محمد صدیق بخاری کی زیر نظر کتاب‘‘ بنیاد’’ بہت ساری اسلامی ، قومی ، ملی ،اخلاقی و سماجی اقدار کی بنیادیں استوار کرنے کی ایک مخلصانہ کوشش و سعی ہے جسے امید ہے ان شاء اللہ سعی مشکور کا درجہ حاصل ہو گا۔ درد دل سے لکھی گئی اس کتاب کے چند حصے یوں ہیں : ‘‘دینی بنیادوں کا احیا ’’ ، ‘‘ملی بنیادوں کی تعمیر نو’’ ، ‘‘قومی بنیادوں کا استحکام ’’، ‘‘تعلیمی بنیادوں کی درستی ’’ اور ‘‘اخلاقی بنیادوں کی پرورش’’ ۔ ہر حصے میں مسلمانوں کے بعض دینی اور اخلاقی مسائل کی طرف اشارے اور ان مسائل کے حل پیش کیے گئے ہیں۔
آج کے دور میں اہل قلم کے کاموں کا بنیادی سقم یہ ہے کہ وہ مسائل کی طویل فہرستیں گنوا دیتے ہیں۔ جس مقالے ،کتاب ، نشریے کو دیکھیں انسانی مسائل کا انبار نظر آئے گا مگر مسائل کے حل یا تو ان کے پاس ہوتے نہیں یا انہیں پیش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔ حالانکہ ہر تحریر کی یہ بنیادی غرض و غایت ہونی چاہیے کہ پہلے مسائل کے پس منظر اور خود ان کی نوعیت پر بحث ہو اور آخر میں معاشرے کے لیے ان کے کافی و شافی حلوں کی طرف رہنمائی کی جائے۔ صرف مسائل کی نشان دہی کرنا اور ان کے حل کے لیے تجاویز پیش نہ کرنا تحریر کا عیب اور نقص ہوتا ہے اور کوئی بھی دانشور لکھاری ایسا نہیں کرتا اور اگر کرے تو اسے مستحسن اور گراں قدر تحریر تصور نہ کیا جانا چاہیے۔
محمد صدیق بخاری کی کتاب کا آدرش جیسے کہ عرض کیا گیا سماجی مسائل کے نفع بخش حل پیش کرنا ہے ۔ وہ دین کی بنیادوں کے احیا پر بحث کرتے ہیں تو صحیح دینی تصور کی اہمیت سے لیکر جنت کی تلاش ، مذہبی عدالتوں ، نیم ملاؤں ،اسلام میں اختلاف رائے کے مکمل سماجی بیگ گراؤنڈ کے بیان کے کے بعد قرآن کریم کی محبت کو ان تمام مسائل کے لیے عقدہ کشا بتاتے ہیں۔
اسی طرح اگر ملی مسائل میں اتحاد کے فقدان ، قتل و غارت گری اور اس کے نتیجے میں احتجاج کو وہ اپنی تقلیدی اور جمودی ثقافت کے آئینہ میں پیش کرتے ہیں تو اگلے ہی حصے میں قومی بنیادوں کے استحکام پر بحث کرتے ہیں ۔ اسی طرح تعلیمی بنیادوں کی اہمیت اور اس کے مسائل پر بحث کے بعد اگلے حصے میں تربیتی حوالے سے کئی مقالے پیش کرتے ہیں مثلا ًاپنی غلطی کا اعتراف ، دوسرے کو سمجھیے پھر سمجھائیے، دین میں مکمل طور پر داخل ہوجاؤ ، مطمئن زندگی کا راز ، حق کی پیروی ، اللہ سے تعلق کی نوعیت ، پردیس اور آخرت کا موازنہ ، عدل و انصاف ، دعا ، وقت رخصت اور کئی دیگر اخلاقی اقدار پر بحث کر کے سماج کا رخ مسائل کے حل کی جانب کر دیتے ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ہر گھر ، ہر مدرسے ، یونیورسٹی اور کتاب خانے میں موجود ہونی چاہیے تاکہ ہم اپنی خامیوں اور ان کی اصلاح کے لیے مناسب اقدامات کی جانب مائل ہو جائیں اور معاشرے میں امن و خوشحالی کے لیے کوشاں!
(از قلم ،جاوید اقبال قزلباش بحوالہ سہ ماہی پیغام آشنا ، شمارہ نمبر 45 (نومبر ۲۰۱۱) اسلام آباد)