(بارہ جنوری ۲۰۱۰ کوہیٹی میں زلزلے سے ایک لاکھ لوگ مو ت کا شکار ہو گئے )
ہیٹی براعظم امریکہ کا ایک ملک ہے جس نے فرانسیسی تسلط سے یکم جنوری ۱۸۰۴ کو آزادی حاصل کی تھی۔ اس ملک کی آبادی ایک کروڑ ہے اور انتہائی غریب ملکوں میں اس کا شمار ہوتاہے جس کی اسی فیصد آبادی بد ترین غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔دارالحکومت پورٹ او پرنس ہے ۔ اکثریت عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔رقبہ ۲۷۷۵۰ مربع کلومیٹر ہے ۔ یہاں فرانسیسی اور سیریولی بولی جاتی ہے ۔کرنسی کا نام گورڈ (gourde ) ہے ۔ہیٹی کریبین سی میں ڈومینکن ریپبلک اور کیوبا کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے ۔
ہیٹی میں آفات کی تاریخ
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہیٹی کو عام دنیا سے زیادہ سیاسی بحرانوں، بدانتظامی، غربت اور قدرتی آفات کا سامنا رہا ہے۔ اور جیسا کہ ہیٹی کے ساتھ ماضی میں ہوتا رہا ہے جب ملک میں صورتِ حال بہتر ہونے لگتی ہے قوم کسی اور بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔منگل (بارہ جنوری ۲۰۱۰) کے روز زلزلے سے تباہ ہونے سے پہلے ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرنس میں صدارتی محل شہر کی سب سے زیادہ خوبصورت عمارت تھی۔سفید رنگ کی یہ پرشکوہ عمارت اس شاندار مستقبل کی علامت تھی جو ایک کروڑ کی آبادی کے اس ملک کو کبھی بھی حاصل نہ ہو سکا۔یہ محل پورٹ او پرنس میں بندرگاہ کے نزدیک شاں دی مارس کے علاقے میں واقع ہے۔ یہ علاقے کا مرکزی علاقہ ہے جہاں تمام انتظامی دفاتر اور کمیونٹی عمارات موجود ہیں۔ ان میں سے گرجا گھر، مرکزی ہسپتال اور اقوام متحدہ کی امن فوج کے ہیڈکوارٹرز سمیت زیادہ تر عمارتیں ہیٹی میں دو صدیوں میں آنے والے بدترین زلزلے میں تباہ ہو گئی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہاں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے ہوں لیکن قریب ہی واقع غریب بستیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گی جہاں ہیٹی کے ہزاروں غریب ترین لوگ لکڑی اور ٹین کے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان گھروں میں نہ تو صاف پانی ہے اور نہ ہی سیوریج سسٹم اور بجلی کی سہولتیں دستیاب ہیں۔
ان بستیوں کے زیادہ تر رہنے والے اس لیے پورٹ او پرنس آنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ دیہی علاقوں میں حالات اس سے بھی بدتر ہیں اور غذا کی کمی، ایڈز اور دیگر متعدی بیماریاں عام ہیں۔جب یورپی پہلے پہل پانچ سو سال پہلے یہاں پہنچے تھے تو وہ یہاں کے جنگلات کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ اب ان میں سے صرف تین فیصد جنگلات رہ گئے ہیں۔ باقی جنگلات کو کاٹ دیا گیا ہے۔ جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی اب بھی ملک میں استعمال ہونے والے سب سے بڑا ایندھن ہے۔شاید جنگلات کی اسی کمی کے باعث سن دو ہزار آٹھ سے طوفان سے ہونے والی تباہی کا سلسلہ شروع ہوا جس میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک اور دس لاکھ کے قریب بے گھر ہوئے۔ سن دو ہزار آٹھ میں ہیٹی کا گونیوز کی علاقہ چار ہفتوں میں چار طوفانوں کا نشانہ بنا۔
سن دو ہزار چار میں ملک کے شمال مشرق میں طوفان آیا تھا اور تاریخی بندرگاہی شہر کیپ ہیٹین اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ سن دو ہزار چار میں آنے والے طوفان میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ان قدرتی آفات کے علاوہ ہیٹی نے اپنی پوری تاریخ میں سیاسی افراتفری اور بدانتظامی کا شکار رہا ہے۔
