من الظلمت الی النور
میں کیسے مسلمان ہوا؟
رام جی لال گپتا(محمد عمر)
میری زندگی خود اللہ کی دیا و کرم کی کھلی نشانی ہے،کہاں مجھ جیسا خدا اور خدا کے گھر کا دشمن اور کہاں میرے مالک کا مجھ پر کرم،کاش کچھ پہلے میری حضرت صاحب یا حضرت صاحب کے کسی آدمی سے ملاقات ہوجاتی تو میرا لاڈلابیٹاایمان کے بغیر نہ مرتا،(رونے لگتے ہیں اور بہت دیر تک روتے رہتے ہیں،روتے ہوئے) مجھے کتنا سمجھا تا تھا اور مسلمانوں سے کیسا تعلق رکھتا تھاوہ اور ایمان کے بغیر مجھے بڑھاپے میں اپنی موت کا غم دے کر چلا گیا۔
سوال :سیٹھ صاحب،پہلے آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے؟
جواب : میں لکھنؤ کے قریب ایک قصبے کے تاجرخاندان میں پہلی بار اب سے ۶۹؍ سال پہلے ۶؍ دسمبر ۱۹۳۹ ء میں پیدا ہوا،گپتا ہماری گوت ہے،میرے پتاجی کریانہ کی تھوک کی دکان کرتے تھے ۔ہماری چھٹی پیڑھی سے ہر ایک کے یہاں ایک ہی اولاد ہوتی آئی ہے،میں اپنے پتاجی کااکیلا بیٹاتھا۔نویں کلاس تک پڑھ کر دکان پر لگ گیا،میرا نام رام جی لال گپتا میرے پتاجی نے رکھا۔
سوال :پہلی مرتبہ ۶؍ دسمبر کو پیدا ہوئے توکیا مطلب ہے؟
جواب : اب دوبارہ اصل میں اسی سال ۲۲؍ جنوری کو چند مہینے پہلے میں نے دوبارہ جنم لیا اور سچی بات یہ ہے کہ پیدا تو میں ابھی ہوا،پہلے جیون کو اگر گنیں ہی نہیں تو اچھا ہے،وہ تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
سوال :جی ! تو آ پ خاندانی تعارف کرارہے تھے؟
جواب : گھر کا ماحول بہت دھارمک(مذہبی) تھا،ہمارے پتاجی ضلع کے بی جے پی ، جو پہلے جن سنگھ تھی ، کے ذمہ دار تھے، اس کی وجہ سے اسلام اورمسلم دشمنی ہمارے گھر کی پہچان تھی اور یہ مسلم دشمنی جیسے گھٹی میں پڑی تھی۔ ۱۹۸۶ء میں بابری مسجد کا تالا کھلوانے سے لے کر بابری مسجد کی شہادت کے گھناؤنے جرم تک میں اس پوری تحریک میں آخری درجہ کے جنون کے ساتھ شریک رہا۔میری شادی ایک بہت بھلے اور سیکولر خاندان میں ہوئی،میری بیوی کا مزاج بھی اسی طرح کا تھا اور مسلمانوں سے ان کے گھر والوں کے بالکل گھریلو تعلقات تھے میری بارات گئی،تو سارے کھانے اور شادی کا انتظام ہمارے سسر کے ایک دوست خاں صاحب نے کیا تھا اور دسیوں داڑھی والے وہا ں انتظام میں تھے جو ہم لوگوں کو بہت برا لگا تھا اور میں نے ایک بار تو کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا کہ کھانے میں ان مسلمانوں کا ہاتھ لگا ہے ہم نہیں کھائیں گے مگر بعد میں میرے پتاجی کے ایک دوست تھے پنڈت جی، انھوں نے سمجھایا کہ ہندو دھرم میں کہا ں آیا ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ لگا کھانا نہیں کھانا چاہئے۔ بڑی کراہیت کے ساتھ بات نہ بڑھانے کے لئے میں نے کھانا کھا لیا۔ ۱۹۵۲ ء میں میری شادی ہوئی تھی،نو سال تک ہمارے کوئی اولاد نہیں ہوئی ،نو سال کے بعد مالک نے ۱۹۶۱ ء میں ایک بیٹا دیا،اس کا نام میں نے یوگیش رکھا،اس کو میں نے پڑھایا اور اچھے سے سکول میں داخل کرایا اور اس خیال سے کہ پارٹی اور قوم کے نام اس کو ارپِت(وقف)کروں گا،اس کو سوشیالوجی میں پی ایچ ڈی کرایا،شروع سے آخر تک وہ ٹاپر رہا،مگر اس کا مزاج اپنی ماں کے اثرمیں رہا اور ہمیشہ ہندؤوں کے مقابلے مسلمانوں کی طرف مائل رہتا۔فرقہ وارانہ مزاج سے اس کو الرجی تھی،مجھ سے بہت ادب کرنے کے باوجود اس سلسلہ میں بحث کر لیتا تھا، دوبار وہ ایک ایک ہفتہ کے لئے میرے رام مندر تحریک میں جڑنے اور اس پر خر چ کرنے سے ناراض ہوکر گھر چھوڑ کر چلا گیا، اس کی ماں نے فون پر روروکر اس کو بلایا۔
سوال :اپنے قبول اسلام کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائیے؟
جواب : مسلمانوں کو میں اس ملک پر آکرمن (قبضہ)کرنے والا مانتا تھا،یا پھر مجھے رام جنم بھومی مندر کو گراکر مسجد بنانے کی وجہ سے بہت چڑ تھی اور میں ہر قیمت پریہاں رام مندربنانا چاہتا تھا، اس کے لئے میں نے تن، من، دھن سب کچھ لگایا، ۸۷ء سے لے کر۲۰۰۵ء تک رام مندر آندولن اوربابری مسجد گرانے والے کارسیوکوں پروشو ہندو پریشد کو چندہ میں کل ملا کر ۲۵؍ لاکھ روپئے اپنی ذاتی کمائی سے خرچ کئے،میری بیوی اور یوگیش اس پر ناراض بھی ہوئے تھے ،یوگیش کہتا تھااس دیش پر تین طرح کے لوگ آکرباہر سے راج کرتے آئے ،ایک توآرین آئے انھوں نے اس دیش میں آکرظلم کیا،یہاں کے شودروں کو داس بنایا اور اپنی ساکھ بنائی،دیش کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔آخری درجہ میں اتیاچار (ظلم)کئے،کتنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔تیسرے انگریز آئے انھوں نے بھی یہاں کے لوگوں کوغلام بنایا،یہاں کا سونا،چاندی،ہیرے انگلینڈ لے گئے،حد درجہ اتیاچارکئے،کتنے لوگوں کومارا قتل کیا،کتنے لوگوں کو پھانسی لگائی۔
دوسرے نمبرپرمسلمان آئے،انھوں نے اس دیش کو اپنا دیش سمجھ کر یہاں لال قلعے بنائے،تاج محل جیسا دیش کے گورو کا پاتر(قابل فخر عمارت)بنائی،یہاں کے لوگوں کو کپڑا پہننا سکھایا، بولناسکھایا،یہاں پر سڑکیں بنوائیں،سرائیں بنوائیں،خسرہ کھتونی ڈاک کانظام اور آب پاشی کانظام بنایا،نہریں نکالیں اور دیش میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کوایک کرکے ایک بڑا بھارت بنایا ایک ہزار سال الپ سنکھیا (اقلیت)میں رہ کر اکثریت پر حکومت کی اور ان کومذہب کی آزادی دی ۔وہ مجھے تاریخ کے حوالوں سے مسلمان بادشاہوں کے انصاف کے قصے دکھاتا،مگر میری گھٹی میں اسلام دشمنی تھی وہ نہ بدلی۔
۳۰؍دسمبر ۱۹۹۰ء میں بھی میں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء میں تو میں خود ایودھیا گیا۔میرے ذمہ ایک پوری ٹیم کی کمان تھی،بابری مسجد شہید ہوئی تو میں نے گھرآکر ایک بڑی دعوت کی ۔میرا بیٹا یوگیش گھر سے ناراض ہوکر چلا گیا،میں نے خوب دھوم دھام سے جیت کی تقریب منائی رام مندر کے بنانے کے لئے دل کھول کر خرچ کیا، مگر اندر سے ایک عجیب سا ڈر میرے دل میں بیٹھ گیا اور بار بار ایسا خیال ہوتا تھا کوئی آسمانی آفت مجھ پر آنے والی ہے،۶؍ دسمبر ۱۹۹۳ ء آیا تو صبح صبح میری دکان اور گودام میں جو فاصلے پر تھے بجلی کا تار شارٹ ہونے سے دونوں میں آگ لگ گئی اور تقریبا دس لاکھ روپئے سے زیادہ کامال جل گیا اس کے بعد سے تو اور بھی زیادہ دل سہم گیا،ہر ۶؍ دسمبر کو ہمارا پورا پریوار سہماسا رہتا تھا اور کچھ نہ کچھ ہو بھی جاتا تھا،۶؍ دسمبر ۲۰۰۵ء کو یوگیش ایک کام کے لئے لکھنؤ جا رہا تھا اس کی گاڑی ایک ٹرک سے ٹکرائی اور میرا بیٹا اور ڈرائیور موقع پر انتقال کر گئے اس کا نوسال کا ننھا سا بچہ اور چھ سال کی ایک بیٹی ہے، یہ حادثہ میرے لئے ناقابل برداشت تھا اور میرا دماغی توازن خراب ہوگیا، کاروبار چھوڑ کر دربدر مارا پھرا،میری بیوی مجھے بہت سے مولانا لوگوں کو دکھانے لے گئی،ہردوئی میں بڑے حضرت صاحب کے مدرسے میں لے گئی، وہاں پربہار کے ایک قاری صاحب ہیں، کچھ ہوش تو ٹھیک ہوئے، مگر میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میں غلط راستہ پر ہوں، مجھے اسلام کو پڑھنا چاہئے اسلام پڑھنا شروع کیا۔
سوال :اسلام کے لئے آپ نے کیا پڑھا؟
جواب : میں نے سب سے پہلے حضرت محمد ﷺ کی ایک چھوٹی سیرت پڑھی،اس کے بعد’’ اسلام کیا ہے؟‘‘ پڑھی’’اسلام ایک پریچے‘‘ مولانا علی میاں جی کی پڑھی، ۵؍ دسمبر ۲۰۰۶ء کو مجھے حضرت صاحب کی چھوٹی سی کتاب’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں‘‘ ایک لڑکے نے لاکردی،۶؍ دسمبر اگلے روز تھی،میں ڈر رہا تھاکہ اب کل کو کیا حادثہ ہوگا،اس کتاب نے میرے د ل میں یہ بات ڈالی کہ مسلمان ہوکر اس خطرہ سے جان بچ سکتی ہے اور میں ۵؍ دسمبر کی شام کو پانچ چھ لوگوں کے پاس گیا مجھے مسلمان کرلو،مگر لوگ ڈرتے رہے،کوئی آدمی مجھے مسلمان کرنے کو تیار نہ ہوا۔
سوال :آپ ۶؍ دسمبر ۲۰۰۶ ء کو مسلمان ہوگئے تھے، آپ تو ابھی فرمارہے تھے کہ چند مہینے پہلے ۲۲؍جنوری ۲۰۰۹ ء کوآپ مسلمان ہوئے۔
جواب : میں نے ۵؍ دسمبر ۲۰۰۶ ء کو مسلمان ہونے کا پکا ارادہ کرلیا تھا،مگر ۲۲؍ جنوری کو اس سال تک مجھے کوئی مسلمان کرنے کو تیار نہیں تھا۔حضرت صاحب کو ایک لڑکے نے جو ہمارے یہاں سے جاکر پھلت مسلمان ہوا تھا ،بتایا کہ ایک لالہ جی جو بابری مسجد کی شہادت میں بہت خرچ کرتے تھے مسلمان ہو نا چاہتے ہیں،تو حضرت نے ایک ماسٹر صاحب کو (جو خود بابری مسجدکی شہادت میں سب سے پہلے کدال چلانے والے تھے) بھیجا،وہ پتہ ٹھیک نہ معلوم ہو نے کی وجہ سے تین دن تک دھکے کھاتے رہے،تین دن کے بعد ۲۲؍ جنوری کووہ مجھے ملے اور انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور حضرت صاحب کا سلام بھی پہنچایا۔صبح سے شام تک وہ حضرت صاحب سے فون پر بات کرانے کی کوشش کرتے رہے مگر حضرت مہاراشٹر کے سفر پر تھے،شام کو کسی ساتھی کے فون پربڑی مشکل سے بات ہوئی ماسٹر صاحب نے بتایا کہ سیٹھ جی سے ملاقات ہوگئی ہے اورا لحمد للہ انھوں نے کلمہ پڑھ لیا ہے،آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور آپ انھیں دوبارہ کلمہ پڑھوادیں ۔ حضرت صاحب نے مجھے دوبارہ کلمہ پڑھوایا اور ہندی میں بھی عہد کروایا ۔
میں نے جب حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضرت صاحب،مجھ ظالم نے اپنے پیارے مالک کے گھر کو ڈھانے اور اس کی جگہ شرک کا گھر بنانے میں اپنی کمائی سے ۲۵لاکھ روپئے خرچ کئے ہیں، اب میں نے اس گناہ کی معافی کے لئے ارادہ کیا ہے کہ ۲۵لاکھ روپئے سے ایک مسجد اور مدرسہ بنواؤں گا آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ جب اس کریم مالک نے اپنے گھر کو گرانے اور شہید کرنے کو میرے لئے ہدایت کا ذریعہ بنادیا ہے تو مالک میرا نام بھی اپنا گھر ڈھانے والو ں کی فہرست سے نکال کر اپنا گھر بنانے والوں میں لکھ لیں اورمیرا کوئی اسلامی نام بھی آپ رکھ دیجئے،حضرت صاحب نے فون پر بہت مبارک باد دی اور دعا بھی کی اور میرا نام محمد عمر رکھا۔میرے مالک کا مجھ پر کیسا احسان ہوا،مولوی صاحب اگر میرا رواں رواں،میری جان میرا مال سب کچھ مالک کے نام پر قربان ہو جائے تو بھی اس مالک کا شکر کیسے ادا ہو سکتا ہے کہ میرے مالک نے میرے اتنے بڑے ظلم اور پاپ کو ہدایت کا ذریعہ بنادیا۔
سوال :آگے اسلام کو پڑھنے وغیرہ کے لئے آپ نے کیا کیا؟
جواب : میں نے الحمد للہ گھر پر ٹیوشن لگایا ہے،ایک بڑے نیک مولانا صاحب مجھے مل گئے ہیں وہ مجھے قرآن بھی پڑھا رہے ہیں سمجھا بھی رہے ہیں۔
سوال :آپ کی بیوی اور پوتے پوتی کا کیا ہوا؟
جواب : میرے مالک کا کرم ہے کہ میری بیوی،یوگیش کی بیوی اور دونوں بچے مسلمان ہو گئے ہیں اور ہم سبھی ساتھ میں پڑھتے ہیں۔
سوال :آپ یہاں دہلی کسی کام سے آئے تھے؟
جواب : نہیں صرف مولانا نے بلایا تھا،ایک صاحب مجھے لینے کے لئے گئے تھے،حضرت صاحب سے ملنے کا بہت شوق تھا بار بار فون کرتا تھا مگر معلوم ہوتا تھا کہ سفر پر ہیں اللہ نے ملاقات کرادی بہت ہی تسلی ہوئی۔
سوال :ابی سے اورکیا باتیں ہوئیں؟
جواب : حضرت صاحب نے مجھے توجہ دلائی کہ آپ کی طرح کتنے ہمارے خونی رشتہ کے بھائی بابری مسجد کی شہادت میں غلط فہمی میں شریک رہے،آپ کو چاہئے کہ ان پر کا م کریں،ان تک سچائی کوپہنچانے کا ارادہ توکریں،میں نے اپنے ذہن سے ایک فہرست بنائی ہے،اب میری صحت اس لائق نہیں کہ میں کوئی بھاگ دوڑ کروں مگر جتنا دم ہے وہ تواللہ کا اور اس کے رسول ﷺ کا کلمہ اس کے بندوں تک پہنچانے میں لگنا چاہئے۔
سوال :مسلمانو ں کے لئے کوئی پیغام آپ دیں گے؟
جواب : میرے یوگیش کا غم مجھے ہر لمحہ ستاتا ہے، مرنا تو ہر ایک کو ہے ،مولوی صاحب ! موت تو وقت پر آتی ہے اور بہانہ بھی پہلے سے طے ہے، مگر ایمان کے بغیر میرا ایسا پیارا بچہ جو مجھ جیسے ظالم اور اسلام دشمن بلکہ خدا دشمن کے گھر پیدا ہو کر صرف مسلمانوں کا دم بھرتا ہو وہ اسلام کے بغیر مر گیا، اس میں مسلمانوں کے حق ادا نہ کرنے کا احساس میرے دل کا ایسا زخم ہے جو مجھے کھائے جا رہا ہے، ایسے نہ جانے کتنے جوان ،بوڑھے موت کی طرف جا رہے ہیں ان کی خبر لیں۔
سوال : بہت بہت شکریہ سیٹھ عمر صاحب ! اللہ تعالی آپ کو بہت بہت مبارک فرمائے، یو گیش کے سلسلہ میں تو ابی ایسے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ فطرت اسلامی پر رہنے والے لوگوں کو مرتے وقت فرشتے کلمہ پڑھوادیتے ہیں،ایسے واقعات ظاہر بھی ہوئے ہیں،آپ اللہ کی رحمت سے یہی امید رکھیں یوگیش مسلمان ہو کر ہی مرے ہیں۔
جواب : اللہ تعالی آپ کی زبان مبارک کرے،مولوی احمد صاحب اللہ کرے ایسا ہی ہو،میرا پھول سا بچہ مجھے جنت میں مل جائے۔
سوال :آمین ثم آمین انشاء اللہ ضرور ملے گا، السلام علیکم
جواب : وعلیکم السلام
مستفاداز ماہ نامہ ارمغان ،جون ۲۰۰۹ ء
بشکریہ : مستفاداز ماہ نامہ ارمغان ،جون ۲۰۰۹ ء