نہیں لیکن میرے دل پہ یہ با ت کھب گئی تھی۔
میری ایک ٹیچر جن کی عادت ہے کہ چالیس منٹ کے پریڈ میں دس یا پندرہ منٹ وہ ضرور کسی ایسی بات کو دیتی ہیں جس سے ہم اپنی زندگیوں کو سنوار سکیں ۔جن کو سوچ کر ،سمجھ کر ہم ان پر عمل کر سکیں اور سیدھے راستے پر چل سکیں ۔میں نہیں جانتی انہوں نے اسی طرح کتنے دل اورکتنی زندگیاں بدلی ہوں گی ۔جو وہ کر رہی ہیں شاید اسی کو ہاتھ پکڑ کر کسی رستے پہ چلانا کہتے ہیں ۔
ایک استاد ہونے کی حیثیت سے ہمیں ہر چیز سے آگاہ کرنا ،ہمیں سنوارنا،سمجھانا وہ اپنا فرض سمجھتی ہیں ۔اور میرا خیال ہے کہ وہ صحیح معنوں میں استاد ہونے کا فرض نبھا رہی ہیں ۔اور ماں باپ کے بعد یہ استا د کا ہی تو فرض ہوتا ہے کہ وہ بچوں کی دنیاوی زندگیوں کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ ان کی اخروی زندگیوں کو بھی سنوارے ،ان کو غلط ،صحیح کا فرق سکھائے ۔شاید جو استاد یہ فرض نبھائے وہی صحیح معنوں میں استاد ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی ماں باپ کہلانے کا حق رکھتا ہے ۔
آج لوگ استاد تو ضرور ہیں مگر شاید وہ روحانی ماں باپ والا فرض بھلا بیٹھے ہیں آج استاد ہماری دنیاوی زندگیوں کو بہتر سے بہترین کرنے کے لیے تو کوشاں ہیں مگر شاید آج کل کی دنیا میں بہت ہی کم استاتذہ کو اپنے شاگردوں کی اخروی زندگیوں سے کوئی غرض ہوتا ہے ۔
میں سوچتی ہوں کہ شاید وہ مجھے بدلنے کے لیے ہی میری زندگی میں آئی تھیں ۔مجھے ان کی باتیں بہت پسند ہیں اور دوسروں کاپتا نہیں مگر میرے دل پہ ضرور لگتی ہیں ان کی باتیں ۔میں ان کا بے حد احترام کرتی ہوں اور مجھے بدلنے کے لیے ان کی شکر گزار بھی ہوں ۔میرے لیے وہ بہت اہم ہیں اور وہ ہمیشہ ہی میرے دل میں اور دعاؤں میں رہتی ہیں اور رہیں گی ۔
میں نہیں جانتی کہ ان کی باتوں میں کیا جادوئی اثر ہے ۔ وہ جو بھی کہتی ہیں دل پہ اثر ہوتاہے ۔مجھے ان سے ملنے کے بعد استا د کا اصلی روپ دیکھنے کو ملا ورنہ سب کی طرح میرے لیے بھی آج استاد صرف وہی ہوتا جو کتابیں پڑھائے ،سمجھائے اور اپنی راہ لے ۔
میں کبھی پڑھائی میں اتنی اچھی تو نہیں رہی مگر پھر بھی میں نے اپنی ٹیچر سے بے حد پیار پایا ہے ۔میں اپنی کسی ٹیچر کو بھول نہیں سکتی مگر ان سب میں ان کا ایک خاص مقام ہے کیونکہ انہوں نے مجھے وہ دیاجو کسی اور ٹیچرنے نہیں دیا ۔
انسان ازندگی بھر سیکھتا رہتا ہے مگر میں عمر کے اس حصے میں ہوں جسے خاص طور پر سیکھنے کی عمر کہا جاتا ہے ۔میں کہہ سکتی ہوں کہ انہوں نے عمر کے اس خاص حصے میں مجھے وہ کچھ دیا جو کسی استاد نے نہیں دیا۔
جن دنوں انھوں نے یہ جملہ بولا ،میں بہت سی الجھنوں کا شکار تھی ۔لیکن ان کا ایک بول بہت سے مسئلے حل کر گیا۔اور میں بہت بدل کر رہ گئی۔
