قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسانی تاریخ۔ قربانی کا بحیثیت مجموعی عبادت کے مشروع ہونا اگرچہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ثابت ہے لیکن اس کی ایک خاص شان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کر دینے کے عزم مصمم والے واقعہ سے شروع ہوتی ہے اور اسی یادگار کی حیثیت سے شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قربانی کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کی راہ میں اپنا مال و متاع حتی کہ جان کا نذرانہ بھی پیش کردینا قربانی ہی کی شکل ہے۔
قربانی کے فضائل
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ‘‘یوم النحر (دسویں ذوالحجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں۔ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا، قربانی کا خون، زمین پر گرنے سے پہلے خدا کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کرتا ہے لہذا اسے خوش دلی سے کرے’’۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتا ہوں۔ (ترمذی 3 : 159، رقم : 1493)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال مقیم رہے اس عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر سال قربانی کی۔ (ترمذی 3، 170، رقم، 1507)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ قربانی کیا شے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اگر مینڈھا ہوتو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تب بھی ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی’’۔ (ابن ماجہ، 3 : 533، رقم : 3127)
قربانی کا مقصود
قربانی بلاشبہ سنت ابراہیمی ہے لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اسلام کی سر بلندی و احیائے دین و ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ بحال کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہیں، مال و دولت، اہل و عیال یہاں تک کہ اپنی جان بھی راہ حق میں لٹانے سے گریز نہ کریں۔ قربانی کے پیچھے جو حکمت کارفرما ہے وہ اخلاص، للہیت، ایثار، تقویٰ اور مجاہدانہ کردار کی تیاری کو یقینی بنانا ہے۔ قربانی محض جانور ذبح کرنا نہیں بلکہ تقویٰ کے جذبات ہیں اور مقصد رضائے الہٰی ہے۔ قربانی اللہ کے دو پیارے پیغمبروں کے مقبول عمل کی یاد کو تازہ رکھنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے اگر ہمیں اپنی اولاد، والدین، وطن، غرض ہر عزیز اور قیمتی شے بھی قربان کرنی پڑے تو دریغ نہ کیا جائے۔
لیکن بدقسمتی سے ہم نے قربانی کی رسم کو تو اپنایا مگر اس کی اصل روح کو نہ سمجھ سکے۔ قربانی 10 ذی الحجہ کو جانور کی گردن پر چھری چلا کر خون بہادینے کا نام نہیں بلکہ دلوں کے تقوے کا نام ہے ۔وہی قربانی قبول ہے جو دلوں کے تقوے کے ساتھ ہو ورنہ صرف گوشت کھانا ہے۔ لَن یَنَالَ اللَّہَ لْحْومْھَا وَلَا دِمَاؤْھَا وَلَکن یَنَالْہْ التَّقوَی مِنکم. (الحج 22 : 37) ‘‘ہر گز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے’’۔
گویا انسان 10 ذی الحجہ کو جانور کی قربانی دے کر ذبح حضرت اسماعیل علیہ السلام والی قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے اور اس دن اللہ سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ اے اللہ! جس طرح آج قربانی کا فدیہ ادا کررہا ہوں اسی طرح اس خون کو گواہ بناکر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تیرے لئے، تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تیرے دین کی سربلندی کے لئے مجھے جان بھی قربان کرنی پڑی تو کبھی بھی دریغ نہیں کروں گا۔ اگر قربانی کے اندر یہ روح کارفرما نہ ہو تو قربانی رسم کے سوا کچھ نہیں۔
