نوبل انعام دنیا کا اعلیٰ ترین علمی انعام سمجھا جاتا ہے جو ہر سال نوبل فاؤنڈیشن کی جانب سے کیمسٹری، فزکس، میڈیسن، اکنامکس، ادب اور امن کے میدان میں نمایاں کارکردگی کے حامل افراد کو دیا جاتا ہے۔ انعام عطا کرنے کے لیے ہر سال ۱۰ دسمبر کو تقریب منعقد ہوتی ہے۔نوبل ایوارڈ کی بنیاد ۱۹۰۰ میں رکھی گئی ہے۔ الفریڈ نوبل سویڈن کے ایک کیمیکل انجینئر تھے جنھوں نے ۱۸۶۶ء میں نائٹرو گلیسرین اور ڈائنا مائیٹ کا استعمال دریافت کیا۔ وہ ڈائنا مائٹ کے موجد تھے۔ ۱۸۹۶ء میں الفریڈ نوبل کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق کیمسٹری، فزکس، میڈیسن، ادب اور امن کے میدانوں میں گرانقدر تحقیق کرنے والے اور کار ہائے نمایاں انجام دینے والے افراد کے لیے نوبل انعام کے اجرا کا فیصلہ کیا گیا۔ ۱۹۶۷ء میں اکنامکس کے شعبہ کو بھی نوبل ایوارڈ میں شامل کر لیا گیا۔ الفریڈ نوبل کی وصیت کے مطابق انعام یافتہ شخص کے لیے ‘‘اسکینڈے نیوین’’ ہونا ضروری نہیں ہے۔ (سویڈن، ناروے، ڈنمارک اور فن لینڈ اسکینڈے نیوین ممالک کہلاتے ہیں) اسکینڈے نیوین کی شرط نہ رکھنے پر الفریڈ نوبل کو اس کے ہم وطنوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے خیال میں نوبل انعام کے حق دار صرف اور صرف اسکینڈے نیوین باشندے ہی ہونے چاہییں تھے۔ نوبل انعام کے لیے دنیا بھر سے افراد کی نامزدگی ‘‘نوبل فاؤنڈیشن پرائز ایوارڈنگ باڈی’’ کرتی ہے۔ فزکس اور کیمسٹری میں گرانقدر خدمات انجام دینے والوں کو ‘‘رائل سویڈش اکیڈمی’’ نامزد کرتی ہے۔
میڈیسن کے لیے ‘‘نوبل اسمبلی آف کیرو لنسکا انسٹی ٹیوٹ’’ نامزدگی کرتی ہے۔ امن کے حوالے سے نمایاں کارکردگی اور جدوجہد کرنے والے افراد کو ‘‘رائل سویڈش اکیڈمی’’ نامزد کرتی ہے۔ جبکہ ‘‘بینک آف سویڈن’’ اکنامکس کے شعبہ میں نوبل انعام کے لیے افراد کو نامزد کرتا ہے۔ علمی شہرت کے ساتھ نوبل ایوارڈ مالی حوالے سے بھی ایک پرکشش انعام سمجھا جاتا ہے۔ نوبل ایوارڈ کا کیش پرائز ۴۰ء ۱ ملین ڈالر (تقریباً ۱۲ کروڑ روپے) ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ نوبل انعام مجموعی طور امریکی شہریوں نے حاصل کیے ہیں۔ جبکہ انٹرنیشنل ریڈکراس تنظیم نے امن کے تین نوبل انعام حاصل کیے ہیں۔ دنیا میں پہلی نوبل انعام یافتہ خاتون مادام کیوری تھیں، جنھیں ۱۹۰۳ء میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔ جنوبی ایشیا میں ادب کا پہلا نوبل انعام بنگالی زبان کے معروف شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کو ‘‘گیتا نجلی’’ پر دیا گیا۔ ۱۹۷۹ء میں پاکستان نژاد سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام کو فزکس میں نوبل انعام دیا گیا۔
سائنس اور دیگر علمی مضامین میں تو نوبل انعام متعلقہ شعبے میں کارکردگی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، مگر امن کے نوبل انعام کی نامزدگی میں امریکا اور یورپی طاقتوں کے سیاسی مفادات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
۱۹۴۵ء میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا اور سوویت یونین نے اپنے اپنے سیاسی، معاشی، قومی اور عالمی مفادات کے لیے کیپیٹل ازم اور سوشلزم/ کمیونزم کے نعروں ے ساتھ سرد جنگ شروع کی تو امریکا نے جہاں کیمونسٹ خطرے سے نمٹنے کے لیے متعدد دفاعی معاہدے کیے اس کے ساتھ ساتھ عالمی اداروں اور تنظیموں کو بھی سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ سرد جنگ کے دوران عالمی سطح پر ایسے ادیبوں، سائنس دانوں اور رہنماؤں کی حوصلہ افزائی اور پذیرائی کی گئی جو کسی نہ کسی عنوان سے سوویت یونین اورکمیونسٹ فکر کے لیے دردِ سر کا باعث بن رہے تھے۔ اس سلسلے میں ۱۹۵۸ء میں پیسترانک (Pastranek) کو ‘‘ڈاکٹر ژواگو’’ لکھنے پر ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ اس کتاب میں کمیونسٹ نظام پر بھر پور طنز و تنقید کی گئی تھی اور جسے خود روس میں اشاعت کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ (لینن کے انتقال کے بعد سوویت نظام اسٹالن کی آمریت میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ‘‘ڈاکٹر ژواگو’’ اسٹالنزم پر بھرپور طنز ہے) پیسترانک نے نوبل انعام لینے سے ریاستی دباؤ کے پیش نظر انکار کر دیا اور ایک معذرت نامہ شائع کرا کے جلاوطنی کی سزا سے جان بچائی۔ ۱۹۷۵ء میں ممتاز روسی سائنسدان آندر سخاروف کو ماسکو میں انسانی حقوق کی تنظیم قائم کرنے پر امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ سخاروف کی تنظیم سوویت حکومت کے لیے بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی کے تعلق سے شرمندگی کا باعث بنی تھی۔ ۱۹۸۳ء میں کمیونسٹ پولینڈ کی مزدور تنظیم سالیڈیریٹی (Solidarity) کے رہنما ‘‘‘لیخ ویلسیا’’ کو امن نوبل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس لیے کہ ویلسیا پولینڈ کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف تھا اور اس کی قیادت میں پولینڈ کے عوام اپنے ملک میں سوویت یونین کی مداخلت کے خلاف آواز اٹھانے کے قابل ہو سکے تھے۔ تبت کے جلا وطن رہنما دلائی لامہ کو نہ صرف کمیونسٹ چین کے خلاف استعمال کیا گیا، بلکہ کمیونسٹ چین کے خلاف جد و جہد کرنے پر ۱۹۸۹ء میں انھیں نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ اس طرح امریکا اور سرمایہ دار بلاک نے نوبل ایوارڈ کو استعمال کر کے کمیونسٹ حکومتوں کے خلاف اپنا دباؤ برقرار رکھا یہاں تک کہ سوویت یونین کے آخری سربراہ میخائل گوربا چوف کو بھی ‘‘پیرسٹرائیکا’’ اور ‘‘گلانسوسٹ’’ جیسی اصلاحات پر ۱۹۹۰ء میں نوبل ایوارڈ سے نوازا گیا، کیونکہ سرمایہ دارانہ نقطۂ نظر کے مطابق مندرجہ بالا اصلاحات نے سوویت یونین کی شکست و ریخت اور اس کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ ان اصلاحات کے خالق گوربا چوف تھے۔اسی طرح امریکا نے مشرق وسطیٰ میں بھی امن کے ‘‘امریکی حل’’ پر عملدرآمد کرنے والے رہنماؤں کو اس انعام کا حق دار قرار دیا۔ چنانچہ ۱۹۷۸ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کر کے اسرائیل کی حیثیت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے پر مصر کے صدر انور سادات کو نوبل امن ایوارڈ دیا گیا۔ انھوں نے یہ اعزاز اسرائیل کے وزیراعظم میناہم بیگن کے ساتھ مشترکہ طور پر حاصل کیا۔ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ کرنے پر عرب دنیا نے بالخصوص اور مسلم دنیا نے بالعموم اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا اور مصر کو عرب لیگ کی رکنیت سے خارج کر دیا گیا تھا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرنے پر دو سال بعد ہی مصر کے صدر سادات کو ۱۹۸۰ء میں ایک فوجی پریڈ کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ ۱۹۹۴ء میں یاسر عرفات، اسحاق رابن اور شمعون پیریز کو بھی مشترکہ طور پر نوبل انعام سے نوازا گیا کیونکہ ۱۹۹۳ء میں واشنگٹن میں ہونے والے معاہدے کے تحت مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کے لیے امریکی تجاویز کو قبول کر لیا گیا تھا۔ ۲۰۰۳ء میں انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم ایران کی خاتون شیریں عبادی کو بھی نوبل انعام دینے کا مقصد ایران کو انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے عالمی سطح پر رسوا کرنا تھا۔