میں بچپن سے بہت ضدی ہوں ۔اگر ضد کام کرنے کی ہو تو ضرور کرتی ہوں اور نہ کرنے کی ہوتو میں وہ کام نہیں کرتی ۔اور دوسرے یہ کہ میں اپنی عادتوں کو بدلنے میں ہر بار ناکام رہتی ہوں چاہے جتنی مرضی کوشش کر لوں ۔مگروہ شاید وہ پہلی اور آخری ہستی ہیں جو مجھے بدلنے میں کامیاب ہوگئیں ۔ان کی صر ف باتوں سے میں خود بخود ہی بدل گئی ۔
آج میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ انہوں نے میری سوچ ،جذبات ،احساسات غرض میری زندگی کو ہی بدل دیا آج شاید میں ان کی وجہ سے اس قابل ہوں کہ اپنے لیے غلط اور صحیح میں فرق کر سکوں ۔یہ فیصلہ کر سکتی ہوں کہ مجھے اپنی زندگی کس راستے پر چل کر گزارنی ہے ۔وہ کون کون سے کام ہیں جو میرے لیے صحیح یا غلط ہیں ۔ایک لڑکی ہونے کی حیثیت سے کن کاموں کے میرے لیے کیا نتائج ہو سکتے ہیں ۔ان کی وجہ سے بہت سے رشتوں کی اہمیت بھی مجھ پر واضح ہوئی کونسا رشتہ میرے لیے کتنا اہم ہے اور کتنا نہیں ۔شاید آج میں یہ سب جانتی ہوں ۔
میں خدا کی بہت شکر گزار ہوں کہ اللہ پاک نے مجھ پر ان کی اہمیت واضح کی ۔کیونکہ میں جانتی ہوں کہ وہ کس کے لیے کتنی اہم ہیں ،کون ان کی کتنی عزت کرتا ہے ،کس کے لیے ان کی باتیں کتنی اہمیت رکھتی ہیں ۔ آج اگر ان سب باتوں کے لیے میں اللہ پاک کی شکر گزار ہوں تو ان سب سے زیادہ اس بات پر شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے عقل و شعور عطا کیا ۔اس عقل و شعور ہی کی وجہ سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ اگر وہ مجھے عقل نہ بھی عطا کرتے تو آخر میں کیا کر لیتی بس اتنا ہی ہوتا کہ باقی سب کی طرح میں بھی کسی غلط کام میں لگی ہوتی اور زندگی سے وہ سارے سبق نہ سیکھتی جو میں نے سیکھے میں خدا اور ان کی بہت شکر گزار ہوں اور ہمیشہ رہوں گی ۔
آج ہم سب کہنے کی حد تک تو مسلمان ہیں جس کے جی میں جو آتاہے وہ وہی کرتا پھر رہاہے اور سب کا ایک ہی رونا ہے کہ نسلیں بگڑتی جارہی ہیں ۔یہ بات درست ہے کہ اس جدید ترین ٹیکنالوجی کے زمانے میں نسلیں بہت بگڑی ہیں اور بگڑ رہی ہیں ۔
میرے خیال میں یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ آج کے روحانی ماں باپ اپنا فرض صحیح طرح سے نہیں نبھا پا رہے ۔وہ بس آدھا فرض نبھاتے ہیں اور شاید آدھا فرض پورا کرنے کا کبھی سوچا نہیں ۔
میرے خیال سے اگر استاد فرض نبھانا شروع کر دیں تو چاہے ایک ایک دودو کرکے سہی کبھی نہ کبھی تو نسلیں بدل ہی جائیں گی۔دعا ہے کہ خداسب کو بدلے اور ہم سب کو سرخروکرے ،اور ان سب استادوں کو لمبی زندگیاں اور ڈھیروں خوشیاں عطا کرے جو بچوں کی زندگیاں بدل رہے ہیں ۔(آمین )