تبوک کے میدان میں رات کے وقت سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ کوروشنی نظر آئی ، یہ اس سمت چل پڑے ۔قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک قبر ہے جس کے کنارے سیدنا بلالؓ چراغ لیے کھڑے ہیں۔صدیق اکبرؓ اور عمر فاروقؓ اپنے ہاتھوں سے میت کو لحد میں اتار رہے ہیں۔ آقا ﷺ قبر کے اندر کھڑے ہیں اور ابوبکر اور عمر کو کہہ رہے ہیں کہ ادبا الی اخیکما ، اپنے بھائی کو ادب سے لحد میں اتارو۔جب میت لحد میں رکھ دی گئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "اینٹیں میں خود رکھوں گا۔"چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ا پنے دست مبارک سے قبرمیں انیٹیں لگائیں۔ تدفین مکمل ہوچکی توحضور نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اورفرمایا: "الہی! میں آج شام تک مرنیوالے سے خوش رہا توبھی اس سے راضی ہوجا۔" عبداللہ ابن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے وہ قبر کبھی نہیں بھولی جس میں عبداللہ ذوالبجادین کو دفن کیا گیا تھا،میں یہ حسرت رکھتا ہوں کہ کاش اس قبر میں ، میں دفن کیا گیا ہوتا۔ سچ فرمایا سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ نے ، انسان کی زندگی میں بعض اوقات واقعتا ایسے لمحے آجاتے ہیں کہ جب وہ بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ کاش اس کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہوتا ۔ عبداللہ ابن مسعودؓ کے اس ارشاد کے پس منظر میں بلا تشبیہ عرض کرتاہوں کہ بندہ نے جب محتر م بھائی عارف علوی کا مضمون مولانا عبدالغفور کی شخصیت کے بارے میں پڑھا تو بے ساختہ یہ پکار اٹھاکہ کاش میں بھی اس مسجد کا ایک نمازی ہوتا جس میں مولانا جیسا پیر اور عارف علوی جیسا دراز قامت اور بلند حوصلہ مرید موجود تھا۔
راقم کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ کاش وطن عزیز کی ہر مسجد صرف مسلمانوں کی مسجد بن جائے لیکن یا حسرتا کہ لاکھوں مسجد وں میں سے بمشکل چند ہی ہوں گی جو صرف اورصرف مسلمانوں کی مسجدیں ہیں باقی سب کسی نہ کسی فرقے اور جماعت کی مسجدیں ہیں اور ان میں تعینات علمائے کرام کی حالت یہ ہوتی ہے کہ کسی دوسرے فرقے یاجماعت کا ساتھ دینا تو دور کی بات ہے ان کا نام سن کر ہی ان کی پیشانی پر سلوٹیں پڑ جاتی ہیں ،رگیں پھول جاتی ہیں اور سانس کی آمدورفت غیر معقول ہو جاتی ہے ۔راقم ا سی تلاش میں کتنی ہی دینی جماعتوں ، گروہوں ، حلقوں اور شخصیات کے قریب ہوا مگر ہر قریبی کا نتیجہ دوری نکلا کیونکہ ہر سائن بورڈ پر اگرچہ رواداری ، اتحاد ، اتفاق اور وسعت لکھا ہو اتھا مگر اند ر وہی تعصب ، تنگ نظری، عدم برداشت ، منافقت ، اور جماعتی عصبیت کامال بھرا تھا۔ ہر جگہ رب چاہی کے نام پر من چاہی اور اللہ پرستی کے نام پر اکابر پرستی ، مقابر پرستی اور مفاد پرستی جاری تھی۔اس پر راقم نے سوچا کہ کیوں نہ خود ہی ایک مسجد بنا لی جائے جس میں یہ نمونہ قائم کیا جائے کہ مسجد صرف مسلمانوں کی ہوتی ہے اور اس میں ہر مسلک اور ہر مکتبہ فکر کو مل جل کر کام کرنے دیا جائے مگر وائے ناکامی کہ مسجد تو الحمد للہ قائم ہو گئی مگر اپنے مقصد کے اعتبار سے آج پندر ہ برس بعد بھی راقم وہیں کا وہیں کھڑا ہے کہ جہاں سے چلا تھا۔لوگ آج بھی یہی سوال کرتے ہیں کہ یہ مسجد کس مسلک کی ہے اور جس بھی جماعت یا گروہ کو وہاں کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے ، دین کے کام سے زیادہ اس کی کوششوں کا مرکز و محور یہ بن جاتاہے کہ یا تو اس مسجد پر قبضہ ہو جائے او ر یا پھر اسی کی جماعت اور گروپ کا یہاں غلبہ ہوجائے اور باقی ہر ایک کو کا م سے روک دیا جائے ۔راقم نے ہر گروہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مسجد کا انتظام و انصرام تو ظاہر ہے کہ ایک ہی مسلک یا ایک ہی منہج پر چلایا جائے گا باقی آپ کو پوری آزادی ہے، آپ علم، عمل ، دعوت ،ذکر، تحریک جو بھی برپا کرنا چاہتے ہیں وہ کیجیے مگر ہمیں کم از کم مسجد کا منتظم رہنے دیجیے تا کہ ہر مسلک کے لیے اس کے دروازے کھلے رہیں لیکن ہر ایک نے کہا کہ آپ پیچھے ہٹ جائیے ،حق صرف اور صرف ہمارے پاس ہے اس لیے ہمیں باطل کی بیخ کنی کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہییے ۔اور باطل وہی ہوتا ہے جسے ہم باطل کہیں اور حق بھی وہی ہے جو ہمارے نزدیک حق ہے ۔اور جب راقم نے سب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہر مسلک یاہر شخصیت کے پاس حق کا کچھ حصہ ہونے کے امکانا ت موجود ہیں توکوئی بھی جماعت اور مسلک اس شرک فی الجماعت یا شرک فی الاشخاص کو برداشت نہ کر سکا ۔نتیجہ وہی نکلا جو ہر مسجد میں نکلتا ہے کہ ٹوٹی پھوٹی اذان، ڈھیلی ڈھالی نماز ، آٹھ صفیں اور چار نمازی ۔نہ ذکر کی کوئی محفل ، نہ درس کی کوئی رونق ، نہ دعوت و تبلیغ کی بہار، نہ خدمت خلق کی کوئی کوشش اور نہ قال ، قال رسول اللہ کی آواز ۔۔۔۔ لیکن آج عارف علوی کا مضمون پڑھ کر یہ سوچتا ہوں کہ غلطی کسی کی نہیں میری اپنی تھی ۔فرقوں اور مسلکوں کی مساجد بنانا اورانہیں چلاناتوآسان ہے لیکن ایسی مسجد آباد کرنا جو صرف اور صرف مسلمانوں کی ہو یہ ایک بڑا کا م ہے اور بڑے کام کے لیے مولانا عبدالغفور چاہییے اور یا پھر عارف علوی ۔ نہ میں عبدالغفور اور نہ میرے پاس عارف علوی تو پھر یہ سب کیسے ہوتا ۔۔۔۔؟