میرا لاہور مال روڈ پر دفتر تھا جو میں نے ۲۰۰۴ میں بہت شوق اور بہت محنت سے بنایا تھا۔ میرے پاس چھ ملازمین کام کرتے تھے میرا کاروبار بہت عروج پر تھا میرے آفس میں بینک والے آتے تھے کہ آپ کی بینک سٹیٹمنٹ بہت اچھی ہے روزانہ ہزاروں روپے کا لین دین ہوتا ہے آپ بینک سے کار لیز کروالیں آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا اور آپ گاڑی کے مالک بن جائیں گے میں نے گھر والوں سے مشورہ کیا سب نے کہا کہ رہنے دو۔ میرا دوست جو میرا کلاس فیلو اور رشتہ دار بھی تھا اس کی نئی نئی نوکری لگی تھی بینک میں۔ وہ روزانہ شام کو فارغ ہوکر میرے پاس آجاتا تھا۔ وہ بینک کی مختلف سکیمیں بتاتا رہتا تھا پھر گاڑی کے بارے میں بھی کہ آپ بینک سے لے لو بس اس کاغذ پر سائن کرو اور پیسے جمع کرواؤ اور چند ماہ میں گاڑی آپ کی۔ میں نے ایک دن سائن کردیا اور وہ چند روز بعد آیا اور کہا کہ پیسے جمع کروا دو گاڑی مل جائے گی۔
میں نے انکار کردیا کیونکہ دل نہیں مانتا تھا کہ سود تو لعنت ہے۔ میرا ایک اور دوست ساتھ بیٹھا تھا وہ کہنے لگا کہ میں فیملی والا ہوں اور آج کل میرا گاڑی کے بغیر گزارا نہیں ۔ مجھے دے دو میں بینک سے چھ ماہ کے اندر اندر سارے پیسے دے کر گاڑی لے لوں گا اور تو بھی سود سے بچ جائے گا میں نے اپنی جان بچانے کیلئے اسے گاڑی لے دی۔ بس اس دن سے میرے کاروبار پر زوال شروع ہوگیا اور دن بدن کام کم ہوتا گیا اور ایک دن مجھے دفتر چھوڑنا پڑا اور میں بے روزگار ہوگیا۔ پھر میرے دل میں ایک دن آیا کہ آج مجھے کاروبار کرتے ہوئے سات سال ہوگئے آج تک ایسا نہیں ہوا کہ میں اپنے خرچے سے بھی تنگ ہوں پھر میرے دل میں خیال آیا جو میں بھول چکا تھا کہ وہ لعنت سودی گاڑی ہے جس نے میرا کاروبار تباہ کیا ۔میں نے اپنے دوست کی منت کی کہ تو بینک کو سارے پیسے ادا کر اور مجھے اور خود کو اس گناہ سے چھٹکارا دلوا اور پھر اللہ سے توبہ کی اور دعا کرتا رہا اور ایک دن بینک کو سارے پیسے دے کر سود سے نکل گئے اور پھر چند ماہ میں میرا وہی کاروبار پھر سے آباد ہوگیا۔ اللہ نے مجھ گندے انسان کو پھر سے نواز دیا۔ ورنہ میں تو بہت بڑا ظلم اپنے اور اپنے دوست کے ساتھ کرچکا تھا۔ اللہ نے اس سے نکال کر پھر سے صاف ستھرا کاروبار عطا فرمادیا۔