میں نے اسلام کیسے قبول کیا؟

مصنف : عابد حامدی (بھولا ناتھ)

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اکتوبر 2011

میرا خاندانی نام بھولا ناتھ ہے۔ میرے والد کا نام کیدار ناتھ تھا۔ میں ۱۹۵۰ء میں پلہری گاؤں ضلع باندہ (یوپی) میں پیدا ہوا۔ میرے والد کا آبائی پیشہ جوتا سازی تھا۔ میں نے انٹرمیڈیٹ اور B.T.C ببیرو ضلع باندہ سے کیا۔ دوران تعلیم جن دنوں میں ہاسٹل میں رہتا تھا، میرا ایک روم پارٹنر تبارک حسین نامی ایک مسلمان طالب علم تھا، لیکن اس کا کردار اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ تبارک حسین سے ملنے ہردولی گاؤں کے جماعت اسلامی کے ایک رکن جناب اشرف حسین صاحب آتے جاتے تھے۔ ان کی یہ ملاقاتیں دعوتی نوعیت کی ہوتی تھیں۔ مجھے بھی ان ہی کے ذریعے اسلامی عقائد خصوصاً توحید، رسالت و آخرت کے بارے میں جان کاری ملی۔ میری اشرف حسین صاحب سے ان موضوعات پر خو ب خوب بحثیں ہوئیں۔ شرک کو تو میں پہلے ہی سے ناپسند کرتا تھا اور بت پرستی سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی، بلکہ توحید تو میرے دل کی آواز تھی۔ تبادلۂ خیال کے نتیجے میں میں اسلام کے عقائد اور تعلیمات سے کافی متاثر ہوا۔ اسی دوران اشرف حسین صاحب کے سمجھانے بجھانے سے تبارک حسین نے بھی اپنا رویہ تبدیل کر لیا اور پھر جس سے میرا مزاج بالکل میل نہیں کھاتا تھا، وہ اور میں دونوں آپس میں گھی شکر ہو گئے۔

اسی دوران علاقے میں ایک سنسنی خیز واقعہ پیش آیا، جس سے مجھے اسلام کی طرف پیش قدمی کے سلسلے میں فیصلہ کرنے میں آسانی ہوئی۔ علاقے کا بڑھئی برادری کا ایک ہندو نوجوان ممبئی سے ایک مسلمان لڑکی کو اپنے گاؤں لے آیا۔ وہ گاؤں اصلاً ٹھاکروں کا تھا۔ ہر قسم کے اثرات اور دباؤ کے باوجود گاؤں والے لڑکی کو واپس کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ کافی تناؤ والے ماحول میں اشرف حسین صاحب نے کسی طرح خفیہ طور سے لڑکی سے رابطہ قائم کیا او رپھر لڑکے سے بھی ربط قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ لڑکے کو انھوں نے باندہ ہمارے ہاسٹل کے کمرے میں بلایا۔ اس کی خوب خاطر تواضع کی۔ اسے تحفے تحائف دیے اوراسلام کے بارے میں سمجھاتے ہوئے اس کے سامنے یہ بات رکھی کہ تمھارے گاؤں کے ٹھاکر تمھیں جان سے مارنے کے بعد تمھاری خوب صورت بیوی کو ہتھیا لیں گے، اس لیے دنیا و آخرت میں مسئلے کا حل یہ ہے کہ تم اسلام قبول کر لو۔ یہ با ت اس نوجوان کی سمجھ میں آ گئی۔ بہرحال انتہائی منصوبہ بندی سے لڑکے اور لڑکی کو اس گاؤں سے نکال کر فتح پور یوپی لے گئے۔ وہاں لڑکے نے اسلام قبول کیا اور پھر اسے ککرالہ ضلع بدایوں بھیج دیا، جہاں کی اسلامی درس گاہ میں دونوں میاں بیوی تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔ بعد میں لڑکے نے ممبئی میں اپنی سسرال سے بھی تعلقات بہتر کر لیے اور پھر وہ دونوں ممبئی منتقل ہو گئے۔

اشرف حسین صاحب نے انتہائی فرقہ وارانہ جذباتی اور بظاہر لا ینحل حساس مسئلے کو جس خوبصورتی سے حل کیا اور اس سلسلے میں مسلمانوں نے انھیں جو تعاون دیا، اس سے میں کافی متاثر ہوا۔ مجھے حوصلہ ملا۔ اسی دوران میں نے اسلام کے سلسلے میں مطالعہ اور تبادلۂ خیال جاری رکھا۔ BTC کا امتحان دینے کے بعد اشرف حسین صاحب نے مجھے لکھنؤ لے جانے کا پروگرام بنایا ، چنانچہ ۱۹۷۱ء میں تبارک حسین اور اسلام سے متاثر چند دوسرے ہندو ساتھیوں کے ساتھ میں لکھنؤ جماعت اسلامی اتر پردیش حلقے کے آفس پہنچا۔ پروگرام کے مطابق پیچھے سے اشرف حسین صاحب بھی لکھنؤ پہنچ گئے۔ وہاں میری ملاقات امیر حلقہ جناب سید حامد حسین مرحوم، مولوی عبد الغفار ندویؒ، مولوی حبیب اللہ ندویؒ سے ہوئی۔ حلقے کے آفس میں ہونے والے درس قرآن میں بھی ہم لوگ شریک ہوتے رہے۔ میں نے نماز بھی وہیں سیکھی۔ اشرف حسین صاحب کی معیت میں ہم لوگوں نے شیخ ابو الحسن ندویؒ سے ملاقا ت کی۔ شیخ علی میاں نے ہم لوگوں کو دوپہر میں کھانے کی دعوت دی۔ دعوت کے بعد کچھ کتابیں مطالعے کے لیے دیں۔ انھوں نے ہمیں خوب دعائیں دے کر رخصت کیا۔ مئی ۱۹۷۱ء میں اتر پردیش حلقہ لکھنؤ کے آفس میں مولوی حبیب اللہ ندویؒ کے ہاتھ پر میں نے اسلام قبول کیا۔ عبد الرحمن نام رکھا گیا۔

لکھنؤ چند روز رہنے کے بعد میں وطن آ گیا۔ گھر پر سب سے پہلے مسئلہ یہ پیش آیا کہ نماز کیسے اداکی جائے؟ ایک دو وقت کی نمازیں توگاؤں سے باہر تالاب کے کنارے پڑھیں، لیکن پھر ذہن میں آیا کہ ہندی میں نماز کی کتاب والدہ کو سنائی جائے۔ کتاب سنانے کے ساتھ میں نے والدہ کا ذہن اس طرح بنایا کہ ایشور (خدا) کی عبادت اس طرح کی جائے تو کیا حرج ہے؟ والدہ نے کہا کہ کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح گھر پر میں نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ ایک دن مجھے نماز پڑھتے والد صاحب نے دیکھ لیا، چونکہ ان کا چہیتا اکلوتا لڑکا تھا،میرے علاوہ ان کی صرف ایک لڑکی یعنی میری بہن تھی، اس لیے گھر کا ماحول مکدر نہ ہوا۔ میں گھر پر دس پندرہ روز رہا۔

اسی دوران جماعت اسلامی بریلی ڈویژن کا تین روزہ اجتماع بریلی میں تھا۔ اشرف حسین صاحب نے مجھے فتح پور کے سعید اختر صاحب کے ہم راہ بریلی کے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی۔ میں اجتماع میں شریک ہوا۔ وہیں میری ملاقات سید حامد علی علیہ الرحمہ سے ہوئی۔ سید حامد علی علیہ الرحمہ نے اجتماع کے دوران ہی ‘‘ہماری کتاب’’ قاعدہ منگوائی اور مجھے اردو پڑھانا شروع کی۔ اسی دوران میرے بارے میں فیصلہ ہوا کہ مجھے سید حامد علی کے ہمراہ تعلیم و تربیت کے لیے ان کے وطن میران پور کٹرہ ضلع شاہجہان پور (یوپی) بھیج دیا جائے، جہاں ان دنوں مولوی صاحب رہائش اختیار کیے ہوئے تھے۔ سید حامد علی کے ذریعے میری تعلیم و تربیت کے علاوہ وہاں کی درس گاہ اسلامی میں ہندی، حساب اور انگریزی بھی پڑھانے لگا، چونکہ مولوی سید حامد علی زیادہ تر دورے پر رہتے تھے، اس لیے انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کٹرہ میں مقیم رکن جماعت ڈاکٹر ولی اللہ صدیقی مرحوم سے اردو وغیرہ پڑھوں۔ الحمد للہ ۱۸ دنوں کے اندر مجھے اردو کی اتنی استعداد ہو گئی کہ میں نے ماہ نامہ نور والحسنات کو پڑھنا شروع کر دیا۔

کچھ عرصے کے بعد میں وطن گیا، اور والدین کو اپنے قبول اسلام کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ والدین نے مجھے برا بھلا تو نہ کہا، البتہ انھیں میرے قبولیت اسلام سے بہت زیادہ دکھ ہوا۔ B.T.C کے بعد مجھے ٹیچر کی سرکاری نوکری ملنے کے وسیع امکانات تھے، لیکن میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ میں سرکاری نوکری نہیں کروں گا۔ والدین نے کافی کوشش کی کہ میں اپنے دونوں فیصلے بدل دوں۔ لیکن میں نے سختی کے ساتھ انکار کر دیا۔ اپنے وطن ہی سے میں نے سید حامد علی کو میران پور کٹرہ خط لکھ کر اپنے دونوں فیصلوں سے آگاہ کیا۔ اس خط کو میں نے اردو میں لکھا تھا اور مولوی سید حامد علی کو ‘‘ابو جان’’ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ گھر سے جب رخصت ہونے لگا تو والدہ زار و قطار رو رہی تھیں۔ لیکن الحمد للہ، اللہ نے مجھے استقامت دی۔ اور میں وطن سے کٹرہ واپس آ گیا۔ کٹرہ واپس آنے کے کچھ روز بعد والدہ کا میرے نام خط آیا، جس میں انھوں نے بتایا کہ میرا ٹیچر کی حیثیت سے سلیکشن ہو چکا ہے اور اس کا آرڈر لیٹر بھی موصول ہو چکا ہے۔ میں نے والدہ کے اس خط کا جواب دیا اور اس میں پھر اس فیصلے کو دہرایا کہ مجھے سرکاری ملازمت نہیں کرنی ہے۔

کچھ دنوں کے بعد میں پھر گیا تو وہاں میرے قبولیت اسلام کی خبر عام ہو چکی تھی۔ میری بچپن ہی میں شادی ہو گئی تھی، لیکن چونکہ لڑکی کی عمر بہت کم تھی، اس لیے اہلیہ باضابطہ رخصت ہو کر گھر نہیں آئی تھیں۔ میرے سسرال والوں نے میرے اسلام قبول کرنے پر پہلے تو نہایت برہمی کا اظہار کیا، لیکن اپنی لڑکی کو میری موجودگی میں میرے گھر بھیج دیا۔ میں نے سسرال والوں، سسر اور سالے صاحبان وغیرہ کے سامنے یہ بات واضح کر دی کہ اگر لڑکی اسلام قبول کر لیتی ہے، تبھی میں اسے اپنے ساتھ رکھوں گا، ورنہ نہیں۔ سسرال والوں نے آپس میں بتادلۂ خیال کیا، لیکن نہ ہی سسرال والوں کی اور نہ ہی بیوی کی اس معاملے میں آمادگی ہوئی۔ اس طرح میری شادی کا معاملہ ختم ہو گیا۔ گاؤں کے لوگوں نے میرے والدین سے مطالبہ کیا کہ اسے ہمارے حوالے کر دو، ہم اس سے نپٹ لیں گے۔ لیکن والدین اس کے لیے قطعاً تیار نہ ہوئے۔ میں گاؤں سے واپس آیا، لیکن وقتاً فوقتاً والدین سے ربط و تعلق برقرار رکھنے کے لیے اس طرح وطن جاتا کہ کم سے کم لوگوں کو اس کی اطلاع ہوتی اور میں واپس آ جاتا۔ والدین سے بہتر تعلقات والا رویہ میں اسلامی تعلیمات ہی کی روشنی میں انجام دے رہا تھا۔

میں مولوی سید حامد علی کے گھر رہتا رہا۔ مولوی صاحب ، ان کی اہلیہ اور ان کے بچے سب مجھے اپنے گھر ہی کا ایک فرد سمجھتے تھے۔ الحمد للہ، گھر میں مجھے پوری اپنائیت کا ماحول ملا۔ وہاں مجھے غیریت کا قطعاً احساس نہ ہوا۔ میں نے سید حامد علی سے کہا کہ میں آپ کو ابو اور امی کو امی کہتا ہوں، اس لیے نام بھی اپنے بچوں (خالد حامدی، راشد حامدی) کی طرح رکھ دیجیے، اس طرح اس وقت سے عبد الرحمن سے بدل کر میرا نام عابد حامدی قرار پایا۔

۱۹۷۲ء میں میں نے مولوی سید حامد علی سے ضد کر کے جامعۃ الفلاح ، بلریا گنج ضلع اعظم گڑھ (یوپی) جا کر پڑھنے کے لیے اصرار کیا، جہاں انھوں نے اپنے بڑے صاحب زادے خالد حامدی اور اپنے زیر تربیت دوسرے نو مسلم بھائیوں، نسیم غازی، شمیم غازی، وسیم غازی وغیرہ کو حصول تعلیم کے لیے بھیجا ہوا تھا، چنانچہ میں جامعۃ الفلاح پہنچا۔ وہاں تقریباً پانچ سال رہا۔ صرف عالمیت کا امتحان بعض وجوہ سے نہیں دے پایا۔ ۱۹۷۸ء میں وہاں سے دہلی سے قریب غازی آباد (یوپی) منتقل ہو گیا۔ سید حامد علی اپنے وطن سے دہلی منتقل ہو چکے تھے۔ آٹھ نو مہینے مولوی نسیم غازی صاحب کے یہاں رہا، جو جامعۃ الفلاح سے عالمیت کر کے اپنے وطن غازی آباد (یوپی) آ چکے تھے۔ پھر مراد نگر ضلع غازی آباد میں درس گاہ کھولنے کا پروگرام بنایا، تو وہاں میں نے تدریس کا کام شروع کیا۔ رہائش غازی آباد میں رہی، اسی دوران پانجی ضلع باغپت (یوپی) میں درس گاہ شروع ہوئی تو وہاں منتقل ہو لیا و رتدریس کے فرائض وہاں انجام دینے لگا۔

میری شادی کی بات چیت متعدد مقامات پر چلی، لیکن مسلمانوں میں ذات پات کے رجحان کی موجودگی کی وجہ سے کامیابی نہ ہو پائی۔ بٹراڑہ ضلع مظفر نگر (یوپی) سے تعلق رکھنے والی دوشیزہ ریکھا مسلمانوں سے روابط کے بعد اسلام قبول کر کے فاطمہ ہو چکی تھیں۔ یہ دہلی میں مولوی سید حامد علی کے یہاں بھی کچھ دن رہیں اور غازی آباد میں مولوی نسیم غازی فلاحی صاحب کے یہاں بھی رہیں۔ اور کشن گنج دہلی میں سید حامد حسین کے یہاں بھی ان کا رہنا ہوا۔ انھی سے میرا نکاح مارچ ۱۹۸۲ء میں ہوا۔ الحمد للہ، میرے ان سے دو لڑکے اور لڑکی ہے۔ یہ سب تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ بعض مصالح کے تحت ککرالہ ضلع بدایوں (یوپی) منتقل ہو گیا، جہاں میں نے تدریسی خدمات انجام دیں۔ ا س کے بعد مراد نگر پھر غازی آباد آ گیا، جہاں میں ایک عرصے سے بنارس گلاسز پرائیویٹ لمیٹڈ میں ملازمت کر رہا ہوں۔

میرا وطن سے برابر تعلق برقرار رہا۔ والدین سے گہرا ربط ضبط رہا اور ان کے پاس آتا جاتا رہا۔ ۱۹۸۸ء میں اپنے والد کو اپنے ساتھ لے آیا۔ آنے کے بعد چھ سات مہینے میں ان کا انتقال ہو گیا، لیکن اس سے قبل انھوں نے برضا و رغبت اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کا نام محمد حامد رکھا گیا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد والدہ بھی میرے پاس آ گئیں۔ دو تین سال میرے ساتھ رہیں۔ الحمد للہ انتقال سے قبل انھوں نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان کا نام رضیہ بیگم رکھا گیا تھا۔

اسلام میں وحدانیت کے بعد میرے لیے سب سے متاثر کن نماز میں مساوات اور کھانے پینے میں مسلمانوں کا اجتماعی طور طریقہ ہے، جو مجھے بے حد پسند آیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ نمازیں سب ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور کھانا بھی سب ایک ساتھ کھاتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ عام مسلمانوں میں اسلام سے کافی دوری پائی جاتی ہے۔ ان کا رویہ، ان کا سلوک اور ان کے معاملا ت میں غیر اسلامی عناصر کی اچھی خاصی آمیزش ہے، جس کی وجہ سے ایک غیر مسلم کے اسلام کی طرف بڑھتے قدم رک جاتے ہیں، بلکہ بسا اوقات نو مسلم کے مرتد ہو جانے کا خدشہ بھی ہوتا ہے، اس لیے میری مسلمانوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اسلام کا نمونہ بننے کی کوشش کریں تاکہ اسلام کا پیغام تیزی سے عام ہو اور اسلام قبول کرنے والے اسلام کوبے دھڑک قبول کریں۔

٭٭٭