قتل کی منصوبہ بندی برطانیہ میں کی جاتی ہے لیکن عمل درآمد پنجاب کے دیہاتوں میں کیا جاتا ہے۔ بی بی سی کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بھارتی نژاد برطانوی شہری ہندستان میں اپنے خاندان والوں یا بزنس میں شراکت داروں کو کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں قتل کراتے ہیں۔ بھارتی نژاد برطانوی شہری خاندان والے یا بزنس میں شراکت داروں سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہندستان کا انتخاب اس لیے کرتے ہیں کہ اجرتی قاتل کام کرنے کے کم پیسے لیتے ہیں اور پکڑے جانے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔اس مسئلے کو منظر عام پر لانے کے لیے برطانیہ اور بھارت میں کام کرنے والوں کا خیال ہے کہ سیکڑوں افراد اس طریقے سے اجرتی قاتلوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے قتل کی منصوبہ بندی تو برطانیہ میں کی جاتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد بھارتی پنجاب کے دیہاتوں میں کیا جاتا ہے۔اس طریقے سے قتل کیے جانے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے میں بھارت روانہ ہوئی اور ریاست پنجاب کے ایک دیہات پہنچی۔اس گاؤں میں ایک برطانوی خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ چھٹیاں منانے آئی تھیں اور ان کی موت ایک مبینہ ٹریفک حادثے میں ہوئی جس میں مارنے والی گاڑی کا ڈرائیور بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن اس خاتون کے رشتہ داروں کو شک ہے۔ (قانونی تقاضوں کے تحت ان خاتون اور ان کے خاندان والوں کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا۔)اس خاتون کی والدہ کا کہنا ہے کہ اس (خاتون) کا شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا لیکن ان کی بیٹی نے شوہر کو چھوڑنے سے انکار کردیا۔ ان کی والدہ کے بقول ان کی بیٹی نے اپنے شوہر سے کہا ‘میں زندگی بھر تمہارے ساتھ رہوں گی۔’اس کی والدہ جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچی تھی۔ ‘انہوں نے میری بیٹی کو مارا اور اس کی لاش گڑھے میں پھینک دی اور تاثر یہ دینے کی کوشش کی کہ اس کی موت حادثے میں ہوئی ہے۔ وہاں پر نہ تو خون کے نشانات تھے اور نہ ہی گاڑی اور نہ ہی ٹائروں کے نشانات۔’
بھارت کی کئی ریاستوں بشمول پنجاب میں پولیس، سیاستدان اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان تعلقات ہیں۔ یہ تعلقات ان افراد کو مزید تحفظ فراہم کرتے ہیں جو برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ تحفظ اس طرح کہ اگر یہ معلوم بھی ہو جائے کہ انہوں ہی کے کہنے پر قتل ہوا ہے تب بھی ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوتا۔اس خاتون کی ہلاکت سے ملتی جلتی ہی ایک اور ہلاکت 1998 میں برطانوی شہری سرجیت اتھوال کی بھی ہوئی۔ دو سال قبل برطانوی عدالت نے فیصلہ دیا کہ چھبیس سالہ سرجیت کے قتل کا منصوبہ ان کے شوہر اور ساس نے بنایا تھا۔انہوں نے بھارت میں اجرتی قاتل کے ذریعے سرجیت کو قتل کرایا۔ سرجیت کوگلا دبا کر ہلاک کیا گیا اور ان کی لاش دریا میں بہا دی۔سرجیت کے بھائی جگدیش سنگھ کا کہنا ہے ‘میرے خیال میں سرجیت کے قتل نے پہلی بار اس راز سے پردہ فاش کیا ہے کہ کس طرح برطانیہ میں رہائش پذیر پنجابی افراد عورتوں کو واپس پنجاب بھیجتے ہیں تاکہ وہ یہاں پر آسانی سے قتل کی جاسکیں۔’ جگدیش آج کل ایسی خواتین کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر اس ایشو کے بارے میں آواز اٹھاتے ہیں۔لیکن اجرتی قاتلوں کے ہاتھ قتل ہونے والوں میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی ہیں۔ بھارت کے صوبہ پنجاب میں ہلاک کیے گئے ایک مرد کے بھائی راجو نے کہا ‘ان کے بھائی کے سر پر گولی ماری گئی تھی اور ان کی لاش زمین پر پڑی تھی۔ ہمارے پاس شواہد موجود ہیں جو اشارہ دیتے ہیں کہ میرے بھائی کا قتل میرے بھائی کی بیوی اور اس کے عاشق نے کرایا ہے۔ اور ہمیں شک ہے کہ یہ قتل انشورنس کے پیسے کی لالچ میں کیا گیا ہے۔’آخر بھارتی نژاد برطانوی شہریوں کو اجرتی قاتلوں کے ہاتھ قتل کرنا کتنا آسان ہے؟بھارتی صحافی نیلم راج کے مطابق اجرتی قاتل ڈھونڈنا بہت آسان ہے۔ جس شخص کو قتل کرنے کے پیسے دیے جاتے ہیں وہ ایک معمولی چور اچکا ہو گا۔عام طور پر وہ ایسا شخص ہوتا ہے جو گاؤں کا بدمعاش ہو۔بھارت میں اجرتی قاتل کے ذریعے ہلاک کروانا سستا ہے۔ اجرتی قاتل پانچ سو پونڈ کے عوض قتل کرتے ہیں۔ماضی میں قتل کرنے کا طریقہ کار گزرتی گاڑی سے گولیاں مارنا لیکن اب اس قتل کا طریقہ کار یہ ہے کہ موت ایک ٹریفک حادثہ لگے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس میں پکڑے جانے کا خطرہ کم ہے۔پنجاب کے شہر لدھیانہ میں جسی کھنگرا ایک کامیاب کاروباری اور سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ لندن میں کاروبار کیا کرتے تھے لیکن اب وہ کانگریس جماعت کے پنجاب اسمبلی میں رکن ہیں۔انہوں نے اس مسئلے کا ذمہ دار پولیس کو ٹھہرایا اور کہا کہ پولیس کے ملوث ہونے کے باعث ہر سال ایک سو کے لگ بھگ بیرون ملک رہائش پذیر ہندوستانیوں کا قتل ہوتا ہے۔لیکن جالندھر کے پولیس سربراہ سنجیو کلڑا پولیس کے ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسی ہلاکتوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہیں۔‘میرا تجربہ کہتا ہے کہ عام طور پر ایسے واقعات کے بارے میں بات زیادہ کی جاتی ہے جبکہ حقیقت برعکس ہوتی ہے۔’لیکن بھارت میں اس طریقے سے ہلاک ہونے والے اہل خانہ کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔ وہ انصاف کے لیے برطانوی حکومت سے رجوع کرتے ہیں اور اب برطانوی سراغ رساں ایسے معاملات کی تفتیش کے لیے بھارت بھیجے جاتے ہیں۔میٹروپالیٹن پولیس کے کمانڈر سٹیو ایلن ایسے فعل کے مرتکب افراد کو کچھ ان الفاظ میں متنبہ کرتے ہیں ‘برطانوی شہریوں کی بیرون ملک قتل کے حوالے سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوا ہے اور ہم ایسے افراد کا پیچھا کریں گے اور ان کو ڈھونڈ نکالیں گے اور انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں گے۔’
دوسری طرف برطانوی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کے پاس چھ برطانوی شہریوں کے دلی اور پنجاب میں لاپتا ہونے کی اطلاعات ہیں۔
(بشکریہ ، بی بی سی ایشیا نیٹ ورک)