اصلاح ودعوت
دل اور داعی
عارف علوی
دل
کسی عارف نے کیا خوب کہا ہے کہ جب تمہیں ذکرو فکر کی مجلس میں دل جمعی محسوس نہ ہو تو سب کام چھوڑ کر خدا سے ایسا دل مانگو، جو یادِ خدا سے لرزتا اور محبتِ خدا میں تڑپتا ہو، اور اسکی بیقراری کو منعمِ حقیقی کی یاد سے سکون و اطمینان ملتا ہو۔
دل کو جہاں جسدِ انسانی کی حیات و بقا کے پہلو سے مرکزی مقام حاصل ہے اس سے کہیں بڑھ کر روحانی و نفسیاتی پہلو سے قلبِ انسانی بہت اہم مقام رکھتا ہے۔ہادیِ برحق ﷺنے دل کی اس حیثیت کی کیا خوب تبیین فرمائی ہے کہ آگاہ رہو جسدِ انسانی میں ایک ایسا لوتھڑا ہے کہ اگروہ سیدھا رہے تو پورا جسم سدھر جاتا ہے، اور اگر وہ بگڑ جائے توپورے کا پورا جسد فساد زدہ ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ یہ دل جب دلِ زندہ بنتا ہے تو وہ قندیل میں رکھے ایسے چراغ کے مثل رخِ تاباں بن جاتا ہے جو شیشے میں سجا روشنی بکھیرنے کیلئے بیتاب ہو اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوئے۔ چونکہ نورِ فطرت جب نورِ یزدانی سے اپنی لو کو مہمیز دیتا ہے تو نور علیٰ نور کا مصداق قرار پاتاہے۔ بلاشبہ یہ سعادت انہی کو عطا ہوتی ہے جنہیں مال و زر اور عزت و جاہ یادِ خدا سے غافل نہیں کر سکتے چونکہ ان کے دلوں کو قرار و سکون تو فاطرِ فطرت کی یاد اور اسی کے حضور فریاد کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
دل کی ایک قسم وہ بھی ہوتی ہے جوبیقرار و مضطرب رہتا اور کبھی زنگ آلود بھی ہوجاتا ہے۔ اس قسم کے دل کو صیقل کرنے کا نسخہ رسولِ رحمت ﷺ نے موت کی یاد دہانی اور تلاوت قرآن کی کثرت کو قرار دیا ہے۔ چونکہ موت محبوبِ حقیقی سے وصال کا ذریعہ ہے جبکہ تلاوت قرآن اسی محبوب اوّل و آخر سے ہمکلام ہونے اور بنجر دلوں کو حیاتِ جاوداں بخشنے کا ایسا ذریعہ ہے جو دلِ مردہ کو زندہ کر کے بقعہ نور بنا دیتا ہے۔ قرآن کو بلاشبہ تمام انسانی کلاموں پر وہی فضیلت و برتری حاصل ہے جو خود باری تعالٰی کو اپنی مخلوق پر حاصل ہے۔ اس احسن الکلام کی تلاوت کو اپنا وظیفہ بنا لینے والے دل خشیئت الٰہی سے لبریز ہو کر نرم ہو جاتے اور یادِ الٰہی کیلئے زرخیز ہو جاتے ہیں۔
عزیز وحکیم ربّ کی مشیّت سے دل کی ایک قسم وہ بھی ہوتی جو غفلت و خدا ناشناسی کی کھائی میں گرتے گرتے ایسے سخت اور مردہ ہو جاتے ہیں کہ پتھر بھی ان کی سختی سے شرماتے ہیں چونکہ پتھر تو خشیئت الٰہی سے شق بھی ہو جاتے ہیں، بلندی سے لڑھک بھی جاتے اور پھٹ بھی پڑتے ہیں لیکن ایسے دل جب یادِ خدا سے بے بہرہ ہو جاتے ہیں تو اس قدر مقفل، سخت اور تاریک ہو جاتے ہیں کہ سیاہ رات میں گہرے سمندر کی موج در موج تاریکی سے بھی تاریک تر ہو جاتے ہیں۔ چونکہ جسے خدا ہی تاریکیوں کے سپرد کر دے تو اسے بھلا کہاں سے نور میّسر آ سکتا ہے۔
اے اللہ ہم آپ کی پناہ چاہتے ہیں اس دل سے جو ڈرتے نہیں، اس نفس سے جو بھرتے نہیں اور اس دعا سے جو قبولیت نہ پائے۔ (آمین)
پروردگارِعالم مجسم رحمت
ربّ ذوالجلال کی حقیقت انسان کے احاطہ علم میں نہیں آ سکتی جس قدر بھی غورکیا جائے ربّ کریم کو ریاضیاتی اصولوں کے مطابق مقیّدو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ کائنات کی ابتدا سے لے کرآج تک انسانی تاریخ کوجس پہلو سے بھی دیکھا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت ہر دور میں من چاہی زندگی گزارنے پر ہی مصر نظر آتی ہے۔ اپنی خواہشات کی تکمیل ہی انسانیت کا اصل مطمح نظر دکھائی دیتا ہے۔ ربّ چاہی زندگی کو اپنی ترجیح بنا کر اپنے سینے کو اپنی ہی خواہشات کا مدفن بنا نا کبھی بھی اکثریت کا مقصود ومطلوب نہیں رہا لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ خدا کی اس کائنات میں انسان کو اپنی من مانی کرنے کیلئے وہ تمام موافق اسباب میّسر رہے ہیں جو زندگی کی صلاح و فلاح اور بقا کے لئے ضروری ہیں۔ انسان کی کمزوری و بے بسی کا تو یہ عالم ہے کہ غذا کو حلق سے اتارنے سے لیکربقائے حیات کے چھوٹے سے چھوٹے پہلو پر وہ خود کو قادر نہیں پاتا ۔ اگر انسانی جسم کے تمام اعضاء اندرونی طور پرجبکہ کائنات کے دیگر اسباب بیرونی طور پربقائے حیات کیلئے موافق ومعاون رہتے ہیں تو یہ انسان کے اپنے اختیارسے نہیں بلکہ انسان سمیت کائنات کی ہر شے کے خالق وپروردگار کے حکم سے بقائے حیات کیلئے مفید کردار ادا کر پاتے ہیں۔گویا ربّ ذوالجلال کی رحمت و الفت ہی ہے جو انسانوں کی نافرمانیوں اور من مانیوں کے باوجود ان سے اسباب حیات کو منقطع نہیں ہونے دیتی۔ بلکہ انسان جس قدر سرکشی میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اس کی رسی اسی قدر درازہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ تو ربّ ذوالجلال کی رحمت کا ایک پہلو ہے ،اگر ایک دوسرے پہلو سے غور کیا جائے توچونکہ خالقِ کائنات نے اس زمین پر ہر انسان کو ایک محدود مدت تک کیلئے بسایا ہے اس کی مدت حیات جیسے ہی پوری ہوتی ہے تو انسان موت کے آہنی شکنجے میں آکر عدم کو سدھار جاتا ہے۔
اگر انسان سرے سے ہی خدا کا منکر ہو تو اس کا معاملہ توبہرحال الگ ہے البتہ جو انسان خدا کو اپنا ربّ مان کر زندگی گزارتا رہا لیکن اسکی زندگی کا رنگ ڈھنگ خدا شناسی سے بالعموم خالی ہی کیوں نہ نظر آتا ہو ،قلیل استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر اس دارِ فانی کو چھوڑتے ہوئے ایسے نام کے مسلمانوں کے آخری لمحات بھی اور موت کے بعد چہرے کی کیفیات بھی حیران کن طور پر سکون وبشاشت کا پتا دیتی ہیں۔ لامحالہ یہاں پہنچ کر انسان کا علم تو گنگ ہوجاتا ہے کہ مرنے والے کے چہرے پر اس سکون کے پیچھے حقیقت کیا ہے اسے کوئی بھی بیان نہیں کر سکتا،البتہ رحمت اللعالمین ﷺکا سو افراد کے قاتل کی توبہ کے ارادے پر مغفرت کی خبر دینااور ایک فاحشہ عورت کا پیاسے کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے جنت کے استحقاق کی خبر یہ بنیاد فراہم کرتی ہے کہ نہ جانے رحیم و کریم ربّ کو مرنے والے کی کون سی ادا پسند آگئی ہو جو وقتِ رخصت اس کے چہرے پر سکون کی علامت کا سبب بن گئی ہو۔ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں ایسی پرسکون اموات کا مشاہدہ کرتے ہی رہتے ہیں۔بلاشبہ جورحیم و شفیق ربّ اپنے بندے کو اس کی زندگی میں اپنی رحمت سے محروم نہیں فرماتے وہ دل کے بھیدوں سے آگاہ ربّ اپنے صاحبِ ایمان گناہگاربندوں کی دنیا سے رخصتی کے وقت بھلا اپنی رحمت سے کیسے محروم فرما دیں گے۔ بشرطیکہ بندہ ابلیس کا پیروکار بن کرسرکشی کا خوگر نہ بن جائے۔ما یفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وآمنتم۔
دا عی دین کے کرنے کا کام