نوبل امن انعام کے حوالے سے اس مختصر سے جائزے کے بعد کسی حد تک یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اس انعام کو زیادہ تر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اگر انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانا یا اس سلسلے میں کوئی نمایاں کام کرنا ہی معیار ہے تو کیوں محمد علی کلے کو اس اعزاز کا حقدار یا کم از کم نامزدگی کی حد تک موزوں قرار نہیں دیا گیا جس نے دنیا کی سپر طاقت کے ویتنام میں ظلم و جبر اور بربریت کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہاں تک کہ اپنا باکسنگ عالمی اعزاز بھی کھو دیا۔ اگر انسانی جذبہ اور خدمت نوبل انعام کے لیے معیار اور کسوٹی ہے تو اس ضمن میں مدر ٹریسا کے بعد اگر کوئی نام تیسری دنیا میں مقبولیت کی انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے تو وہ عبد الستار ایدھی کا ہے جنھوں نے بذات خود محنت اور انسانی خدمت کی قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔حال ہی میں ۲۰۰۹ء کے نوبل ایوارڈ کے لیے امریکی صدر بارک اوباما کی نامزدگی نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اوباما کی نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی کا سن کر تو لوگ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ شاید نوبل کمیٹی والے ہوش و حواس سے بے گانہ ہو چکے ہیں یا ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ نوبل ایوارڈ متعلقہ شعبوں میں نہایت ہی گرانقدر اور عملی کام سرانجام دینے والوں کو ملتا ہے جبکہ اوباما کو صدر منتخب ہوئے ابھی بہت ہی کم عرصہ ہوا ہے جبکہ اس عرصے میں اوباما اب تک امن عالم یا بین الاقوامی تنازعات کے حل کے حوالے سے کوئی مثبت یا ٹھوس اقدامات کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اوباما نے ‘‘امید’’ اور ‘‘تبدیلی’’ کے نعروں پر اپنی انتخابی مہم چلائی تھی مگر وہ خود امریکا میں اب تک کوئی قابل ذکر کام نہ کر سکے۔ بش دور میں عراق و افغانستان کے حوالے سے بھی اوباما کی پالیسی کے بجائے مایوسی اور تبدیلی کے بجائے اسٹیٹس کو (Status Quo) کی ہے جبکہ صدر اوباما کے فیصلے کے مطابق مزید ۳۰ ہزار امریکی فوجی افغانستان بھیجے جائیں گے۔ تیسری دنیا کے عوام کا خیال تھا کہ اوباما کے منتخب ہونے سے امریکا کے سامراجی منصوبوں میں شاید کچھ کمی ہو جائے گی مگر اس حوالے سے اوباما کی لفاظی تو اپنی جگہ قائم رہی مگر عمل کچھ بھی نہ رہا۔ اسلامی دنیا بھی ان سے مایوس ہو چکی ہے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد مصر میں ان کے خطاب کو اسلامی دنیا نے بحیثیت مجموعی مثبت اور خوش گوار قدم قرار دیا تھا مگر عراق، افغانستان کے حوالے سے ان کے اقدامات اور فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کے حوالے سے بھی وہ ‘‘بے عمل’’ دکھائی دیتے ہیں۔ اوباما کو امن کا نوبل ایوارڈ ملنے پر نوبل فاؤنڈیشن کی حیثیت داؤ پر لگ چکی ہے، بلکہ ایک بار پھر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نوبل انعام، خصوصاً امن کا نوبل انعام لیاقت، صلاحیت یا عملی کارناموں سے زیادہ سیاسی ترجیحات کو سامنے رکھ کر دیا جاتا ہے۔ عراق اور افغانستان میں جنگ جاری رکھنے والے صدر اوباما کو ‘‘امن کا نوبل انعام’’ دے کر نوبل فاؤنڈیشن نے خود اپنی توقیر میں کمی اور اپنی رسوائی کا سامان تیار کر لیا ہے۔ نوبل فاؤنڈیشن نے اوباما کو منتخب کر کے نہ صرف الفریڈ نوبل کی وصیت کی دھجیاں بکھیر دی ہیں، بلکہ دنیا بھر کے امن پسندوں اور امن کے لیے کام کرنے والوں کی تذلیل کی ہے۔
(بشکریہ ‘‘معارف فیچر’’ کراچی، دسمبر، 2009)