راوی ، سحرش خان
تحریر ، فاطمہ بلگرامی
‘‘چل…… اندر چل……!’’ کہہ کر ماں نے مجھے دھکا دیا اور میں اوندھے منہ کوٹھڑی میں جاگری۔ میں اٹھنے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ کوٹھڑی کا دروازہ دھڑ سے بند ہوگیا اور اندھیرے کی عفریت نے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔ میں جو اندھیرے سے حد درجہ ڈرتی تھی مزید سہم گئی۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری ماں میرے ساتھ ایسا سلوک کرے گی۔ میرے قبیلے میں لڑکیوں کی پیدائش پر خوشیاں نہیں منائی جاتیں مگر میں نے یہ سنا تھا کہ میری پیدائش پر میرے والدین بہت خوش تھے۔ ہوش سنبھالنے پر باپ کو شفقت لٹاتے اور ماں کو مامتا بکھیرتے پایا۔ دونوں ہی مجھے حد سے زیادہ چاہتے تھے۔عام طور پر ہمارے افغانستان میں لڑکیوں کو اتنی آزادی نہیں ملتی جتنی ماں باپ نے مجھے دے رکھی تھی۔ شہر سے لاکر اچھے اچھے کپڑے پہناتے مٹھائیاں دیتے۔ مجھے ہر قسم کی آسائش میسر تھی۔ ہمارے صوبے ‘‘میدان’’ میں اتنی آسائشیں لڑکیوں کے لیے خواب تھیں مگر مجھے ملتیں تھیں۔ پھر بھی مجھ پر اس دن ایسی سختیاں کی جارہی تھیں۔دراصل اس میں میرے ماں باپ کا قصور نہیں تھا۔ قصور تھا تو حالات کا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو بستی والے انہیں بستی سے نکال دیتے کیونکہ مجھے اندھیری کوٹھڑی میں’ اس کوٹھری میں جہاں جانور رکھے جاتے تھے وہاں رکھنے کا حکم صادر ہوا تھا۔ اسی حکم پر ماں مجھے یہاں دھکیل گئی تھی اور تب سے میں ایک کونے میں ڈری سہمی گم صم بیٹھی تھی۔ ہر پل مجھے یوں لگتا جیسے ابھی کسی کونے سے کوئی جن یا بھوت نکلے گا اور میرا گلا دبا دے گا۔ہر طرف جانوروں کی گندگی پھیلی تھی۔ تعفن سے سانس لینا دو بھر تھا۔ اگر حالات ایسے نہ ہوتے تو شاید ماں باپ مجھے کبھی بھی اس گندگی میں نہ پھینکتے۔ یہ بھی تو ان کا پیار تھا کہ مجھے اس گندے کمرے میں رکھے ہوئے تھے ورنہ مجھے جس بیماری نے گھیر لیا تھا اس میں مبتلا شخص کو تو بستی سے نکال دیا جاتا تھا۔ اماں ابا نے جرگے سے ہاتھ جوڑ کر التجا کی تھی تب یہ حکم ہوا تھا کہ مریضہ کو انسانوں سے دور رکھو اور میں جانوروں کے درمیان پہنچا دی گئی تھی۔
میرا پورا جسم زخموں سے چور تھا۔ جا بجا پھوڑے رس رہے تھے۔ پیپ اور خون بہہ رہا تھا۔ اگر کوئی پرانا واقف کار مجھے اس حالت میں دیکھ لیتا تو شاید پہچان بھی نہ پاتا کیوں کہ میری خوب صورتی خواب ہوگئی تھی۔ میرا چہرہ بھیانک ہوگیا تھا۔ اسی لیے مجھے روٹی اور پانی دینے والے بھی مجھ سے دور رہتے۔ ایک لمبی سی چھڑی میں ڈول باندھ کر مجھ تک پہنچایا جاتا۔ کوئی بھی میرے پاس آنا پسند نہ کرتا۔ انسانوں کی آواز سننے کے لیے ترس گئی تھی۔ جانوروں کے درمیان ایک سال رہ رہ کر میں خود کو بھی جانور ہی سمجھنے لگی تھی۔ عادت واطوار میں بھی ان کی جھلک نظر آنے لگی تھی۔
