یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْم‘’ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُط وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ تَوَّاب‘’ رَّحِیْم‘’
" اے لوگو جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ،تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مْردہ بھائی کا گوشت کھانا پسندکرتا ہے؟تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
غیبت کیا ہے؟
آدمی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جو اگر اسے معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے۔
بہتان کیا ہے؟
بہتان اس کانام ہے کہ اللہ کے کسی بندے کی طرف ایسی کسی بْرائی اور بداخلاقی کی نسبت کی جائے جس سے وہ بالکل بَری اور پاک ہو ظاہر ہے کہ یہ بڑی شقاوت کی بات ہے اور ایسا کرنے والے اللہ کے اور اس کے بندوں کے سخت ترین مجرم ہیں۔
حضرت مْطلب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺسے پوچھا کہ غیبت کیا ہے؟آپ نے فرمایا " یہ کہ تو کسی شخص کا ذکر اس طرح کرے کہ وہ سنے تو اسے ناگوار ہو "اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ میر ی بات حق ہو ؟ آپ نے جواب دیا اگر تیری بات باطل ہو تو یہی چیز پھربہتان ہے" (موطا امام مالک )حضرت ابوسعید و جابر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " غیبت زنا سے سخت تر گناہے"۔ لوگوں نے کہا کہ " اے اللہ کے رسول ! غیبت زنا سے سخت گناہ کیونکر ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ " آدمی زنا کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تواللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔لیکن غیبت کرنے والے کو معاف نہیں کرے گا ،جب تک وہ شخص اس کومعافی نہ دے دے جس کی اس نے غیبت کی ہے"۔ (مشکوۃ)
سنن ابو داؤ کی ایک اور روایت ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی کو جب زنا کے جرم میں رجم کی سزا دے دی گئی تو نبی ﷺ نے راہ چلتے ایک صاحب کو اپنے دوسرے ساتھی سے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ " دیکھواس شخص کو، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک یہ کتے کی موت نہ مار دیا گیا " کچھ دْورآگے جا کر راستے میں ایک گدھے کی لاش سڑتی ہوئی نظر آئی۔حضور رک گئے اور ان دونوں اصحاب کو بلا کر فرمایا " اْتریے اور اس گدھے کی لاش تناول فرمائیے " ان دونوں نے عرض کیا ،یا رسول اللہ اسے کون کھا ئے گا؟فرمایا " ابھی ابھی آپ لوگ اپنے بھائی کی عزت پر جو حرف زنی کررہے تھے وہ اس گدھے کی لاش کھانے سے بہت زیادہ بْری تھی"
غیبت کرنے والے کا انجام
حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت (سنن ابی داؤد) ہے "اے وہ لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہو اور ایمان ابھی ان کے دلوں میں نہیں اترا ہے ، مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرواور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے نہ پڑ اکرو(یعنی ان کی چھپی ہوئی کمزوریوں کی ٹوہ لگانے اور ان کی تشہیر کرنے میں دلچسپی نہ لیا کرو) کیونکہ جو ایسا کرئے گا اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی ہوگا اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ معاملہ ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو اس کے گھر میں ذلیل کردے گا"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ( سنن ابی داؤد) کہ حضور ﷺ نے فرمایا ،کہ " جب مجھے معراج ہوئی تو (اس سفر میں) میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہو ا جن کے ناخن سرخ تابنے کے سے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اورسینوں کو نوچ نوچ کے زخمی کررہے تھے میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایسے سخت عذاب میں مبتلا ہیں،جبرائیل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں لوگوں کے گوشت کھایا کرتے تھے(یعنی اللہ کے بندوں کی غیبتیں کیا کرتے تھے)اور ان کی آبروؤں سے کھیلتے تھے۔"
کن مواقعوں پر غیبت جائز ہے؟
ایک مرتبہ ایک بدو آکر حضور ﷺ کے پیچھے نماز میں شامل ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ " خدایا مجھ پر رحم کر اور محمد پر ۔اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر۔ حضور نے صحابہ سے فرمایا " تم لوگ کیا کہتے ہو یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ؟ تم نے سنا نہیں کہ یہ کیاکہ رہا تھا؟( ابوداؤد)
ایک خاتون فاطمہ بنت قیس کو دو صاحبوں نے نکاح کا پیغام دیا۔ایک حضرت معاویہ دوسرے حضرت ابوا لجہم۔ انہوں نے آکر حضور سے مشورہ طلب کیا۔آپ نے فرمایا " ابو معاویہ غریب ہیں اور ابوالجہم بیویوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں " (بخاری ومسلم)
ایک روز حضور حضرت عائشہ کے ہاں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص نے آکر ملاقات کی اجازت طلب کی۔حضور نے فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بہت بْرا آدمی ہے۔پھر آپ باہر تشریف لے گئے اورا س سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی۔گھر میں واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی اچھی طرح گفتگو فرمائی ،حالانکہ باہر جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ فرمایا تھا۔جواب میں آپ نے فرمایا " خدا کے نزدیک قیامت کے روز بدترین مقام اس شخص کا ہوگا جس کی بدزبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جْلنا چھوڑ دیں"(بخاری و مسلم)
