فضیلۃ الشیخ محمد حسان دورِ حاضر کے محبوب ترین عرب علماء میں سے ایک ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی کو اِسلام کی اشاعت اور تبلیغ کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ انٹر نیٹ پر روزانہ لاکھوں کی تعداد میں اْنکے بیانات سْنے اور ڈاؤن لوڈ کیئے جاتے ہیں۔ ہر عمر اور طبقہ کے لوگ ٹیلویژن چینلز پر اْنکے بیانات کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ اْنکا ہر بیان اور خطاب ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ لہجے کی مٹھاس اور اثر کا اندازہ اِس امر سے لگا یا جا سکتا ہے کہ نیویارک کی ایک کانفرنس میں اْنکے بیان سے متاثر ہو کر 75 لوگوں نے اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا۔ بیسیوں کتابوں کے مصنف ہیں اور اْنکے ہزاروں کیسٹ بیانات بازار میں موجود ہیں۔ 37 سے زیادہ عالمی اور سینکڑوں ملکی کانفرنس اور اجتماعات میں شرکت کر چکے ہیں۔ یہودی لابی اِس مردِ مجاہد سے ہر لمحہ خائف اور لرزاں رہتی ہے۔ ایک ٹیلیویژن چینل کو مسلسل اْن کے بیانات نشر کرنے کی وجہ سے بندش کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ بہر حال ‘الناس’ , ‘الرحمہ’ ، ‘المجد’ اور ‘اقراء ’ چینلز اْن کے بیانات اور فتاویٰ جات کو باقاعدگی سے نشر کر کے عوام الناس کی فلاح کر رہے ہیں۔ شیخ صاحب کے بارے میں مزید معلومات اْنکی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ جبکہ اْن کے خطابات ‘طریق الاسلام’ ، ‘الشبکۃ الا سلامیہ’ اور ‘نداء الاسلام ’ جیسی مشہورِ زمانہ ویب سائٹس پر ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور سْنے جا سکتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالٰی شیخ صاحب کے علم اور اْنکی عمر میں برکت عطا فرمائے۔
مندرجہ ذیل قصہ شیخ صاحب نے اپنے ایک بیان میں سْنایا، آپ کیلئے پیش خدمت ہے۔
ایک عورت کہتی ہے کہ میرا خاوند کسی وجہ سے لمبی مدت کیلئے غائب ہو گیا۔ اْس وقت میں ایک کم عمر بچی کی ماں بھی تھی جبکہ میرا ضعیف العمر باپ بھی ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا۔ ہماری غربت اور مْفلسی اپنی انتہا کو تھی اور اکثر اوقات ہمارے گھر میں کھانے کیلئے کْچھ نہیں ہوتا تھا، اگر دوپہر کو کْچھ کھالیتے تو رات کو بھوکا سونا پڑتاتھا۔ صبر کے ساتھ ہم ہر حال میں اللہ کا شْکر ادا کرتے تھے۔ایک رات کو تو بھوک اور افلاس نے ہمارا وہ امتحان لیا جو اس سے پہلے کبھی نہیں لیا تھا۔ میری بیٹی کو شدید بْخار نے آ لیا۔ بچی کی بْخار اور بھوک سے بنی حالت سے مْجھے اپنی اور اپنے والد کی بھوک بھول گئی۔ ایسی بے کسی اور لاچاری تو کبھی نہ دیکھی تھی، بے قراری حد سے بڑھی تو مجھے اللہ تبارک و تعالٰی کا یہ قول یاد آ گیا: امَّن یجِیبْ المْضطَرَّ اِذَا دَعَاہْ وَیکشِفْ السّْوء- بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اْس سے دْعا کرتا ہے اور (کون اْسکی) تکلیف کو دور کرتا ہے۔ جی ہاں ہر قسم کی تکلیف چاہے وہ بھوک کی ہو یا بیماری کی یا غربت و افلاس اور گناہوں کی، کون ہے اْس ذاتِ پاک کے سوا جو ان سب تکلیفوں کو دور کر سکتا ہے؟ یہ سب سوچ کر میں اْٹھی اور جا کر وضو کیا، واپس آ کر بچی کے ماتھے پر پانی سے بھیگی ہوئی پٹی رکھی اور اللہ کے حضور نماز کی ادائیگی کیلئے کھڑی ہو گئی۔ مختصر سی نماز پڑھنے کے بعد ہاتھ اْٹھا کر بچی کیلئے دْعا کی، اْس کے ماتھے سے پٹی اْتار کر دوبارہ پانی سے بھگو کر رکھی اور ایک بار پھر نماز کیلئے کھڑی ہو گئی۔ نماز کے بعد ایک بار پھر بارگاہِ الٰہی میں دْعا کیلئے ہاتھ اْٹھائے، دعا سے فراغت پر پانی کی پٹی تبدیل کی اور دوبارہ نماز کیلئے کھڑی ہو گئی۔ اور یہ عمل میں نے کئی بار کیا۔ جب میں یہ سب کْچھ بار بار دْہرا رہی تھی تو کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، اِس حیرت کے ساتھ بھلا رات کے اِس پہر کون ہو سکتا ہے میرے والد نے پوچھا: کون؟ اور جواب آیا کہ میں ڈاکٹر ہوں۔ میں اور میرا والد ہم دونوں ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ اِسکو کِس نے بْلایا ہے۔ میرے والد نے جا کر دروازہ کھولا۔ ڈاکٹر نے آتے ہی پوچھا کہ مریضہ کِدھر ہے اور ہم نے سادگی سے بچی کی طرف اِشارہ کردیا۔ ڈاکٹر نے بچی کو چیک کیا، کاغذ پر ایک نْسخہ لکھ کر میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا؛ لائیے میری فیس دیجیئے اور میں چلتا ہوں۔ میں نے آہستگی سے جواب دیا؛ ڈاکٹر صاحب ہمارے پاس تو آپکو دینے کیلئے فیس کے پیسے نہیں ہیں بلکہ ہمارے پاس تو کْچھ بھی نہیں ہے۔ میرا یہ جواب سْنتے ہی ڈاکٹر جھلا اْٹھا اور غصے سے تقریبا ًدھاڑتے ہوئے بولا کہ اگر فیس دینے کیلئے پیسے نہیں تھے تو مجھے آدھی رات کو فون کر کے کیوں بْلایا تھا، کیوں مْجھے اِس طرح بے آرام کیا ہے تْم لوگوں نے؟ ڈاکٹر کے منہ سے ٹیلیفون کا سْن کر مجھے لگا کہ ڈاکٹر غلطی سے ہمارے گھر آ گیا ہے۔ میں نے ہمت کرتے ہوئے جواب دیا؛ ڈاکٹر صاحب، ہم نے آپکو ٹیلیفون کر کے نہیں بْلایا، بلکہ ہمارے پاس تو ٹیلیفون ہے ہی نہیں۔ یہ سْن کر ڈاکٹر نے مْجھ سے پوچھا اچھا تو کیا یہ فلاں شخص کا گھر نہیں ہے؟ میں نے کہا نہیں ڈاکٹر صاحب، فلان صاحب ہمارا ہمسایہ ہے۔ یہ سْن کر ڈاکٹر تھوڑا سا خاموش ہوا اور پھر ہمارے گھر سے نکل کر ہمارے ہمسائے کے گھر چلا گیا اور ہم خجالت اور شرمندگی سے خاموش بیٹھے رہے۔ تھوڑی دیر ہی گْزری تھی کہ ڈاکٹر ایک بار پھرہمارے گھر آ گیا۔ آنکھوں میں آنسو اور رْندھی ہوئی آواز میں بولا؛ اللہ کی قسم تمہارے گھر سے اْس وقت تک نہیں جاؤنگا جب تک تمہارا پورا قصہ نہیں سْن لوں گا۔ اور میں نے ڈاکٹر کوا پنا پورا قصہ سْنا ڈالا کہ کسطرح میں بچی کے ماتھے پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی اور اللہ کے حضور دعا بھی مانگ رہی تھی۔ ڈاکٹر جلدی سے اْٹھ کر باہر چلا گیا اور کْچھ دیر کے بعد ہمارے لئے رات کا کھانا اور بچی کیلئے دوائیں اور کْچھ گھریلو ضروریات کے سامان کے ساتھ لوٹا۔ ساتھ ہی اْس نے ہمیں بتایا کہ اْسکی طرف سے ہر مہینے ایک تنخواہ ہمیں اْس وقت تک ملتی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔
جی ہاں، یہ اللہ پر بھروسے کی کہانی ہے۔ صرف یاد دہانی کیلئے اللہ تبارک و تعالٰی کی ذات پر اِس سے بھی بڑے بھروسے کی کہانی سْنیئے کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے تعاقب میں آنے والے دشمنوں سے خوفزدہ جان بچاتے ہوئے اھل مدین کی طرف پہنچے اور کنویں پر کھڑی دو لڑکیوں کے ریوڑ کو پانی پِلا چْکے تو اْنہوں نے کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا تھا حالانکہ اْس وقت وہ بھوک سے بے حال تھے۔ اْنہوں نے بقول قْرآن مجید صِرف اتنا کہا تھا رَبِّ انِّی لِمَا اَنزَلتَ اِلَیَّ مِن خَیرٍ فَقِیر- پروردگا رمیں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے) اور پھر اِس کے بعد کا قصہ آپ جانتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے جواب یوں تھا کہ: ایک لڑکی سے مفت میں شادی اور دس سال کیلئے کام کا معاہدہ۔ جی ہاں: اللہ پر بھروسہ کیجیئے؛ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی تو الکریم، الرحیم، القریب، المجیب اور الواحد الاحد ہیں، وہ ہمیں ہماری جنم دینے والی ماؤں سے بھی زیادہ پیار اور رحم کرنے والے ہیں۔
٭٭٭