اس دوران میں ایک روز میری زندگی میں ایک حسین تبدیلی رونما ہوگئی۔ یہ تبدیلی بہت حسین تھی مگر میں سمجھ نہ سکی اس لیے دل بھر کر چیخی تھی۔ باہر نکالنے کی کوشش کرنے والوں سے خوب زور آزمائی کی تھی مگر ان لوگوں نے میڈم کے حکم سے مجھے باہر نکال ہی لیا۔ یہ میڈم بھی عجیب شخصیت تھیں۔ پاکستان کے شہر کراچی سے مریضوں کی تلاش میں ‘‘میدان’’ آئی تھیں۔ یوں تو وہ جرمنی کی تھیں مگر پاکستان میں خدمت خلق کرنے کے لیے رہ رہی تھیں۔ پتا نہیں کیسے انہیں میرے بارے میں پتا چل گیا تھا اور وہ مجھے لینے کے لیے آگئی تھیں۔مجھے اس جانوروں والی کوٹھری سے نکالا گیا۔ میرے جسم سے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے۔ کپڑے پھٹ کر چیتھڑوں میں بدل گئے تھے۔ ایسی حالت میں ڈرائیور نے مجھے گاڑی میں بٹھانے سے انکار کردیا مگر وہ جو میڈم تھیں انہوں نے منت سماجت کرکے ڈرائیور کو راضی کر ہی لیا اور مجھے اگلی سیٹ پر بٹھا دیا گیا۔ کسی نہ کسی طرح میں کراچی پہنچ ہی گئی۔
کراچی پہنچ کر مجھے میری ایڈ لیڈی لیپروسی سینٹر میں لایا گیا۔ یہاں پہنچ کر میری آنکھیں ہی کھلی رہ گئیں۔ اتنی عمدہ غذائیں دی گئیں۔ قیمتی سے قیمتی دوائیں دی گئیں کہ میں تیزی سے صحت یاب ہونے لگی۔ لباس کا بھی خیال رکھا جانے لگا نتیجہ یہ نکلا کہ میری صحت تیزی سے سدھرنے لگی۔مجھے صحت یاب ہوتے دیکھ کر سینٹر کے تمام افراد خوش تھے۔ اسی اسپتال میں میرے علاقے ‘‘میدان’’ کے کئی اور مریض بھی داخل تھے جن سے میں خالی وقت میں باتیں کرتی۔ ہنسی مذاق ہوتا اور وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ انہی لوگوں میں حسن بھی تھا وہ بھی میرے علاقے کا تھا اور اسے بھی وہی مرض تھا جو مجھے تھا لیکن اب وہ بھی روبہ صحت تھا۔ اس سے باتیں کرنا مجھے زیادہ اچھا لگتا تھا۔ اس کی باتوں سے مجھے اپنائیت کی خوشبو آتی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ اچھا لگنا قربت میں بدل گیا۔ میرا دل پوری طرح اس کی چاہت میں ڈوب چکا تھا۔ پھر ہم نے متفقہ طور پر ایک ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ ہمارے اس فیصلے سے سینٹر کا ہر آدمی خوش تھا۔ ڈاکٹر بھی خوش تھے کہ جو زخم مجھے لگ چکا تھا اس کا اب مداوا ہونے والا تھا۔بالآخر اسپتال کے تمام اسٹاف کی موجودگی میں میرا نکاح حسن کے ساتھ ہوگیا اور میں نے ایک نئی زندگی کی شروعات کردیں۔
ہمیں ایک ہوئے عرصہ گزر چکا ہے۔ اب میرے دو بچے بھی ہیں ہمارا گھرانہ مکمل ہے۔ ہم خوش خوش زندگی کی شاہراہ پر قدم بڑھا رہے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جذام لاعلاج مرض ہے ان کے لیے میری زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم اور ہمارے بچے کتنے صحت مند ہیں۔ پھر بھی نہ جانے کیوں کبھی کبھی مجھے یہ خیال آجاتا ہے کہ کاش کوئی میرے بچپن کے دن بھی مجھے لوٹا دیتا۔