ترجمہ و تلخیص ، سمارا
اس مضمون کی مصنفہ Tennille Webster ہیں۔ مختلف انٹر نیٹ سائٹس پر آپ کے مضامین چھپتے رہتے ہیں۔
میں اپنے وقت کا زیادہ تر حصہ اسی اسکرین کے سامنے گزارتی ہوں جس کے آگے میں ابھی بھی موجود ہوں۔ یہ ایک چھوٹی سی دس انچ کی ایل سی ڈی اسکرین ہے۔ اس اسکرین اور میرے بچوں میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔ یہ میرے بچوں کی مماثلت صرف اسی وقت اختیار کرتی ہے جب میں ان کی تصویریں دیکھ رہی ہوتی ہوں۔ کام کے اوقات میں بچوں کی تصویریں دیکھتے ہوئے مجھے احساس جرم ہوتا ہے کہ میں کام کی بجائے کچھ اورکر رہی ہوں۔ گویا جس وقت کی مجھے تنخواہ ملتی ہے اس وقت میں کام کی بجائے اپنے بچوں کی تصویریں دیکھنے میں مشغول ہوں۔ میری نظر میں یہ اپنے کام اور ذمہ داری کے ساتھ بے ایمانی ہے۔ مجھے کام دینے والوں نے یہ سوچ کر نوکری دی ہے کہ میں بہتر طریقے سے اپنی ذمہ داری انجام دوں گی لیکن حقیقت میں، میں کام کی بجائے کمپیوٹر اسکرین پر اپنے بچوں کی تصویریں دیکھنا پسند کرتی ہوں۔لیکن میں کام کرتی کیوں ہوں؟میں کام اس لئے کرتی ہوں تاکہ اپنے بچوں کی بہتر پرورش اور مستقبل کے لئے رقم کما سکوں۔
یہ مسئلہ صرف میرا ہی نہیں ہے۔ بہت سارے والدین اس کا میری طرح ہی شکار ہیں۔ یہ سوال کئی والدین کے سامنے ہے کہ وہ کس بات کو اہمیت دیں؟ پیسے کمانے کو؟ جس کی مدد سے بچوں کی پرورش کی جا سکے یا پھر ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کو؟
اپنے اگلے ہفتے کے شیڈیول پر نظر ڈالتے ہی میں دباؤ کا شکار ہو جاتی ہوں۔ پیر کو میری سب سے چھوٹی بیٹی، جو جونیر ہائی اسکول میں ہے، کے اسکول میں ایک پروگرام ہے جس میں مجھے شرکت کرنی ہے۔ عین اسی وقت دفتر میں میری ایک اہم میٹنگ ہے۔ جہاں میں رہتی ہوں وہاں کے ہوم اونر ایسوسی ایشن کی میٹنگ بھی پیر کے روز ہی ہے۔ منگل کے دن میرے ایک پراجیکٹ کی ڈیڈ لائن ہے اور اسی دن مجھے اپنی دوسری بیٹی کی اسکول میٹنگ میں شرکت کرنی ہے۔ پیر اور منگل کے اتنے مصروف شیڈیول کے بعد مجھے بالکل یاد نہیں ہے کہ میری بدھ کی کیا مصروفیات ہیں۔
اور آج۔۔۔۔؟آج ہمارے ہوم ٹاؤن میں ایک پریڈ ہے۔ میری سب سے بڑی بیٹی اس پریڈ میں حصہ لے رہی ہے۔ شرکاء کے والدین، رشتہ دار اور اعزا اس کو دیکھنے آ رہے ہیں اور میں۔۔۔۔؟میری آج پانچ ڈیڈ لائنز ہیں اس لئے چاہنے کے باوجود میں پریڈ دیکھنے نہیں جا سکتی۔ مجھے مجبوراً اپنی بیٹی سے معذرت کرنی پڑی ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا پہلے بھی کئی دفعہ ہو چکا ہے اور میں صرف یہ امید کرسکتی ہوں کہ میں اس سے کچھ سبق سیکھ لوں۔
جب میں ایک ناول نگار تھی تب میں لکھتے ہوئے خود کو اپنے دفتر میں بند کر لیتی تھی تاکہ مکمل سکون اور توجہ کے ساتھ لکھ سکوں اور اپنا مکمل وقت ناول کو ہی دوں۔ میں کئی کئی دن اپنے دفتر سے باہر نہیں نکلتی تھی۔ لیکن مجھے بہت بعد میں احساس ہوا کہ ایسا کرنے سے میرے بچوں نے یہ سوچا کہ میں نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ میرے بچے اب بڑے ہو چکے ہیں اور اپنی راہیں بنا چکے ہیں۔ لیکن میری ایک بیٹی اب بھی چھوٹی ہے اور اسے ابھی بھی ماں کی ضرورت ہے۔ یہ سوچ لینا آسان ہے کہ ماں کی انہیں ضرورت نہیں ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔
بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ان کے لئے کتنا اہم ہوتا ہے یہ ان کے چہروں پہ لکھا نظر آ جاتا ہے جب وہ ہماری طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ یہ اہمیت اس معصوم اور نرم لمس میں ہوتی ہے جس کو ہم صرف تب ہی محسوس کر سکتے ہیں جب ہم ان کے نزدیک ہوں۔ یہ ان کی ہنسی میں ہوتا ہے جب وہ لڈو یا کوئی اور کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں۔ یا اس بغلگیری میں ہوتا ہے جب وہ دور سے دوڑتے ہوئے ہمارے پاس آتے ہیں اور آتے ساتھ گلے لگ جاتے ہیں۔ اور اس خوشی اور جوش میں ہوتا ہے جس سے وہ اپنے پورے دن کی روئداد سناتے ہیں۔اس سب کے بدلے ہمیں ان کو صرف کچھ وقت دینا ہوتا ہے۔ زندگی گزارنے کے لئے کام کرنا اچھی بات ہے لیکن کام کے لئے زندہ رہنا نقصان دہ، غیر صحتمندانہ اور غیر مفید ہے۔ جن رشتوں کے ساتھ ہم نے عمر بھر رہنا ہوتا ہے وہ ہماری توجہ اور وقت کے حقدار ہیں۔ جب میں اپنے آپکو کام، لکھنے اور اپنے بچوں کی باتوں کے درمیاں سینڈوچ بنا پاتی ہوں، تب مجھے یہ جملہ یاد آتا ہے جو میں نے کبھی سنا تھا، ‘‘کاش میں نے اپنے دفتر میں زیادہ وقت گزارا ہوتا، کبھی کسی نے اپنی قبر ِپہ یہ کتبہ نہیں لکھوایا۔’’چنانچہ پیر والے دن میرے لئے بیک وقت دو جگہ موجود ہونا نا ممکن ہے اس لئے میں اپنی بیٹی کے اسکول پروگرام میں شرکت کروں گی اور دفتر کی میٹنگ کے شرکاکو یہ سوچنے دوں گی کہ میں غائب ہو گئی ہوں؟۔میں وہاں ہوں گی جہاں مجھے ہونا چاہئے۔