اگر ادارے نے اپنے کسی ملازم کو کوئی سہولت فراہم کی ہے اور وہ اپنی اس سہولت کو ادارے کی اطلاع کے بغیر کسی غیر متعلقہ شخص کو منتقل کر رہا ہے تو یہ بددیانتی اور جھوٹ میں شامل ہے۔ اور معاشرے میں اسے ہمدردی اور صلہ رحمی کے طور پر جانا جاتا ہے حالانکہ یہ جرم ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ :
ایک صاحب ایک مرتبہ مجھ سے اپنے ایک پڑوسی کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بتا رہے تھے کہ ان کے آپس میں کتنے خوشگوار تعلقات ہیں، اور وہ کس طرح ایک دوسرے سے اپنائیت اور ‘‘حسن سلوک’’ کا معاملہ کرتے رہتے ہیں، اس ‘‘حسن سلوک’’ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ میرے پڑوسی جس محکمے میں کام کرتے ہیں وہ اپنے ملازمین کو ان کی ذاتی گاڑی کے لیے بہت سی سہولیات فراہم کرتا ہے، (مثلاً پٹرول کا خرچ، سروس اور مرمت وغیرہ کا خرچ) میرے پڑوسی کے پاس چونکہ اپنی کوئی گاڑی نہیں تھی اس لیے وہ یہ سہولیات حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ میں نے اپنی گاڑی ان کے نام رجسٹر کرا دی، اور انھوں نے اپنے محکمے میں اسے اپنی گاڑی ظاہر کر کے وہ سہولیات حاصل کر لیں۔ مدتوں میری گاڑی ان کے نام پر درج رہی اور وہ اس کے نام پر سالہا سال یہ سہولیات حاصل کرتے رہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ‘‘آپ نے ایسا کیوں کیا؟’’وہ فرمانے لگے کہ ‘‘ہمارے درمیان تعلقات ہی ایسے تھے’’۔ مجھے یقین تھا کہ گاڑی ان کے نام رجسٹر ہونے کے باوجود میرے ہی استعمال میں رہے گی اور کبھی ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہو گا، لہٰذا اگر صرف نام درج کرانے سے کسی کا بھلا ہوتا ہو تو میں کیوں اس میں رکاوٹ بنوں؟’’
ایک اور صاحب نے ایک مرتبہ اپنے ایک دوست کے ساتھ ‘‘حسن سلوک’’ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ‘‘ہمارے درمیان اتنے اچھے تعلقات ہیں کہ جب وہ خود یا ان کے گھر کا کوئی فرد بیما ر ہوتا ہے تو میں ڈاکٹر سے اپنے نام کا نسخہ بنوا کر اپنے محکمے کے خرچ پر دوائیں لے آتا ہوں اور اپنے دوست کو فراہم کر دیتا ہوں اور اس طرح علاج معالجے پر میرے دوست کا کبھی خرچ نہیں ہوتا’’۔
دونوں صاحبان نے اپنا یہ عمل بڑے فخر کے ساتھ اس طرح بیان کیا جیسے یہ ان کی کشادہ دلی اور بلند حوصلگی کی علامت ہے اور اس کے ذریعے انھوں نے بہت بڑی نیکی انجام دی ہے جس پر وہ دنیا میں تعریف اور آخرت میں ثواب کے مستحق ہیں۔ یہ دونوں میں سے کسی نے نہیں سوچا کہ اس طرح اپنے پڑوسی یا دوست کے ساتھ ‘‘ہمدردی’’ کر کے وہ محکمے کے ساتھ کتنی بے وفائی اور بددیانتی کا معاملہ کر رہے ہیں، اس ‘‘ہمدردی’’ کا آغاز تو جھوٹ بولنے سے ہوا، یعنی پہلے صاحب نے اپنی کار خلاف واقعہ اپنے پڑوسی کے نام درج کرا کے غلط بیانی سے کام لیا، بلکہ غلط بیانیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع کرا دیا، کیونکہ ہر مہینے وہ صاحب اپنی اس فرضی گاڑی کے لیے پٹرول کے فرضی بل داخل کرتے تھے۔
جن میں سے ہر فرضی بل ایک مستقل جھوٹ تھا، اسی طرح اس فرضی گاڑی کی سروس اور مرمت کے بھی اسی طرح فرضی بل بنائے جاتے ہوں گے، کیونکہ گاڑی تو بدستور پہلے صاحب ہی کے استعمال میں تھی۔ اس طرح اس ہمدردی کی بدولت وہ سالہا سال تک جھوٹ کا یہ پلندہ اپنے نامۂ اعمال میں درج کراتے رہے۔ اسی طرح دوسرے صاحب اپنے دوست کی بیماری کے موقع پر خود اپنے آپ کو بیمار ظاہر کرنے کے لیے اپنے لیے فرضی نسخے بنواتے رہے اور ڈاکٹر صاحب کو بھی اس غلط بیانی میں ملوث کرتے رہے۔
دوسری طرف محکمہ نے اگر کوئی سہولت اپنے کسی کارندے کو دے رکھی ہے تو وہ اپنے ملازم کو دی ہے۔ جو کچھ قواعد و ضوابط کی پابند ہے۔ نہ کسی شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ قواعد و ضوابط کے خلاف جس طرح چاہے وہ سہولت حاصل کر لے، لہٰذا دونوں صاحبان نے جو سہولتیں اپنے پڑوسی یا دوست کو دلوائیں، وہ ان کے لیے سراسر حرام اور ناجائز تھیں، لیکن دونوں کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ اس طرح وہ کسی جرم یا گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں، اس کے برعکس وہ اسے اپنی نیکیوں میں شمار کر رہے تھے۔
یہ دو واقعات تو مثال کے طور پر ذکر کر دیے گئے ورنہ اپنے گرد و پیش میں نظر دوڑا کر دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ ہمارا معاشرہ اس قسم کے واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ کوئی سرکاری یا غیر سرکاری محکمہ اپنے ملازمین کو جو سہولیات دیتا ہے بعض لوگ انھیں ہر قیمت پر اپنے حق میں نچوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، خواہ اس کے لیے جھوٹ سچ ایک کرنا پڑے یا قواعد و ضوابط توڑنے پڑیں یا کسی اور بدعنوانی کا ارتکاب کرنا پڑے، مثلاً بعض محکموں میں یہ قاعدہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو گاڑی میں استعمال کرنے کے لیے ایک خاص حد تک پٹرول کی قیمت مہیا کرتے ہیں۔اب بعض لوگ ہر مہینے اتنے پٹرول کے بل داخل کر کے یہ رقم ہر حال میں وصول کرنا ضروری سمجھتے ہیں، خواہ واقعۃً اس مہینے میں اتنا پٹرول استعمال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اسی طرح بعض ملازمین کو محکمے کی طرف سے اجازت ہوتی ہے کہ وہ ایک خاص ماہانہ کرایہ کی حد تک کوئی مکان اپنی رہائش کے لیے لے سکتے ہیں، اب خواہ مکان کم کرائے پر ملا ہو، لیکن وہ زائد کرائے کا بل بنوا کر پوری رقم وصول کرنا ضروری سمجھتے ہیں، اسی طرح بعض مرتبہ مکان کی مرمت یا دیکھ بھال کا خرچ محکمہ برداشت کرتا ہے، چنانچہ بعض لوگ مرمت کے فرضی بل بنوا کر یہ رقمیں وصول کرتے رہتے ہیں، یہی معاملہ علاج معالجے کے اخراجات کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ خواہ واقعۃً کسی علاج کی ضرورت نہ پڑی ہو لیکن جعلی بل بنوا کر علاج کا خرچ وصول کر لیا جاتا ہے۔
یہ تمام صورتیں بڑی گھٹیا قسم کی بددیانتی میں شامل ہیں، اس سلسلے میں ایک اہم شرعی اصول کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے، جو بہت کم حضرات کو معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے بعض اوقات اچھے خاصے دیانت دار حضرات بھی غیر شعوری طور پر اس قسم کی بددیانتی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
وہ اصول یہ ہے کہ کسی چیز کی ملکیت اور چیز ہے اور استعمال کی اجازت اور چیز، جو چیز اپنی ملکیت میں آ جائے اسے تو انسان جس طرح چاہیے استعمال کر سکتا ہے، خواہ خود اس سے فائدہ اٹھائے یا کسی اور کو عارضی یا مستقل استعمال کے لیے دے دے، اس پر کوئی پابندی نہیں، لیکن جو چیز اپنی ملکیت میں نہ ہو بلکہ مالک نے اسے استعمال کرنے کا حق یا اس کی اجازت دی ہو (جسے اسلامی فقہ میں ‘‘اباحت’’ سے تعبیر کیا گیا ہے) اس پر ہر طرح کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوتے۔ اس اجازت کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی ضرورت کی حد تک اسے جس قدر استعمال کرنا چاہے کر لے۔لیکن اسے یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر اپنا یہ حق کسی اور کو منتقل کر دے یا دوسروں کو دعوت دے کہ اس سے فائدہ اٹھانے میں وہ بھی اس کے ساتھ شریک ہو جائیں۔ نیز اسے یہ بھی حق نہیں ہوتا کہ اگر کسی وجہ سے وہ خود اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھا سکا تو اس کی قیمت وصول کرے۔
اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ہمارے گھر کھانا پکا کر بھیج دیا تو یہ کھانا ہماری ملکیت ہے، خواہ ہم اسے خود کھائیں یا کسی اور کو تحفہ بھیج دیں یا صدقہ کر دیں، بلکہ جائز یہ بھی ہے کہ کسی کو بیچ کر اس کی قیمت وصول کر لیں۔ لیکن اگر کسی شخص نے اپنے گھر میں ہماری دعوت کی تو جو کھانا وہاں موجود ہے وہ ہماری ملکیت نہیں، البتہ مالک کی طرف سے اجازت ہے کہ ہم اپنی ضرورت یا خواہش کے مطابق جتنا چاہیں کھالیں۔لیکن ظاہر ہے کہ اس اجازت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کھانے پر اپنے مالکانہ حقوق جتلانے لگیں، لہٰذا یہ جائز نہیں ہے کہ ہم مالک کی مرضی کے بغیر اس پر کسی اور کو دعوت کو دینے لگیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دعوت کا کھانا اپنے ساتھ باندھ کر گھر لے جانے لگے تو اسے کتنا گھٹیا آدمی سمجھا جائے گا اور اس سے بھی زیادہ گھٹیا اور شرم ناک بات یہ ہو گی کہ کوئی شخص اگر خود کسی وجہ سے کھانا نہ کھا سکا تو میزبان سے یہ مطالبہ کرے کہ میرے کھانے کے پیسے ادا کرو۔
بالکل یہی صورت ملازمت سے حاصل ہونے والی سہولیات کی بھی ہے۔ جہاں تک نقد تنخواہ کا تعلق ہے وہ ملازم کی ملکیت ہے، اسے وہ جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہے یا جو الاؤنس کی رقمیں یک مشت محکمے کی طرف سے ادا کر دی جاتی ہیں اور ان کی وصولیابی کے لیے بل پیش کرنے نہیں پڑتے، ان کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن جو دوسری سہولیات ملازم کو فراہم کی جاتی ہیں، مثلاً پٹرول، علاج معالجے اور کرائے وغیرہ کے بلوں کی ادائیگی، وہ محکمے کی طرف سے ایک اجازت ہے، لہٰذا اس کا مطالبہ اسی حد تک جائز اور درست ہے جس حد تک اس اجازت سے واقعی فائدہ اٹھایا گیا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ اس فائدے میں اپنے کسی عزیز یا پڑوسی کو شریک کرنا بھی جائز نہیں۔
اسی طرح اگر خود کو اس اجازت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پیش نہیں آئی یا اس کا موقع نہیں ملا تو اس کا غلط بل پیش کر کے پیسے وصول کرنا بھی سراسر ناجائز ہے اور اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے کہ کوئی شخص دعوت میں شریک نہ ہو اور داعی (دعوت دینے والے) کے پاس اس وقت کے کھانے کا بل بھیج دے کہ میں چونکہ دعوت سے فائدہ نہیں اٹھا سکا، اس لیے یہ بل تم ادا کرو۔
ظاہر ہے کہ کوئی گھٹیا سے گھٹیا آدمی بھی ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ مذکورہ سہولیات سے فائدہ اٹھائے بغیر ان کا بل محکمے کو بھیج دینا بھی ایسی ہی شرمناک حرکت ہے، لیکن افسوس ہے کہ اس کی برائی عام طور سے محسوس نہیں کی جاتی، بلکہ اسے اپنا حق سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس میں جھوٹ اور فریب کا گناہ بھی ہے اور دوسرے کا مال ناحق کھانے کا گناہ بھی۔
(بشکریہ ماہنامہ ‘‘نداء الاسلام’’ پشاور، دسمبر 2009ء)