قربانی کس پر واجب ہے؟
جس مرد یا عورت میں درج ذیل شرائط پائی جائیں اس پر قربانی واجب ہے۔
1۔ مسلمان ہونا
2۔ عاقل ہونا
3۔ بالغ ہونا
4۔ سفر میں نہ ہونا
5۔ حاجت اصلیہ (یعنی ضرورت کی چیزیں مثلاً مکان، لباس، استعمال کے برتن، سواری اوزار وغیرہ) کے علاوہ 52 تولے چاندی کی قیمت کی نقدی یا سامان تجارت یا کسی اور نصاب کا مالک ہونا۔
قربانی کا جانور ہر عیب سے پاک ہو، عیب سے مراد وہ حصہ ہے جس کے کم ہونے یا نہ ہونے کے سبب جانور کی قیمت کم ہوجائے۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ جانور کے اندر کوئی نقص ہو تو قربانی نہیں ہوتی۔
قربانی کے احکام و مسائل
شریعت اسلامی کے مطابق قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ اپنے لئے، دوسرا حصہ رشتہ داروں اور دوست احباب کے لئے۔ تیسرا حصہ غرباء و مساکین کے لئے ہے۔ جن آبادیوں میں جمعہ و عیدین کی نماز جائز ہے وہاں عید سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے۔ اگر کسی نے نماز عید سے پہلے قربانی کردی تو پھر اس کو دوبارہ کرنا ہوگی اور جہاں نماز جمعہ و عید نہیں پڑھی جاتی وہاں دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق کے بعد قربانی ہوسکتی ہے اگر اس طرح پہلے روز کسی عذر شرعی کی وجہ سے نماز عید نہ پڑھی جاسکے تو نماز عید کا وقت گزر جانے کے بعد قربانی درست ہے۔ (درمختار)
قربانی کی کھال کا مصرف
قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا اس طرح جائز ہے کہ مصلیٰ یا ڈول وغیرہ بنالیا جائے مگر فروخت کرکے پیسے اپنے لئے استعمال کرنا جائز نہیں بلکہ صدقہ کردینا واجب ہے اور قربانی کی کھال کو صدقہ کی نیت کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔ قربانی کی کھال چونکہ قربانی کے جانور کا حصہ ہے۔ اس لئے اسے بھی قربان کرنا یعنی جس سے بلاعذر اپنا ذاتی مفاد وابستہ نہ ہو دے دینا چاہئے۔ مگر ہمارے ہاں شریعت اسلامیہ پر عمل نہیں کیا جاتا۔ فریزر میں مہینوں کا گوشت جمع کرلیا جاتا ہے اور ہم قربانی کے نام پر اپنے آپ سے دھوکہ کررہے ہوتے ہیں۔ جہاں تک جانور کی کھال کے متعلق موجودہ صورتحال ہے تو ہمارے ہاں عموماً کھال کو یا تو بیچ دیا جاتا ہے یا اس کھال کے عوض جانور کو ذبح کروایا جاتا ہے جو کہ غیر شرعی ہے۔ شرعی طریقہ یہ ہے کہ قربانی کی کھال کسی ٹرسٹ اور بہبود کے ادارے کو فری دے دی جائے تاکہ عوام کی فلاح پر وہ پیسہ لگایا جاسکے۔
قربانی کا مسنون طریقہ
بہتر یہ ہے کہ قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھ سے خود ذبح کیا جائے۔ اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی صحیح العقیدہ مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کے لئے کہے اور بوقت ذبح خود موجود ہو۔ ذبح کرنے والے کے لئے تکبیر ذبح (بسم اللہ، اللہ اکبر) کہنا لازمی ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم فرمایا جس کے ہاتھ پیر اور آنکھیں سیاہ ہوں۔ سو قربانی کے لئے ایسا مینڈھا لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ (رضی اللہ عنہا) چھری لاؤ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا اور ذبح کرنے لگے، پھر فرمایا : اللہ کے نام سے، اے اللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اسے قبول فرما پھر اس کی قربانی کی۔ (صحیح مسلم، 3 : 1557، رقم : 1967) اللہ تعالی ہمیں مکمل طور پر قربانی کا فلسفہ سمجھ کر فقط رضائے الہی کی خاطر ہر طرح کی قربانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین