دعوت الیٰ اللہ

مصنف : مولانا جلال الدین عمری

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : مارچ 2010

(معنی و مفہوم قرآن کی روشنی میں)

رسولﷺ بہ حیثیت داعی الی اللہ

اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی بعثت جس مقصد کے لیے ہوتی ہے، اس کے لیے قرآن مجید میں ایک اصطلاح ‘دعوت الیٰ اللہ’ کی استعمال ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد ہے:

یٰـٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا.وَّ دَاعِیًا اِلَی اﷲِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا. (الاحزاب: ۴۵۔۴۶)

‘‘اے نبیؐ ہم نے آپ کو شہادت دینے والا، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا، اللہ کے حکم سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔’’

یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد، مبشر، نذیر اور ‘ داعی الیٰ اللہ’ کی حیثیت سے مبعوث فرمایا ہے اور آپ کو ساری دنیا کے لیے ‘سراج منیر’ بنایا گیا ہے۔

ایک جگہ کہا گیا ہے کہ آپ اپنی قوم (بلکہ ساری دنیا) سے کہیے:

فَفِرُّوْٓا اِلَی اﷲِط اِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ. وَلَا تَجْعَلُوْا مَعَ اﷲِ اِلٰـھًا اٰخَرَط اِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ. (الذاریات: ۵۰۔۵۱)

‘‘پس تم دوڑو اللہ کی طرف۔ بے شک میں تمھارے لیے اس کی جانب سے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ اور اللہ کے ساتھ کسی کو معبود نہ ٹھہراؤ۔ بے شک میں تمھارے لیے اس کی جانب سے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔’’

یہ اس بات کا اظہار و اعلان ہے کہ آپ کی دعوت، اللہ واحد کی طرف دوڑنے اور اس کی رحمت تلاش کرنے کی دعوت ہے۔ ایک طرف تو آپ یہ حقیقت واضح فرماتے ہیں کہ انسان کی کامیابی کا انحصار اس امر میں ہے کہ وہ سارے جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر خدائے حقیقی کے دامن میں پناہ لے اور توحید کی راہ اختیار کرے، دوسری طرف صاف صاف الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام بد سے آپ آگاہ فرماتے ہیں۔

دعوت الیٰ اللہ کیا ہے؟

‘دعوت الیٰ اللہ’ کا تصور توحید خالص کا تصور ہے۔ یہ ایک خدا کی عبادت و اطاعت کی دعوت ہے۔ یہ شرک و الحاد سے پاک اور ان پر مبنی ادیان سے بالکل مختلف اور ممتاز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا:

قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اﷲَ وَلَآ اُشْرِکَ بِہٖ اِلَیْہِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْہِ مَاٰبِ. (الرعد: ۳۶)

‘‘کہہ دو کہ مجھے تو بس اس کا حکم ہوا ہے کہ اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ شریک نہ کروں۔ میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے پلٹ کر جانا ہے۔’’

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کوئی خود ساختہ فکر و فلسفہ نہیں پیش کر رہے ہیں، بلکہ وہ دین پیش فرما رہے ہیں جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہے۔ اس کی اساس وحی الٰہی ہے۔ اس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ عبادت اللہ تعالیٰ کی ہو اور شرک سے پاک ہو، کسی بھی فرد یا گروہ کو، کسی بھی مرئی یا غیر مرئی طاقت کو خدائی کا مقام نہ دیا جائے کہ اسے معبود سمجھا جائے اور اس کی عبادت کی جائے۔ آپ اسی کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔ اس کے لیے آپ اس کی طرف سے مامور ہیں۔

دعوت الیٰ اللہ کے امتیازات

۱۔ دنیا میں شخصی، قومی، وطنی اور ملکی تحریکات ابھرتی رہتی ہیں۔ ان کی طرف دعوت بھی دی جاتی ہے۔ بعض اوقات ایک خاص دائرے میں ان کے اثرات بھی دیکھے جاتے ہیں، لیکن ‘دعوت الیٰ اللہ’ ان سب سے مختلف ہے۔ اس کا امتیاز یہ ہے کہ یہ ایک عالم گیر دعوت ہے اور اس کا خطاب دنیا کے تمام انسانوں سے ہے، چاہے ان کا تعلق مشرق سے ہو یا مغرب سے، شمال سے ہو یا جنوب سے اور ان کے درمیان رنگ روپ، زبان اور نسل کے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں۔ قرآن مجید، ہر فرد بشر کو اور نوع انسانی کے تمام افراد اور طبقات کو بار بار آواز دیتا ہے کہ وہ اللہ واحد کی عبادت کی راہ اختیار کریں، اس لیے کہ وہی اس کا مستحق ہے۔ یہاں دو ایک حوالے دیے جارے ہیں:

یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِ یْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. (البقرہ: ۲۱)

‘‘ اے لوگو، اپنے رب کی بندگی کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا۔ توقع ہے کہ اس طرح تم خدا کے عذاب سے بچ جاؤ گے۔’’

یٰٓـاَََیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ...(النساء : ۱)

‘‘ اے لوگو، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ....’’

یٰٓـاَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ. الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَ. فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ.(الانفطار: ۶۔۸)

‘‘اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے رب کریم سے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نک سک سے ٹھیک کیا اور تیری ساخت میں اعتدال رکھا اور جس صورت میں چاہا ترتیب دے کر (تجھے بنایا)۔’’

۲۔ دعوت الیٰ اللہ درحقیقت انسانوں کی خیر خواہی اور فلاح کی دعوت ہے۔ یہ ذاتی، خاندانی اور گروہی مفاد اور نام و نمود جیسے غلط جذبات سے جن میں مادی تحریکوں کے علم بردار ملوث ہوتے ہیں، پاک ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول اسی اخلاص اور بے غرضی کے ساتھ دعوت الیٰ اللہ کا فرض انجام دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اعلان ہوا اور آپ کے کسی بڑے سے بڑے مخالف کو اس کی تردید کی ہمت نہ ہوئی۔

قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًاط اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ. (الانعام: ۹۰)

‘‘کہہ دو کہ میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں طلب کرتا ہوں۔ یہ تو بس سارے جہاں کے لیے نصیحت ہے۔’’

اللہ تعالیٰ کے جتنے رسول اس دنیا میں آئے سب ہی اس اخلاص کا نمونہ ہوتے تھے۔ وہ اپنی بے غرضی اور قوم کے لیے اخلاص اور درد مندی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی سیرت اس کی تائید کرتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہی:

وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ. (الشعراء: ۱۰۹)

‘‘ میں تم سے کوئی اجر نہیں طلب کر رہا ہوں۔ میرا اجر تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے۔’’

۳۔ انسان کی نظر محدود ہے۔ اس کے ساتھ فکر و عمل کی کمزوریاں ہیں۔ وہ ایک خاص دائرے ہی میں سوچتا ہے۔ اس کی بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ انسانوں کو گروہوں میں تقسیم کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کبھی ایک فرد دوسرے فرد سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے اور کبھی ایک قوم دوسری قوم کا استحصال کرتی ہے۔ اسی سے کشمکش اور فتنہ و فساد کی راہیں کھلتی ہیں۔ ‘دعوت الیٰ اللہ’ مخلوق کو خالق کی عبادت و اطاعت کی دعوت ہے۔ یہ سب کے لیے ہے اور ہر ایک کی فلاح اس سے وابستہ ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اب تم ہی بتاؤ اس سے بہتر کون سی دعوت ہے، جو شخص اس کا عَلم تھامے اس سے بہتر اور مخلص داعی کون ہے؟

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اﷲِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ. ( حم السجدہ: ۳۳)

‘‘ اس سے بہتر کس کی بات ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے اور (اس کے مطابق) نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔’’

دعوت الیٰ الرب

اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے۔ وہ ساری مخلوقات کا رب اور پروردگار ہے اور ان کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس وجہ سے دعوت الیٰ اللہ کو ‘دعوت الیٰ الرب’ بھی کہا گیا ہے۔

اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی و رسالت کا سلسلہ جاری تھا۔ مخالفین آپ کو اس پر عمل کرنے اور اس کی دعوت سے باز رکھنے کی جی توڑ سعی و جہد کر رہے تھے۔ یہ اس دعوت کے لیے ایک طرح سے چیلنج تھا۔ اس پس منظر میں آپ کو ہدایت کی گئی کہ مخالفین اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہونے پائیں، آپ ثابت قدم رہیں اور کار ِ دعوت جاری رکھیں۔

وَلَا یَصُدُّنَّکَ عَنْ اٰیٰتِ اﷲِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَیْکَ وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَ وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ. (القصص: ۸۷)

‘‘ یہ ہر گز آپ کو اللہ کی آیات (پر عمل) سے جبکہ وہ آپ پر نازل ہو چکی ہیں، روک نہ دیں۔ آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیے اور ہر گز مشرکوں میں نہ ہو جائیے۔’’

ایک جگہ اختلاف شرائع کا ذکر ہے۔ فرمایا کہ ہر پیغمبر کی ایک شریعت رہی ہے۔ اس کے ماننے والے اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اب آپ پر یہ شریعت نازل ہوئی ہے۔ یہ ناسخ ہے دوسری شریعتوں کی۔ اس کے اسباب واضح ہیں۔ اس پر مخالفین سے بحث و تکرار بے فائدہ ہے۔ اس سے دامن کش رہیے۔

 وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَط اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسْتَقِیْمٍ. (الحج: ۶۷)

‘‘ آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیے۔ بے شک آپ سیدھی راہ پر ہیں۔’’

یعنی آپ اپنے رب کی طرف، اس کے دین اور اس کی شریعت کی طرف دعوت دیتے رہیے۔ آپ راہ راست پر گامزن ہیں۔ یہ دین و شریعت کی دعوت کا حکم ہے۔ امام رازیؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہی:

‘‘ آپ کی دعوت ان امتوں میں سے کسی خاص امت ہی کے لیے نہ ہو، بلکہ یہ ساری امتیں آپ کی امت ِ(دعوت) اور آپ کی مخاطب ہیں۔ آپ ان کو اپنی شریعت کی دعوت دیجیے۔ آیت کے آخر میں ‘ہدی مستقیم’ کے الفاظ آئے ہیں۔ ہدایت سے مراد نفس دین بھی ہو سکتا ہے اور دین کی حقانیت کے دلائل بھی ہو سکتے ہیں۔ یہی دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ یعنی جو دلائل اس کے حق میں موجود ہیں ان کے ذریعہ دعوت دیجیے۔’’

اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کی طرف بھی دعوت کی نسبت کی گئی ہے۔ فرعون کے دربار اسی کی قوم کے ایک صاحب ایمان نے جس جرأت و ہمت کے ساتھ دعوت حق دی تھی، قرآن مجید کے اوراق میں وہ محفوظ ہے۔ اس سلسلے کی دو تین آیات ہیں:

یٰـقَوْمِ مَا لِیْٓ اَدْعُوْکُمْ اِلَی النَّجٰوۃِ وَتَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَی النَّارِ. تَدْعُوْنَنِیْ لِاَکْفُرَ بِاﷲِ وَاُشْرِکَ بِہٖ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌز وَّاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلَی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ. (المومن: ۴۱۔۴۲)

‘‘ اے میری قوم! میرے لیے (کتنی عجیب بات ہے) کہ میں تمھیں (جہنم سے) نجات کی طرف بلا رہا ہوں، اور تم مجھے (جہنم کی) آگ کی طرف بلا رہے ہو۔ تم مجھے دعوت دے رہو کہ میں اللہ کا انکار کروں اور اس کا شریک ٹھہراؤں، جس کا مجھے کوئی علم نہیں ہے اور میں تمھیں دعوت دے رہا ہوں، (اس خدا کی طرف) جو عزیز و غفار ہے۔’’

یہاں دعوت الیٰ اللہ کو موقع کی مناسبت سے ‘دعوت الیٰ العزیز الغفار’ کہا گیا ہے۔ ‘العزیز’ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کا بیان ہے اور ساتھ ہی اس کی صفت ‘غفار’ کا بھی ذکر ہے کہ جو فرد یا قوم معصیت کی راہ ترک کر کے اللہ کی طرف پلٹے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے۔ وہ اسے معاف فرما دے گا۔ اس سے اس دعوت کی نوعیت اور اس کے مزاج کو سمجھا جا سکتا ہے۔

تبلیغ رسالت

قرآن مجید میں دعوت کے لیے تبلیغ، ابلاغ اور بلاغ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے ارشاد ہے:

بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ ... (المائدہ: ۶۷)

‘‘جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے اس پہنچا دیجیے...۔’’

ایک جگہ فرمایا:

ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنْذَرُوْا بِہٖ .... (ابراہیم : ۵۲)

‘‘ یہ لوگوں تک بات پہنچانا ہے ، تاکہ اس سے انھیں ڈرایا جائے...۔’’

اللہ کے رسول تبلیغ کا جو فرض انجام دیتے ہیں اسے ‘ابلاغ رسالۃ رب’ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانا۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں:

اُبَـلِّـغُـکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَکُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اﷲِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ. (الاعراف: ۶۲)

‘‘میں تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں او رتمھارے ساتھ خیر خواہی کر رہا ہوں اور اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔’’

اس آیت میں اور بعض دوسری آیات میں رِسٰلٰت’ کا لفظ آیا ہے، جو جمع ہے۔ کہیں ‘رسالۃ’ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو واحد ہے، لیکن جمع کے معنی میں ہے۔

سوال یہ کہ اللہ کے رسول اس کے بندوں تک جو پیغام پہنچاتے ہیں اسے ‘رِسٰلٰت’ یعنی پیغامات سے کیوں تعبیر کیا گیا ہے؟ علامہ زمخشری نے اس کی بعض ممکنہ توجیہات بیان کی ہیں۔ ان میں سے پہلی توجیہ یہ ہے کہ ‘رِسٰلٰت’ سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ پیغامات ہیں جو طویل عرصہ میں حضرت نوح پر بذریعہ وحی نازل ہوتے رہے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ اس سے وحی کے مختلف پہلو مراد ہیں۔ ان میں اوامر و نواہی، مواعظ، تنبیہات، بشارتیں اور ڈراوے شامل ہیں۔

اس آیت میں تبلیغ رسالت کے ساتھ نصح کا لفظ بھی آیا ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ تبلیغ رسالت کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر جو شرعی ذمہ داریاں ڈالی ہیں، جو احکام و ہدایات دی ہیں اور جن اعمال سے منع فرمایا ہے ان واقف کرانا۔ نصیحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ترغیب دی جائے، معصیت سے ڈرایا جائے اور ترغیب و ترہیب کے اس عمل میں اپنی پوری قوت صرف کی جائے۔ فرماتے ہی:

‘‘لفظ ‘رِسٰلٰت’ کا استعمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح پر کئی طرح کے پیغامات پہنچانے کی ذمہ داری ڈالی تھی۔ اس میں اوامر و نواہی، آخرت کے ثواب و عقاب کی کیفیت اور دنیا میں حدود اور تنبیہات کی نوعیت شامل ہے۔’’

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو احسانات کیے ان کا ذکر ہے:

قَالَ یٰـمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِکَلَامِیْزصلے فَخُذْ مَآ اٰتَیْتُکَ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ. (الاعراف: ۱۴۴)

‘‘اے موسیٰ، میں نے تم کو اپنے پیغامات اور اپنے کلام کے لیے لوگوں کو منتخب کیا ہے۔ جو میں نے تمھیں دیا ہے وہ لو اور شکر گزار بندوں میں شامل ہو جاؤ۔’’

یہاں ‘رِسٰلٰت’ سے مراد ‘اسفار’ ہیں۔

‘اسفار’ تورات ہی کا ایک حصہ ہیں، جن میں حضرت موسیٰ کو احکام و ہدایات دیے گئے تھے۔

اللہ تعالیٰ کے رسولوں کے متعلق ارشاد ہے:

الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اﷲِ وَیَخْشَوْنَہٗ وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اﷲَ وَکَفٰی بِاﷲِ حَسِیْبًا. (الاحزاب: ۳۹)

‘‘جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرتے اور اللہ (سب کا) حساب لینے کے لیے کافی ہے۔’’

یہ آیت احکام شریعت کی تبلیغ کے ذیل میں آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ سے پہلے اللہ کے رسول بے خوف و خطر یہ فرض انجام دیتے رہے ہیں۔ انھیں سوائے اللہ واحد کے خوف کے کسی کا ڈر اور خوف دامن گیر نہیں ہوتا تھا۔ آپ کو بھی اللہ کے احکام پہنچانے میں کوئی خوف یا تردد نہیں لاحق ہونا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ کے رسول جب اس کی عبادت و اطاعت کی دعوت دیتے ہیں تو یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اس عقیدے کے تحت کیسی زندگی گزارنی چاہیے۔ اس کا تعلق حالات کے لحاظ سے اخلاق، قانون، تہذیب، معاشرت و سیاست ہر شعبۂ حیات سے ہوتا ہے۔ اسی کے لیے تبلیغ رسالت یا تبلیغ رسالات کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ یہی دعوت الیٰ اللہ ہے۔

دعوت الیٰ اللہ کو اسی معنی میں ‘دعوت الیٰ سبیل الرب’ بھی کہا گیا ہے۔ یعنی یہ زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستہ کی طرف دعوت ہے۔ ارشاد ہے:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ ... (النحل : ۱۲۵)

‘‘دعوت دو اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت او رعمدہ نصیحت کے ذریعہ...۔’’

ایک او رجگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس دعوت کی نوعیت واضح کی گئی ہے:

قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اﷲِقف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ... (یوسف: ۱۰۸)

‘‘کہو یہ میرا راستہ ہے۔ میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں میں اور میری اتباع کرنے والے بصیرت پر ہیں...۔’’

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایک راہ حیات متعین کر دی ہے۔ اسی پر چل کر وہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ دعوت الیٰ اللہ کے معنی ہیں اسی راستہ کی طرف دعوت دینا۔ سورۂ یوسف کی آیت کے ذیل میں ابن عطیہ اندلسی کہتے ہیں:

‘قُل ہٰذِہِ سَبِیلِی’ اشارۃ الی دعوۃ الاسلام والشریعۃ باسرہا.

‘‘ کہو یہ میرا راستہ ہے۔ اس میں اسلام اور پوری شریعت کی دعوت کی طرف اشارہ ہے۔’’

مفسر علاء الدین خازن کہتے ہیں:

‘‘ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، کے معنی ہیں توحید اور دین اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ دین کو ‘سبیل’ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہ راستہ ہے جو اللہ عز و جل تک پہنچاتا، (آخرت میں) ثواب اور جنت کا مستحق بناتا ہے۔’’

صراط مستقیم

سبیل کے ہم معنی لفظ ‘صراط’ بھی ہے۔ ‘سبیل رب’ اور ‘صراط مستقیم’ ایک ہی مضمون کی دو تعبیرات ہیں۔ ایک جگہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی معقولیت اور آپ کے اعلیٰ اخلاق و کردار کے ذکر کے بعد ارشاد ہے:

وَ اِنَّکَ لَتَدْعُوْہُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ. وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰـکِبُوْنَ.(المومنون: ۷۳: ۷۴)

‘‘ بے شک آپ ان کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتے ہیں اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ اس سیدھے راستے سے منحرف ہو گئے ہیں۔’’

صراط مستقیم سے مراد دین اسلام ہے۔ جس کی آپ دعوت دے رہے تھے اور جو زندگی کے ہر معاملہ میں انسانوں کو راہ راست دکھاتا ہے۔

سورۂ شوریٰ کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ وحی کا نزول کن طریقوں سے ہوتا ہے اور وحی کی اہمیت یہ ہے کہ اسی ذریعہ سے کتاب اور ایمان کی دولت ملتی ہے۔ اس کے بعد ارشاد:

وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ. صِرَاطِ اﷲِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِط اَ لَآ اِلَی اﷲِ تَصِیْرُ الْاُمُوْرُ. (الشوریٰ: ۵۲۔ ۵۳)

‘‘بے شک آپ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما رہے ہیں۔ یعنی اللہ کے راستہ کی طرف جس کا وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے۔ سن لو! اللہ ہی کی طرف تمام امور پہنچتے ہیں۔’’

‘صراط مستقیم’ سے مراد دین اسلام ہے۔ آپ اسی کی طرف رہنمائی فرما رہے تھے۔ اس میں اصول دین بھی آتے ہیں اور ان پر اصول کی بنیاد پر جو وشریعت نازل ہوئی ہے اور مختلف امور حیات میں جو احکام و قوانین دیے گئے ہیں وہ بھی اس میں داخل ہیں۔

دور جاہلیت میں انسانی حقوق پامال ہو رہے تھے اور حلال و حرام کے خود ساختہ طریقے رائج تھے۔ سورۂ انعام میں اس کی کسی قدر تفصیل ہے۔ اسی ذیل میں واضح کیا گیا ہے کہ اصل دین کیا ہے؟ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے، والدین کے ساتھ حسن سلوک ہو، قتل اولاد کا ارتکاب نہ کیا جائے، فواحش سے دوری اختیار کی جائے، ناحق کسی کا خون نہ بہایا جائے، یتیم کے مال کی نگہداشت ہو، ناپ تول میں کمی نہ کی جائے۔ اس کے بعد ارشاد ہے:

وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. (الانعام: ۱۵۳)

‘‘بے شک یہ میری سیدھی راہ ہے، اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو اس سیدھی راہ سے دور کر دیں گے۔ اللہ نے اس کا تمھیں حکم دیا ہے، تاکہ تم نافرمانی (اور اس کے نتائج) سے بچے رہو۔’’

آیت میں توحید اور شریعت کی بعض تفصیلات کو ‘صراط مستقیم’ کہا گیا۔ دوسرے تمام طریقہ ہائے حیات کے متعلق کہا گیا کہ وہ سب ‘صراط مستقیم’ سے پھیرنے والے ہیں۔ انھیں نہ اختیار کیا جائے۔ زمخشری اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ ‘صراط مستقیم’ دین اسلام ہے۔ اس سے پھیرنے والی راہیں یہودیت، نصرانیت، مجوسیت اور ہر نوع کی بدعات و خرافات ہیں۔ (ان سے اجتناب کا حکم ہے)۔

امام رازی نے اس آیت کے ذیل میں جو کہا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے:

‘‘آیت کے الفاظ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس سے پہلے کی آیات میں مذکور احکام کے علاوہ پوری شریعت بھی اس میں داخل ہو۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے، وہ ‘صراط مستقیم’ ہے۔ حکم ہے کہ اس کے اجمال اور تفصیل سب کی اتباع کی جائے کیونکہ اس سے انحراف گمراہی ہے۔’’

انسان ہر شعبۂ حیات میں ہدایت اور رہنمائی کا محتاج ہے۔ اس کی فطرت اس کی پیاسی ہے۔ جب وہ دعا کرتا ہے ‘اہدنا الصراط المستقیم’ تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے محروم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا دین اپنی جملہ تفصیلات کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے اصول و کلیات بھی ہیں اور ان پر مبنی نظام شریعت بھی۔ یہ زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اس دین کے صرف کسی ایک پہلو کو کل دین سمجھنے، اسی کو اجاگر کرنے اور زور دینے سے اس کا ناقص تصور ابھرتا ہے اور اس کی دعوت کا حق ادا نہیں ہوتا۔

دعوت الیٰ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دین کو مکمل شکل میں پیش کیا جائے اور عقیدہ، عبادت، اخلاق، معاشرت، معیشت، تہذیب، قانون و سیاست ہر شعبۂ حیات میں اس کی ہدایات واضح کی جائیں۔

آج دنیا کا نظام انسانی فکر کی اساس پر قائم ہے۔ دعوت الیٰ اللہ یہ ہے کہ اس کی خامیوں کو واضح کیا جائے، اللہ کے دین کو اس پورے نظام کے متبادل کے طور پر پیش کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دور حاضر کی فکری بنیادوں اور ان کی کمزوریوں سے آگاہی ہو، دین کا صحیح فہم، اس میں گہری بصیرت اور حالات پر اس کے انطباق کی صلاحیت ہو، اس کے اصول و فروع میں فرق کیا جائے اور فروع کو اصول کے تابع رکھا جائے۔ اسے مجرد دعوے اور مذہبی عقیدے کی حیثیت سے نہیں، بلکہ دلائل و براہین کے ذریعہ پیش کیا جائے اور بہتر سے بہتر اسلوب میں پیش کیا جائے۔ اس پورے عمل میں حکمت و دانائی، سوز و درد مندی اور خیر خواہی پائی جائے۔ اسی سے دعوت الیٰ اللہ کے تقاضے پورے ہوں گے، اس کا حق ادا ہو گا اور اس کی کامیابی کی راہیں کھلیں گی۔

(بشکریہ سہ ماہی ‘‘تحقیقات اسلامی’’ علی گڑھ، ستمبر 2009ء)

٭٭٭