عرصہ ہوا کہ میں نے اپنے جاننے والے لوگوں سے چند سوالات کیے۔ سوالات یہ تھے کہ زندگی میں کتنی دفعہ آپ نے جنت اور اس کی نعمتوں کے بارے میں سوچا ہے۔جس طرح دنیا اور اس کی چیزوں کی خواہش کی ہے کبھی ایسے جنت کی نعمتوں کی سچی طلب بھی پیدا ہوئی ہے۔ رٹی رٹائی کچھ دعاؤں یا مسجد میں کی جانے والی اجتماعی دعاؤں پر آمین کہنے کا ذکر نہیں ہے، جنت کے عرض نے جو آسمان و زمین کے برابر ہے، کبھی دل و دماغ میں کوئی ارتعاش، کوئی تھرل (Thrill) پیدا کیا۔اس کی خواہش نے کبھی دل میں کوئی امنگ پیدا کی۔ اس کی محرومی کے اندیشے نے کبھی رلایا۔ اس کے ملنے کی امید نے کبھی ہنسایا۔اس کے محلات نے تصورات میں کوئی جگہ پائی۔ اس کے باغوں میں خیالوں میں کبھی چہل قدمی کی۔ اس کی آبشاروں کی جھنکار نے سماعت کے دروازے پر کبھی دستک دی۔اس کی پررونق محفلوں، پرجوش خادموں، پرکار حوروں، پرفضا نظاروں، پرکیف بہاروں نے احساسات کی وادی میں کوئی پھول کھلائے، جذبات کے سرد صحرا میں زندگی کی کوئی حرارت پیدا کی۔ جنت جو عقائد کی لسٹ میں کہیں خاموش پڑی ہے کبھی زندگی کے معمولات میں اس کی طلب در آئی۔ مجھے جو جواب ملا وہ حیرت انگیز تھا۔ یعنی صد فیصد لوگوں کا جواب نفی میں تھا۔ یہ زمانہ طالب علمی تھا اس لیے لوگوں کے جواب پر بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے بڑے تاسف کے ساتھ کہا کہ جنت کا حقدار وہ ہے جو قربانی کے درجے میں اس کے لیے کوشش کرے، ہم تو خواہش کے درجے میں بھی اس کے طلبگار نہیں۔مگر اب سوچتا ہوں کہ دنیا اتنی حسین اور اس کے مسائل اتنے سنگین ہیں کہ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ چھپی ہوئی جنت کی کھوج کرے اور فردوس نامعلوم کی خاطر دنیا کے نقد سودے میں گھاٹا اٹھائے۔
آج کے انسان کا المیہ
دور جدید کے انسان کے لیے جنت کا حصول جتنا آسان ہوچکا ہے وہ شاید پہلے کبھی نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی قربانیوں کے نتیجے میں وہ دور ختم ہوگیا ہے جب ایمان لانے پر انسان کو بدترین تکالیف اٹھانی پڑتی تھیں۔آج ہر شخص کے مذہبی معتقدات اور اعمال و رسوم کا احترام کیا جاتا ہے اور اسے پورا کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ نیز دورِ جدید کی سائنسی ترقی، بالخصوص بیسویں صدی کے سائنسی دریافتوں نے مذہبی عقائد کو پہلی دفعہ خالص علمی بنیادوں پر قابل فہم بنادیا ہے۔ اسلام جو ہمیشہ سے دینِ فطرت ہے دور جدید میں دینِ سائنس بھی بن چکا ہے۔ سائنس سے واقف ایک جدید انسان کے لیے آج مذہبِ اسلام کو ماننا توہمات کو ماننا نہیں بلکہ ممکنات کو ماننے کے مترادف ہے۔
دوسری طرف موجودہ دور میں جنت کا تصور جتنا آسان ہوگیا ہے جو پہلے کبھی نہ تھا۔ زمانہ قدیم میں جو نعمتیں صرف بادشاہوں اور نوابوں کو دستیاب تھیں، وہ آج کے ایک عام آدمی کی دسترس میں بھی ہیں۔ بلکہ جو سہولیات زمانہ قدیم میں حکمرانوں کے لیے بھی ناقابل تصور تھیں وہ آج ہر کس و ناکس کی پہنچ میں ہیں۔اس بات کو کچھ مثالوں سے سمجھیے۔