جب سن انیس سو چھیاسی میں ‘بے بی ڈوک’ ڈیووالیئر کو اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تھا تو ایسا دکھائی دیا کہ شاید ہیٹی میں جمہوری نظام آ جائے۔کئی سال کی افراتفری کے بعد یہ نئی امید سن انیس سو نوے میں ایک نوجوان سابق کیتھولک پادری ڑاں برٹرینڈ آرِسٹیڈ کے انتخاب کی شکل میں سامنے آئے۔لیکن ان کے اقتدار کا چند ماہ بعد اس وقت خاتمہ ہو گیا جب فوج کے کرنیلوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ اس سے نہ صرف جمہوری نظام کا خاتمہ ہو گیا بلکہ کئی ہزاروں افراد نئی فوجی جنتا کے ظلم و تشدد کا شکار بنے اور اس کے علاوہ ہزاروں دیگر افراد نے گھریلو ساخت کی کشتیوں میں ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔سن انیس سو چورانوے میں انہیں لوگوں کی بڑی تعداد میں امریکہ آمد تھی جس نے اس وقت کے امریکی صدر بِل کلنٹن کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ بوٹوں والوں کو گھر بھیج دیا جائے۔اس کے بعد ایک بار پھر ڑاں برٹرینڈ آرِسٹیڈ برسراقتدار آ گئے اور ایسا دِکھائی دیا کہ سیاسی اقتدار کے ایک اور عہد کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ ان کے اور ان کے جانشین رینے پریوال کے دور میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی اداروں کی مدد کی وجہ سے حالات ذرا بہتر ہوئے لیکن اس کے باوجود ہیٹی مغربی خط استوا پر واقع ملکوں میں سے غریب ترین ملک رہا جہاں فی کس اوسط آمدنی دو ڈالر یومیہ سے کم ہے۔تاہم سن دو ہزار ایک میں مسٹر آرِسٹیڈ کے دوسری مدت کے لیے انتخاب کے بعد سیاسی حالات خراب ہونا شروع ہو گئے اور تشدد میں اضافہ ہوا۔ صدر آرِسٹیڈ کو کئی ماہ کے سیاسی بحران کے بعد اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد سے اقوام متحدہ کی نو ہزار امن فوج ملک میں موجود ہے اور وہاں استحکام لانے کے ساتھ ساتھ سڑکوں اور دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر میں مدد کر رہی ہے۔سابق امریکی صدر بِل کلنٹن اس وقت ہیٹی کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب ہیں اور بین الاقوامی ڈونرز سے امداد حاصل کرنے کی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں۔سن دو ہزار چھ میں صدر رینے پریوال کے انتخاب کے بعد حالات میں تھوڑی مگر اہم نوعیت کی بہتری آنا شروع ہوئی تھی۔ نوکری کے مواقع پیدا ہوئے ہیں، غریب آبادیوں میں تشدد میں کمی آئی ہے اور سیاحت سے متعلقہ سرگرمیوں میں بہتری کے آثار دیکھے جا رہے ہیں۔لیکن جیسے پہلے ہوتا آ رہا ہے اب ایک بار پھر نئی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ زلزے سے متاثرہ افراد کو بچانے اور ملبے کو صاف کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے سخت کوششیں درکار ہوں گی۔سن دو ہزار آٹھ میں آنے والے زلزلے کے بعد خطاب کرتے ہوئے صدر رینے پریوال نے کہا تھا کہ ہیٹی کو طول المدتی مدد کی ضرورت ہے، اگر آپ ہمیشہ کی طرح اسے ایک نئی تباہی کا سامنا کرنے کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا جانا۔شاں دی مارس کے علاقے کی طرف صدارتی محل پر ان غلاموں کے مجسمے ایستادہ تھے جو اٹھارویں صدی کے اواخر میں ہیٹی کی آزادی کی جدوجہد کی علامت ہیں۔ہیٹی کو تازہ ترین تباہی سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک بار پھر اسی جذبے کی ضرورت ہے۔
ہیٹی کا زلزلہ اور ارضیاتی سائنس
بظاہر مشرقِ بعید کے مقابلے پر کیریبیئن کا علاقہ ارضیاتی طور پر خاصا پرسکون نظر آتا ہے، لیکن اس خطے میں بھی زلزلوں، سونامیوں اور آتش فشانی کی لمبی تاریخ موجود ہے۔ کیریبیئن کے علاقے میں ارضیاتی پلیٹیں (ٹیکٹونک پلیٹس) آپس میں ملتی ہیں۔ 1946ء میں ڈومینیکن ری پبلک میں، جو ہیٹی کے بالکل قریب واقع ہے، ریکٹر سکیل پر آٹھ کی شدت کا زلزلہ آیا تھا، جس نے ایک بڑی سونامی کو جنم دیا تھا۔ حالیہ زلزلے کا باعث بننے والے انھی زیرِ زمین پلیٹوں کی حرکت کے باعث اس خطے میں 17ویں، 18ویں اور 19ویں صدیوں میں بھی زلزلے آ چکے ہیں۔
ارضیاتی پلیٹیں زمین کا باہری خول بناتی ہیں۔ عام طور پر زلزلے اس وقت آتے ہیں جب یہ ارضیاتی پلیٹیں تیزی سے حرکت کرتی ہیں۔ پرڈو یونیورسٹی میں جیوفزکس کے پروفیسر ایرک کلے کہتے ہیں کہ ان پلیٹوں کی اچانک حرکت اسی وقت ہوتی ہے جب ملحقہ پلیٹوں پر خاصے عرصے سے دباؤ پڑتا رہا ہو، اور جب پلیٹیں ایک دوسرے کے برابر سے نکلنے کی کوشش کرتی ہیں:‘اگر ایسی دراڑ (فالٹ) ہو جس پر سات ملی میٹر فی سال کے حساب سے دباؤ پڑتا رہا ہو، جیسا کہ یہاں پر ہوا، اور جیسا کہ یہاں ڈھائی سو سال قبل ہوا تھا، تو دراڑ 1.7 میٹر کے قریب ٹوٹ جاتی ہے، جس سے تقریباً سات درجے شدت کا زلزلہ آتا ہے۔’ان دراڑوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ ہیٹی میں آنے والے زلزلے میں کردار ادا کرنے والی دراڑ کو ‘سٹرائک سلپ فالٹ’ کہا جاتا ہے۔
‘جب زمین کے خول کے دو حصے کسی عمودی دراڑ کے آمنے سامنے افقی سمت میں حرکت کرتے ہیں (تو اسے سٹرائک سلپ فالٹ کہا جاتا ہے)۔ کیلی فورنیا کی سان اینڈریاس فالٹ بھی اس جیسی ہے۔ بعض اوقات یہ پلیٹیں دائیں بائیں کی بجائے اوپر نیچے بھی حرکت کر سکتی ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں خارج ہونے والی توانائی زبردست تباہی پھیلا سکتی ہے۔ کتنی تباہی؟ اس کا انحصار کئی باتوں پر ہے۔ امریکی ارضیاتی سروے کے ماہرِ زلزلہ سٹوارٹ سپکن کہتے ہیں کہ سب سے بڑی بات تو زلزلے کا سائز ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ زلزلے کی گہرائی بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ زلزلہ جتنا گہرا ہو گا، اتنی ہی اس کی شدت کم ہو گی کیوں کہ سطح تک جاتے جاتے بیشتر توانائی زمین ہی میں جذب ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر زلزلہ بہت اتھلا ہوا، تو وہ زیادہ تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔’ہیٹی میں آنے والا زلزلہ کی تباہ کاری کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہاں آبادی زلزلے کی دراڑ کے بالکل قریب تھی۔ پرڈو کے ایرک کلے نے اس بارے میں بتایا کہ ہیٹی کا دارالحکومت پورٹ او پرنس بالکل دراڑ کے اوپر بنا ہوا ہے۔
اس زلزلے کا مرکز سطحِ زمین سے صرف دس کلومیٹر نیچے اور دارالحکومت سے صرف 15 کلومیٹر دور تھا۔ زلزلے کے بعد خاصی دیر تک جھٹکے بھی محسوس کیے جاتے رہے۔ سٹیوارٹ سپکن کہتے ہیں کہ یہ معمول کی بات ہے:‘شروع شروع میں یہ جھٹکے خاصے بڑے ہوں گے اور جلدی جلدی آتے رہیں گے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں کمی آتی جائے گی۔ تاہم کئی ہفتوں یا مہینوں تک جھٹکے آنے کا امکان ہے، جن کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں خلل پڑ سکتا ہے۔’اس قسم کی کئی جھٹکوں کی شدت پانچ درجے تک ریکارڈ کی گئی ہے، جن کی وجہ سے مزید تباہی آ سکتی ہے، خاص طور پر وہ عمارتیں جو بڑے زلزلے سے پہلے ہی متاثر ہو چکی ہیں وہ ان جھٹکوں کے بعد گر سکتی ہیں۔