ربّ ذوالجلال نے آدم ؑ کی تخلیق کے ابتدائی مراحل کے بعد جب انہیں جنت سے زمین پر اترنے کا حکم دیا توارشاد فرمایا کہ یہاں سے اتر جاؤ پھر جب تمہیں میری طرف سے ہدایت پہنچے تو پھر تم میں سے جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گااسے نہ تو کوئی خوف ہو گا اورنہ ہی وہ غمگین ہوگا۔باالفاظِ دیگر اولادِآدم کو یہ ہدایت دی گئی کہ میرے رسولوں کی ہدایات کو ماننا ہی اصل میں فلاح و نجات کا راستہ ہے ۔پس جس نے تقوٰی اختیار کیا اور اصلاح کی توان کو نہ کوئی خوف ہو گا نہ وہ غمگین ہوں گے۔
سلسلۂ رسل کی تکمیل جب رحمۃ اللعالمینﷺ پر ہوئی تواب قیامت تک امت محمدی کو یہ ذمّہ د اری سونپی گئی ہے کہ وہ رسول کریمﷺاور انسانیت کے درمیان امت وسط کا کردار ادا کرتے ہوئے حق کے ابلاغ کا فریضہ ادا کریں۔گویا امتِ محمدی کے وہ خوش قسمت افراد جو نبی کریم ﷺ کی نیابت میں انسانیت کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلائیں گے،وہ انبیاء بنی اسرائیل کے مماثل قرار پائیں گے۔تمام انبیاء ورسول با لعموم جبکہ نبی آخرالزماںﷺ نے بالخصوص ابلاغ دین کی ذمہ داری جس دردمندی اور دل سوزی سے ادا فرمائی وہ بلاشبہ ربّ ذوالجلال کی رحمت کا مظہر اتم ہے کہ جس طرح ربّ ذوالجلال انسانوں کی نافرمانیوں بلکہ کھلی سرکشی کے باوجود ان کو اسبابِ دنیا سے محروم نہیں فرماتے،اسی طرح ربّ ذوالجلال کے بھیجے ہوئے انبیاء ورسل بھی اسی رحمت کا پرتو بن کر ظلم و تعّدی کرنے والے انسانوں کی ہدایت و نجات کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔
انبیاء ورسل کا یہ اسوۂ امتِ محمدی کے داعیانِ دین کو یہ رہنمائی عطا کرتا ہے کہ دین کا داعی رحمتہ اللعالمینﷺکی نیابت میں ہدایت کا وہ سورج بنے جو اچھے ،برے ہر فرد کو اپنی روشنی سے مستفید کرتا ہے۔ وہ یکطرفہ طور پر انسانوں سے محبت کرے اور مخاطبین کے ناگوار رویّے اور بے رخی کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں ہدایت و نجات کی طرف بلاتا رہے۔ بلاشبہ یہ طرزِعمل بہت کٹھن اور دشوار ہے لیکن ناممکن نہیں چونکہ بندہ جب رحمتہ اللعالمینﷺ کے مبارک اسوۂ پر عمل کرتے ہوئے فقط اپنے پروردگارکی رضاکی خاطر انسانوں تک پیغامِ نجات پہنچانے کیلئے سرگرداں و کوشاں رہتا ہے تو ربّ ذوالجلال کی رحمت اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے اور اپنے بندوں کے دل کے دروازے قبولیتِ حق کے لئے کھول دیتی ہے۔البتہ انبیاء و رسل اور امتِ محمدی کے داعیانِ دین میں ایک بہت اہم فرق کو ذہن میں رکھنا حد درجہ ضروری ہے کہ انبیاء و رسل ربّ ذوالجلال کی طرف سے مبعوث ہونے کے نتیجہ میں عصمت و حفاظت کی امتیازی نعمت سے سرفراز کیے جاتے تھے۔گویا وہ معصوم عن الخطا تھے۔لہٰذا یہ صفت انہیں لوگوں کے ناگوار ترین رویوں کے باوجود ذاتی انتقام لینے سے محفوظ رکھتی تھی۔جبکہ امتِ محمدی کے داعی کو نبی کریمﷺ کی بشارت پر یقین رکھتے ہوئے صبر اورعفّوو درگزرکی صفات کو راسخ کرنا پڑتا ہے۔ گویا یہ عمل مسلسل جدوجہد اور خود احتسابی کا متقاضی ہے لیکن تبلیغِ دین کا یہ کام داعی چونکہ رحمتہ اللعالمینﷺکی نیابت میں ادا کرتا ہے لہٰذا نصرتِ ربّانی قدم قدم پر اس کی مدد فرماتی اور راہیں آسان کرتی چلی جاتی ہے والذین جاھدوافینا لنھد ینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین۔