زمانہ قدیم میں حج کرنے والے لوگ جب ہندوستان سے حجاز جاتے تھے تو یہ مہینوں کا سفر ہوتا تھا جو آج محض چند گھنٹوں کا سفر بن چکا ہے۔ اسی طرح دور جدید میں ائیر کنڈیشنر کی ایجاد نے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ شدید گرمیوں میں ٹھنڈ کا مزا اٹھایا جاسکے۔ میڈیا کی ایجاد نے انسان کے تخیل کی دنیا کی اس طرح آبیاری کی ہے کہ جنت اور یہاں تک کہ جہنم بھی، بڑی حد تک انسان کے احاطہ تصور میں آچکی ہے۔ تاہم جدید انسان کا المیہ یہ ہوا کہ اس نے نہ صرف مذہبی آزادی کے اس دور سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ دورِ جدید کی ان نعمتوں کو جنت کا تعارف سمجھنے کے بجائے انہیں اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا ہے۔ انسان ہر نعمت کو اسی دنیا میں حاصل کرنا چاہتا ہے اور ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ جنت کی قیمت پر بھی۔ کرپشن، ظلم، رشوت، ملاوٹ اور اس طرح کے دیگر رویے جن میں سے ہر ایک انسان کو رب کی فردوس سے محروم کر دے گا، لوگ اس لیے اختیار کرلیتے ہیں کہ ان سے دنیا کی جنت ملتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس صورتحال کے جہاں اور دیگر کئی اسباب ہیں وہیں اہل مذہب اپنے آپ کو اس صورتحال سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ مذہبی لوگ جن کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ لوگوں کو خدا کی جنت کی طرف بلائیں مگر انہوں نے لوگوں کو دین کے نام پر ان چیزوں میں الجھا دیا ہے جو قرآن کے نزدیک نان ایشو ہیں۔
قرآن کی دعوت
آج کے زیادہ تر مذہبی لوگوں کا اصل مسئلہ فرقہ واریت ہے۔اس کے ساتھ دین کی دعوت ان کے نزدیک چند ظاہری اعمال کو بلا سوچے سمجھے اختیار کر لینے کا نام ہے۔ تاہم دورِ جدید کا سب سے بڑا مذہبی المیہ یہ ہے کہ جو لوگ اس امت میں قرآن کی دعوت لے کر اٹھے ان کے نزدیک قرآن کی اصل دعوت دنیا میں دینِ حق کا غلبہ تھا۔ یہ موقع نہیں کہ اس غلط اجتہاد کی تفصیل بیان کی جائے مگر اس ذہن کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کا اصل پیغام یعنی قیامت کے دن رب کے حضور پیشی کے لیے تیاری، دیندار لوگوں کی ترجیحات میں بہت پیچھے رہ گیا۔ قرآن کو آپ خالی الذہن ہو کر پڑھیے تو آپ پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوگا کہ ہمارے مذہبی لوگوں کے نزدیک جو چیزیں بنیادی مسئلہ ہیں، قرآن کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔قرآن کے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان جہنم کی آگ سے بچ جائے اور جنت میں اپنے رب کی رحمتوں کا حق دار بن جائے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام نبی اور تمام رسول توحید و آخرت کی بنیادی دعوت لے کر آتے ہیں اور انہی حقائق کو منوانے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دیتے ہیں۔ جو لوگ یہ دعوت مان لیتے ہیں اللہ کے نبی ان کو ایمان و اخلاق اور شریعت کی وہ تعلیم دیتے ہیں جو ان کے جسمانی، روحانی، اخلاقی اور عقلی وجود کو ہر طرح کی آلودگی سے پاک کر کے انہیں جنت کی پاکیزہ بستی میں بسنے کے قابل بنا دیتی ہے۔
٭٭٭