آج سے 111 سال پہلے کا سچا واقعہ پیش خدمت ہے۔ ضلع سرگودھا میں دریائے جہلم کے کنارے گوندل قوم آباد تھی۔ چراگاہیں عام تھیں’ گائے بھینس کا دودھ اور بھیڑ بکری کا گوشت عام تھا۔ کاشت کاری برائے نام تھی’ گلہ بانی عام تھی۔گوندلوں کی آبادی کا ایک نوجوان بانکا سجیلا تھا۔ صحت جوانی فارغ البالی’ قبیلے کا گھمنڈ اور خوف خدا سے بے نیازی’ اپنے اندازو اطوار میں شتر بے مہا رتھا۔ لاٹھی ہاتھ میں لے کر’ شاہانہ لباس پہن کر علاقہ آہلی کی گلیوں میں عاد و ثمود کی ذہنیت کا مظاہرہ کرتا اور اکڑتا ہوا نظر آتا۔ ایک روز موسم بہت خوبصورت تھا وہ لاچہ ، لمبی قمیض اور سر پر طرے دار پگڑی پہن کر اپنا پسندیدہ ہتھیار بلم لیکر دریا کے کنارے اپنی بھینسوں کو دیکھنے گیا۔ راستے میں ایک جھونپڑی نظر آئی جہاں دو بچے کھیل رہے تھے۔ قریب ہی ایک کتیا اپنے دوپلوں کو دودھ پلارہی تھی۔ نوجوان گوندل نزدیک آیا تو یہ غرانے لگی۔ نوجوان کا پارہ چڑھ گیا اس پر کوئی انسان ٹیڑھی آنکھ ڈالنے کی جرات نہیں کرتا تھا چہ جائیکہ ایک کتیا یہ حرکت کرے۔ نوجوان آگے بڑھا کتیا پھرغرائی اس نے اگلے لمحے بلم کی انی سے کتیا کا کام تمام کردیا۔ وہ چیخی’ چلائی’ تڑپی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ بے گناہ کتیا مرگئی’ اس کی چیخ وپکار نے عرش الٰہی ہلا کر رکھ دیا۔
چند دن بعد اس گوندل کا اپنے چچازاد بھائی سے جھگڑا ہوگیا۔ دوسرے ہی روز کسی اور کے ہاتھوں اس کا چچا زاد قتل ہوگیا۔ قاتلوں نے لاش دریا برد کردی’ اگلی صبح لاش وہاں کنارے آلگی جہاں اس نوجوان کی بھینسیں بیٹھی جگالی کررہی تھیں۔ مقتول کے باپ نے مذکورہ نوجوان کو ہی قاتل قرار دیا۔ تھانے میں ایف آئی آر درج کرادی گئی اور اسے پکڑ کر گجرات جیل بھیج دیا گیا۔ سیشن جج میانوالی نے کیس کی سماعت کی اور اسے موت کی سزا سنائی۔ اپیلوں کا سلسلہ ڈیڑھ سال چلتا رہا۔ سب مسترد ہوگئیں۔ صرف وائسرائے کی رحم کی اپیل کا فیصلہ باقی تھا۔ ملزم کو یقین تھا کہ اسے پھانسی نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ بے گناہ ہے نیز ٹوانہ برادری سے ان کے گہرے مراسم تھے اسے ان کی سفارش پر بھرپور یقین تھا۔ قاتل اور لوگ تھے جن کی لڑکی کے ساتھ مقتول کے ناجائز تعلقات تھے۔ اللہ کا کوڑا حرکت میں آیا پھانسی کیلئے اسے ڈسٹرکٹ جیل جھنگ کی کوٹھڑی میں بند کردیا گیا۔ یہاں سوتے میں وہ کیا خواب دیکھتا ہے کہ سامنے آسمان سے زمین تک ایک زنجیر لٹکی ہوئی ہے جس کسی کو عدل کی ضرورت ہو وہ اس زنجیر کو ہلاتا ہے۔ چنانچہ یہ نوجوان بھی زنجیر کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے کہ اپنی بے گناہی ثابت کرے مگر وہی کتیا اپنے دو بچوں کے ساتھ حائل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح غراتی ہے اور قریب نہیں جانے دیتی۔ اب اس کی آنکھیں کھلتی ہیں کہ واقعی میں نے بلاوجہ ایک کتیا کے پیٹ میں بلم چبھو کر اسے مارا تھا۔ اس کا بدلہ مجھ سے لیا جارہا ہے۔ تمام اپیلیں اور سفارشیں مسترد ہوجاتی ہیں۔ آخر کار 5 اگست 1902 کو صبح چار بجے اس نوجوان کو ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ اس کی لاش خلاف معمول کافی دیر تک تڑپتی رہی اور یہ پیغام دیتی رہی کہ اللہ رب العزت کو اپنی مخلوق کتنی پیاری ہے اور یہ تقدیر کوئی اندھی’ گونگی یا بہری چیز کا نام نہیں۔ یہ انسان کے اچھے برے اعمال کے تناظر میں حرکت کرتی رہتی ہے۔