ایک موقع پر حضرت ابوسفیان کی بیوی ہِند بنت عْتبہ نے آکر حضور سے عرض کیا کہ " ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہیں ،مجھے اور میرے بچوں کو اتنا نہیں دیتے جو ضروریات کے لیے کافی ہو’’(بخاری و مسلم)
سنت رسول ﷺ سے اخذ کرد ہ غیبت کی جائز صورتیں۔
1. ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہر اس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ وہ ظلم کو دفع کرنے کے لیے کچھ کرسکتا ہے۔
2. اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی بْرائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ امید ہو کہ وہ اْن برائیوں کو دْور کرنے کے لیے کچھ کر سکیں گے۔
3. استفتا کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورت واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آجائے۔
4. لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبردار کرنا تاکہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں۔مثلاً راویوں ،گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے ،عدالتوں کو بے انصافی سے اور عوام یا طالبانِ علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے۔ یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی کرنا چاہتا ہو، یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب وصواب اسے بتادیں تاکہ ناواقفیت میں وہ دھوکا نہ کھائے۔
5. ایسے لوگوں کے خلاف علیٰ الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق وفجور پھیلا رہے ہوں یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کررہے ہوں یا خلقِ خدا کو بے دینی اور ظلم وجور کے فتنوں میں مبتلا کررہے ہوں۔
6. جو لوگ کسی بْرے لقب سے اس قدر مشہور ہوچکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی اور لقب سے پہچانے نہ جا سکتے ہوں ۔ان کے لیے وہ لقب استعمال کرنا بغرضِ تعریف نہ کہ بغرضِ تنقیص۔
مسلمانوں کا اجتماعی فرض کیا ہونا چاہیے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ " اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر نہیں کرتا جہاں اس کی تذلیل کی جارہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حمایت ایسے مواقع پر نہیں کرتا جہاں و ہ اللہ کی مدد کا خواہاں ہو۔اور اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی حمایت ایسے موقع پر کرتا ہے جہاں اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہواور اس کی تذلیل و توہین کی جارہی ہو تو اللہ عزوجل اس کی مدد ایسے مواقع پر کرتا ہے جہاں وہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی مدد کرے۔( ابو داؤد)
غیبت کی تلافی کس طرح ممکن ہے؟
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ( مشکوٰۃ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ " غیبت کا ایک کفارہ یہ ہے کہ تو دعائے مغفرت کرے اس شخص کے لیے جس کی تو نے غیبت کی ہے ، تْو یوں کہے کہ " ا ے اللہ ! تو میری اور اس کی مغفرت فرما"
سنت رسول ﷺ سے اخذ کرد ہ غیبت کی تلافی کی صورتیں۔
1. غیبت کرنے والے کو جب احساس ندامت ہو جائے تو اس کا پہلا فرض ہے کہ اللہ سے توبہ کرئے اور اس فعل حرام سے رْک جائے۔
2. اگر اس نے مرے ہوئے آدمی کی غیبت کی ہے تو اس کے حق میں کثرت سے دعائے مغفرت کرئے۔
3. اگر کسی زندہ آدمی کی غیبت کی ہے اور وہ خلاف ِ واقعہ بھی ہو توا ْن لوگوں کے سامنے ان کی تردید کرئے جن کے سامنے وہ پہلے یہ بہتان تراشی کرچکا ہے۔
4. اور اگر سچی غیبت کی ہو توآئندہ پھر کبھی اس کی بْرائی نہ کرئے اور اس شخص سے معافی مانگے جس کی اْ س نے بْرائی کی تھی۔ علماء-04 کرام کاایک گروہ کہتا ہے کہ معافی صرف اس صورت میں مانگنی چاہیے جبکہ اس شخص کو اس کا علم ہوچکا ہو ،ورنہ صرف توبہ پر اکتفا کرنا چاہیے ،کیونکہ اگر وہ شخص بے خبر ہو اور غیبت کرنے والا معافی مانگنے کی خاطر اسے جا کر یہ بتائے کہ مَیں نے تیری غیبت کی تھی تو یہ چیز اس کے لیے اذیت کی موجب ہوگی۔
غیبت سے ملتی جلتی چیز کیا ہے؟
چغل خوری ۔کسی کی ایسی بات دوسرے کو پہنچانا جو اس شخص کی طرف سے اس دوسرے آدمی کو بدگمان اور ناراض کرکے باہمی تعلقات کو خراب کردے ،اسی بْری عادت کانام چغلخوری ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت (بخاری و مسلم)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " چغلخور آدمی جنت میں داخِل نہ ہو سکے گا"۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے(بخاری)کہ حضور ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے توآپ نے بتایا کہ " ان دونوں پر عذاب ہو رہا ہے اور یہ عذاب کسی ایسی چیز پر نہیں ہورہا جسے وہ چھوڑ نہیں سکتے تھے۔اگر چاہتے تو باآسانی اس سے بچ سکتے تھے۔بلاشبہ ان کا جرم بڑا ہے ، ان میں سے ایک چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب کے چھینٹوں سے بچتا نہیں تھا"۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان معاشرتی برائیوں سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین