ازل سے قدرت کا یہی نظام چلا آرہا ہے انسان اپنے کیے کا بدلہ ضرور چکاتا ہے جس کا دوسرا نام مکافات عمل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مباح کاموں میں طلاق کو سب سے مبغوض ترین قرار دیا ہے۔ مادیت پرستی کے اس دور میں طلاق کو بالکل بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا’ ذرا سے جھگڑے پر یا ناچاقی کی وجہ سے ایک بستا ہوا آنگن آتش کدہ بن جاتا ہے۔ چند واقعات قارئین کی نذر ہیں۔ پڑھیے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
معراج پہلوان میرے گاؤں سے چار فرلانگ کے فاصلے پر دوسرے گاؤں میں رہتا ہے۔ اس نے شادی کی تو اسے بیوی بہت اچھی ملی۔ عبادت گزار، فرمانبردار اور خوش اخلاق لیکن معراج کے مزاج میں تنگی اور تندخوئی بہت زیادہ تھی۔ وہ بات بات پر بیوی سے الجھتا اور اس کی پٹائی کرتا تھا۔ ماں سمجھاتی تو اس سے بھی بدتمیزی کرتا تھا حتیٰ کہ تقریباً دو سال کے بعد ہی اس نے اسے طلاق دے دی۔پہلوان نے دوسری شادی کی، اس بیوی سے اس کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ بڑا بیٹا پانچ سال کا تھا، جو کرنٹ لگنے سے مر گیا۔ دوسرا بیٹا اب نو جوان ہے اور پکا سچا بدمعاش ہے اور باپ کے لئے سخت بدنامی کا سبب بنا ہوا ہے۔ چاروں بیٹیاں نوجوان ہیں۔ بڑی کی عمر پچیس سے تجاوز کرگئی ہے لیکن رشتے نہیں ملتے۔ اس کے رزق سے برکت اٹھ گئی ہے۔ اب وہ مزدوری کرنے پر مجبور ہے جبکہ پریشانیوں اور غموں نے اسے نیم جان کردیا ہے اور زندگی جہنم کا نمونہ بن گئی ہے۔
ہمارے گاؤں کے مہر شفیع کی شادی ہوئی تو اسے بیوی بہت اچھی ملی۔ نیک، عبادت گزار اور حلیم الطبع۔بدقسمتی سے اس کا سارا خاندان جاہل اور بے عمل تھا۔ ان لوگوں نے اس لڑکی کی کوئی قدر نہ کی، بلکہ وہ مختلف انداز سے اسے آئے دن پریشان کرتے اور کہتے ‘‘یہ نمازیں ہی پڑھتی رہتی ہے۔ اسے قرآن پڑھنے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ یہ گونگی ہے۔ بولتی نہیں’’ آخر کار مہر شفیع نے اسے ایک ہی سال کے بعد طلاق دے دی۔مہر شفیع نے دوسری شادی کی تو وہ لڑکی پہلی بیوی کے بالکل برعکس تھی۔ یہ بیوی زبان دراز، جھگڑالو، بے عقل اور بے عمل، تنگ آکر اسے انہوں نے الگ مکان میں منتقل کردیا۔ اس بیوی سے مہرشفیع کی چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں اور صرف ایک بیٹا، اس کا گھرہر وقت عموماً جنگ و جدال کا میدان بنارہتا تھا۔اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ بندے خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ یہ قرآن کا فیصلہ ہے خیرمہر شفیع کی پہلی مطلقہ بیوی کی جلد ہی شادی ہوگئی، اسے بہت اچھا خاوند مل گیا۔ سسرال والے اس کی بہت قدر کرتے ہیں وہ اپنے گھر میں بہت خوش ہے۔
پروفیسر عرفان ذکی کا تعلق ایک مذہبی، تعلیم یافتہ اور زمیندار گھرانے سے تھا، وہ ایم اے عربی تھے اور ایم اے اسلامیات بھی۔ نوجوانی میں ان کی شادی اپنی چچازاد سے ہوئی۔ ان کے چچا ان کے گاؤں میں بلکہ پڑوس ہی میں رہتے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر پروفیسر عرفان نے شادی کے دوسرے ہی روز اپنی بیوی کو یہ کہہ کر طلاق دے دی کہ یہ لڑکی مجھے پسند نہیں حالانکہ یہ لڑکی ان کیلئے ہرگز اجنبی نہیں تھی اور ان کی دیکھی بھالی تھی۔دونوں گھرانے باپ اور چچا خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے مگر کیا کرسکتے تھے کیونکہ عرفان صاحب بہت ہی ضدی، اکھڑ مزاج اور خواہش پرست انسان تھے۔تھوڑے ہی عرصے کے بعد پروفیسر عرفان نے بڑا ہی عجیب مطالبہ کردیا کہ میں چھوٹے بھائی لقمان کی منگیتر سے شادی کروں گا۔ یہ لڑکی اپنے امیر والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ وسیع جائیداد کی مالک تھی اور خوبصورت تھی۔ قصہ کوتاہ یہ کہ والدین اور سارے خاندان کو ان کے مطالبے کے سامنے جھکنا پڑا اور عرفان کی شادی اپنے چھوٹے بھائی کی منگیتر سے ہوگئی۔طلعت شادی سے پہلے مکمل تندرست اور صحت مند تھی۔ اسے کوئی معمولی سا بھی روگ نہ تھا مگر عرفان صاحب کے گھر میں آتے ہی پراسرار طور پر اسے کئی بیماریوں نے آلیا۔ اس کے ہاتھوں اور پاؤں پر کئی جلدی تکلیفیں نمودار ہوگئیں کہ نہ وہ باورچی خانے میں کام کرنے کے قابل رہی اور نہ لانڈری میں کوئی خدمت انجام دے سکتی۔ چولہے کے قریب جاتی تو ہاتھوں پر چھالے بن جاتے اور کپڑے دھونے لگتی تو صابن والے پانی سے اس کے پاؤں پر سوجن ہوجاتی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد عجیب و غریب بیماریوں نے اسے گھیرلیا۔ تیسرے چوتھے روز وہ بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہوجاتی اور اس کے منہ سے جھاگ بہنے لگتی۔ اس پر خاموشی کے دورے پڑتے اور کئی کئی دن تک گم سم رہتی۔ بڑی بوڑھیوں نے عرفان صاحب کو بتایا کہ طلعت پر جنات کا سایہ ہے۔چنانچہ موصوف حالانکہ صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔ پھر بھی روایتی پیروں کے چکر لگانے لگے اور ہفتے، عشرے بعد وہ فرحت کی قمیض یا بنیان اٹھاکر کسی عامل کے ہاں حاضری دینے کیلئے چل پڑتے اور یہ سلسلہ بغیر کسی تعطل کیلئے عرصہ دراز تک چلتا رہا۔اللہ نے عرفان صاحب کو دو بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا کیا۔ بیٹا سب سے چھوٹا تھا لیکن ذرا ذہین نہ تھا۔ اس کا پڑھائی میں اور اسکول میں دل ہی نہ لگا۔ بہت مشکلوں سے گھسٹ گھسٹ کر اس نے میٹرک کیا اور پھر انہوں نے اسے ایک کاروبار میں لگادیا، مگر وہ چنداں کامیاب نہ ہوا۔ جوان ہونے پر اس کی شادی کی مگر کئی سالوں کے انتظار کے بعد بھی وہ اولاد سے محروم ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ طلعت کی بیماریوں میں شدت آتی چلی گئی، حتیٰ کہ یہ خبر پروفیسر عرفان اور ان کے کنبے پر بم بن کر گری کہ وہ کینسر میں مبتلا ہے اور یہ خاصا پھیل چکا ہے۔ حیرت انگیز طور پر عرفان صاحب اس انکشاف کے بعد علاج کی طرف سے لاتعلق سے ہوگئے اور طلعت عرفان صاحب کے ایک دوست کے گھر میں آگئی اور وہاں ڈیڑھ دو ماہ تک بے یار و مددگار پڑی رہی۔ عرفان صاحب روزانہ شام کو آتے، رسمی مزاج پرسی کرتے اور چلے جاتے، حتیٰ کہ اسی کیفیت میں وہ ایک روز دم توڑ گئی۔ وفات کے وقت طلعت کی عمر چالیس سال سے کچھ زیادہ تھی اور چونکہ اسوقت تک اس کے والدین زندہ تھے، اس لئے عرفان صاحب کو اس کی جائیداد میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